فکر و نظر / مضامین و مقالات

وادئ نیپال میں (پہلی قسط)

🖊 ظفر امام

21/ ستمبر 2022؁ء بروز بدھ کی رات کا ابتدائی حصہ تھا،جب مجھے اپنے مدرسے کے نائب ناظم جناب حضرت اقدس الحاج قاری مسعودالرحمن صاحب مدظلہ العالی کا حکم نامہ ملا کہ ” صبح آٹھ بجے تیار رہیےگا،نیپال کے ایک مدرسے سے چھت ڈھلائی کی دعوت آئی ہے،آپ کو بھی میرے ساتھ چلنا ہے“ حکم نامہ سن کر میں سر و قد جھوم اٹھا، ایک اَن دیکھی مسرت کی لہر میرے وجود میں رینگ گئی، میرے ہونٹ حضرت قاری صاحب کی درازگئ عمر کے لئے دست بدعا ہوگئے تا کہ عرصے تک ہم چھوٹوں پر ان کی شفقتیں اور عنایتیں یونہی بنی رہیں،اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ نئی نئی جگہوں کی سیر اور نئے نئے مقام کی تفریح تو اپنا دیرینہ خواب ہے،میں ہر نئی جگہ جانے اور  وہاں سے عبرت و موعظت کے موتی چننے کے لئے ہمہ وقت آمادۂ سفر رہتا ہوں، گو کہ اس سے پہلے بھی کئی ایک بار نیپال جانے کا اتفاق پیش آچکا تھا مگر اس بار کی نوعیت کچھ الگ تھی،کیونکہ جس مقام پر اس بار جانے کا موقع فراہم ہو رہا تھا برسوں سے اس کے دیدار کا خواب آنکھوں میں سنجوئے ہوئے تھا،جو اب جا کر شرمندۂ تعبیر ہو رہا تھا۔

رات ہی میں نے کپڑے پر استری کرلی،بعد فجر اپنے متعلقہ کتاب کو پڑھا دیا،اس کے بعد نہا دھو کر آٹھ بجے کا شدت سے انتظار کرنے لگا،مگر رُت برسات کی تھی،رات سے ہی موسم بپھرا ہوا تھا،ابرِ نیساں گھن گرج رہے تھے،آٹھ بجنے میں قدرے وقفہ تھا کہ بادل نے اپنا دہانہ کھول دیا اور پھر اس زور سے برسنے لگا کہ مجھے ایک بار پھر اپنے اس خواب پر خاک پڑتی دکھائی دینے لگی،اُدھر بادل زور سے برس رہا تھا اور اِدھر میں کمرے میں پیچ و تاب کھا رہا تھا اور بار بار باہر نکل کر بادل کے ارادے کو بھانپنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا، مسلسل ڈیڑھ گھنٹہ برسنے کے بعد بادل تھما اور موسم صاف ہوا،پھر میں ابھی کمرے ہی میں بیٹھا تھا کہ نیچے مدرسے کے وسیع و عریض لان سے گاڑی کی سیٹی پردۂ سماعت سے ٹکرائی،میں نے جلدی سے پاجامہ زیبِ تن کیا اور سرپٹ نیچے کو بھاگا۔

یہاں میں پہلے ایک بات قاری صاحب کے حوالے سے وضاحت کردوں کہ قاری صاحب نے برسوں سے اپنے والد بزرگوار نمونۂ سلف حضرت اقدس الحاج مولانا انوار عالم صاحب مدظلہ العالی {ناظم عمومی دارالعلوم بہادرگنج}کے زیرِ تربیت اور سایۂ عاطفت میں رہ کر انتظام و انصرام میں جتنی مہارت حاصل کر لی ہے اس سے کہیں زیادہ انہوں نے وقت کی پابندی کو اپنے دامنِ عمل کے ساتھ گانٹھ لیا ہے، حضرت ناظم صاحب کے اشغال و اسفار کا ایک جگ قائل ہے،مگر جب سے حضرت ناظم صاحب کی طبیعت بگڑی ہے تب سے ہی قاری صاحب حضرت ناظم صاحب کے سفر و حضر کے تقریبا سارے امور سر کرتے ہیں لیکن آپ کے نظام الاوقات میں خلل شاذ ہی ہوتا ہے۔
   

گاڑی نیچے تیار کھڑی تھی،چست و چوبند ڈرائیور ہارن پے ہارن بجائے جا رہا تھا،میں بھاگا بھاگا گاڑی تک پہونچا اور پچھلی نشست سنبھال کر اس میں بیٹھ گیا،تیز بارش کے بعد موسم بڑا کیف انگیز ہوگیا تھا،بارش کے بوندوں نے فضا کو دُھل دُھلا کر بڑا پُربہار اور دل فریب بنا دیا تھا،چرخ کہن کی پہنائیوں میں کہیں کہیں ایک آدھ لکۂ ابر (بادل کا ٹکڑا) دیدۂ فلک کے ارد گرد منڈلاتا دکھائی دے رہا تھا،بارش میں نہائی ہوئی سورج کی مدھم اور دل آگیں روشنی نے کائنات کے پردے پر نور کی کرنیں بکھیر دی تھی،بادِ صبا کے نم آلود جھونکے مسامات جسم سے ٹکرا کر کیف و سرور کا احساس دلا رہے تھے۔
    

اس روح پرور اور دلآویز موسم میں ہماری گاڑی کسی صبا رفتار گھوڑے کی مانند  اپنا راستہ اس طور پر ناپتی چلی جا رہی تھی کہ کہیں سطح زمین پر نگاہیں ٹھہرتی ہی نہیں تھیں،قاری صاحب موصوف تو اپنے اوراد و اشغال میں مصروف ہوگئے،میں ٹھہرا فرصت کا بندہ، فرصت کے ان لمحات میں جھپکیاں مارنے کے علاوہ اور کر ہی کیا سکتا تھا،موسم بھی نیند آور تھا،سو بیٹھے بیٹھے کچھ دیر کے لئے آنکھیں میچ لیں اور پھر آنکھیں اس دھچکے پر جا کھلیں جب ہماری گاڑی برق رفتاری کے ساتھ آٹھ دس کیلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے ایک پُل کے ابھرے ہوئے پُشتے سے جا ٹکرائی۔

آنکھیں کھلیں تو دیکھا کہ پُل کے نیچے کنکئی ندی بڑے وقار اور تمکنت کے ساتھ بہہ رہی ہے،(کیونکہ اس وقت ندی کی کوکھ طغیانیوں اور تلاطموں سے خالی تھی،کنکئ ندی جب اپنے شباب پر ہوتی ہے تو ہوش ربائی اور قیامت خیزی والا منظر پیش کرتی ہے،اس کی کوہان نما لہریں جب بَل کھاتی ہوئی منجدھار میں بہتی ہیں تو آنکھیں کچھ پل کے لئے ٹھہر اور دل تھم سا جاتا ہے،مگر جب وہی ندی اتری ہوئی ہوتی ہے تو اس کے ساحل سے ٹکراتے دھاروں کی تانیں کافی وجد آفریں محسوس ہوتی ہیں)پانی کے سبک رفتار دھارے ساحل پر لگے دفاعی پتھروں سے ٹکرا کر آبشاروں کا سا سماں باندھ رہے ہیں،اور دور کنکئی ندی کے کنارے لگے سفید پوش سرکنڈوں کی لمبوتری دیدہ فریب چادر ہلکی ہلکی ہواؤں کے دوش پر ہلکورے مار رہی ہے۔

ربع کیلو میٹر کی مسافت تک پھیلا ہوا یہ پُل بڑی آن بان اور شان کے ساتھ لوچا نامی گاؤں کے گھاٹ پر ایستاد ہے،جب جب بھی اس پل پر سے گزرنا ہوتا ہے،( ہفتے میں تو ایک بار گزرنا ہو ہی جاتا ہے )یہ پُل کشن گنج کی آبرو،فخرِ ملت مفکرِ امت حضرت مولانا اسرارالحق صاحب قاسمی رحمة اللہ علیہ کی یاد تازہ کر جاتا ہے،اور آپ کی روح مقدس کی ترقی درجات کے لئے دعاؤں کے دہانے کھول دیتا ہے،یہ پُل سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگوں کی آنکھوں کے خوابوں کی تعبیر ہے،آپؒ سے پہلے بھی کشن گنج کی سرزمین پر بہت سے ایم پی ایم ایل اے نمودار ہوئے مگر سب نے سوائے سیاست کی روٹی سینکنے اور جھوٹے خواب دکھانے کے اور کچھ بھی نہیں کیا،مگر حضرتؒ کی ذات نے جو کام کر دکھایا اور اپنے اس کام سے ہزاروں لوگوں کے لئے راحت رسانی کے جو دروازے کھول دئے اس کے لئے ایک مدت مدید تک لوگوں کے دلوں میں آپ کی حکمرانی رہے گی۔
   

در اصل یہ پُل کئی درجن گاؤں کو بہادرگنج اور کشن گنج سے جوڑتا ہے،اس پُل نے ہزاروں لوگوں کو راستوں کی جاں گسل کُلفتوں سے نجات دلائی ہے،ورنہ آج سے چند سال پہلے تک برسات کے موسم میں خود لوچا والوں کو اِس گاؤں سے اُس گاؤں جانے کے لالے پڑ جاتے تھے،بسا اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ ندی کا پانی اترا ہوا ہے اور لوگ بازار سے سودا سلف لانے کے لئے اُس پار سے اِس پار آئے اور اس بیچ ندی کا پانی چڑھ آیا تو اب شام تک اور کبھی اگلے دن تک لوگ واپس اپنے گھر پہونچنے کے لئے انتظار کرنے کومجبور ہوجاتے تھے،ہمارا راستہ بھی چونکہ ادھر سے ہی گزرتا ہے اس لئے اس پُل کے وجود سے پہلے ہم نے راستہ پیمائی میں جو مشقتیں جھیلی اور جو پریشانیاں اٹھائی ہیں وہ بیان سے باہر ہے،بس آپ اتنا سُن کر اندازہ کرلیں کہ اس پُل کے نا ہونے کی وجہ سے برسات کے موسم میں ہمیں بیس کیلو میٹر کا سفر ساٹھ کیلو میٹر گھوم کر طے کرنا پڑتا تھا اور غیر برسات میں اسی ندی کی ریت کے صحرا کو پار کرکے اپنے گاؤں آنا جانا پڑتا تھا،مگر اب حضرتؒ کے توسط سے اللہ نے اتنی آسانی فراہم کردی ہے کہ گاڑی اور سائیکل والے پلک جھپکتے ہی اس ناقابل عبور ندی کو پار کرجاتے ہیں۔

  بہر حال ہم تقریبا ایک گھنٹہ کے بعد اپنی منزلِ مقصود کے دہانے پر پہونچے، ہماری منزلِ مقصود نیپال کی ایک لق و دق وادی تھی جس کی آغوشِ بےکراں میں گلاب کا ایک پھول اپنا جوبن کھلائے اٹکھیلیاں کر رہا ہے،(یہ ایک مدرسہ ہے جس کی تفصیل اگلی قسط میں آئےگی ان شاء اللہ)مگر ۔۔۔
                      

قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
                  دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا
  

  نیپال کی وہی سرحد جو کبھی ہمارے لئے گھر آنگن کی حیثیت رکھتی تھی اس دن ایک ناقابلِ عبور کھائی بن گئی،اس کے اگلے دن چونکہ امت شاہ کی اس سرحد پر آمد تھی اس لئے انڈیا کی کسی بھی گاڑی کو سرحد پار کرنے کا اجازت نامہ نہیں مل رہا تھا،امت شاہ کی آمد کی تیاری بڑی دھوم دھام سے جاری تھی،اوبڑ کھابڑ روڈوں کو سجا بجا کر دلہن بنایا جا رہا تھا،پولیس کی بےشمار گاڑیاں قطار اندر قطار انتظامات و انصرامات کی درستی کے لئے چوکس بنی پھر رہی تھیں، جگہ جگہ پولیس کھڑی ہر وارد و صادر سے پوچھ تاچھ کر رہی تھی،بارڈر پر سنسر بٹھادئے گئے تھے، لوگ دور کا چکر کاٹ کر ایک چور راستہ سے آنا جانا کر رہے تھے،ہماری منزل چونکہ وہاں سے ابھی کافی دور تھی،اور ہم ایک مختصر سے قافلے کی صورت میں چل رہے تھے،گاڑی ہمارے لئے لابدی امر تھی،مگر مصیبت یہ آن پڑی تھی کہ گاڑی کو آگے بڑھانے کی اجازت نہیں مل رہی تھی،اس لئے طے پایا کہ گاڑی وہیں چھوڑ دی جائے اور کچھ دور موٹر سائیکل (چور راستے سے موٹر سائیکل ہی جا سکتی تھی) پر چل کر سرحد کو پار کیا جائے اور آگے کے لئے نیپال کی گاڑی بک کی جائے مگر ادھر دوسری مصیبت ہمارے لئے یہ تیار کھڑی تھی کہ جس مدرسے میں ہم کو چھت ڈھلائی کے لئے جانا تھا چھت ڈھلائی کے لئے آنے والی گارا ساز گاڑی مدرسے کے سامنے ہی ایک بھیانک دلدل میں پھنس گئی جس کو اس دلدل سے نکالنے کے لئے گھنٹوں درکار تھے سو قافلہ سالار یعنی قاری صاحب کا پروگرام یہ بنا کہ جب تک کہیں اور چلا جائے۔
  

قاری صاحب کو چونکہ انڈیا کے اسی علاقے میں وہاں سے کچھ فاصلے پر ایک میٹنگ میں بھی دعوت تھی سو قاری صاحب نے ڈرائیور سے کہا کہ” گاڑی گھماؤ اور چلو میٹنگ سے ہو آتے ہیں “ اور پھر کچھ ہی دیر میں ہماری گاڑی دوسری منزل کی سمت دوڑ پڑی،جب ہم لوگ میٹنگ والے گاؤں میں پہونچے اس وقت میٹنگ شروع ہونے میں قدرے تاخیر تھی، اس بیچ اسی گاؤں کے ایک نیک دل شخص نے ہمیں دعا کے لئے اپنے گھر مدعو کیا،باوجودیکہ اس شخص کی خواہش تھی کہ قاری صاحب دعا کریں،مگر قاری صاحب فراخیٔ دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ناچیز سے دعا کروائی،دعا سے پہلے ہی اس شخص نے اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کرتے ہوئے میٹھے سیب اور تازہ دودھ کے گلاس ہمارے سامنے پیش کئے،اتفاق سے قاری صاحب کا اس دن روزہ تھا، اور میں بچپن سے ہی دودھ کا پرہیزی ہوں،میں نے سیب کی چند قاشیں کھائیں اور نا چاہتے ہوئے بھی قاری صاحب کے اصرار پر دیسی دودھ کے چند گھونٹ اپنے حلق میں انڈیل لئے۔ (جاری)
                                    
                             ظفر امام،کھجورباڑی
                             دارالعلوم بہادرگنج
                             8/اکتوبر 2022؁ء

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button