سمستی پورمضامین

میری محسن شخصیات

مطالعہ نگار: سید محمد ریاض ندوی کھجناوری
رئیس: جامعة الحسنین صبری پور

ابھی مادر علمی دارالعلوم ندوة العلماء کے قریبی سفر میں وہ چند کتابیں خریدنے اور پڑھنے کا اشتیاق تھا جن کا شہرہ سوشل میڈیا پر اہل علم و قلم درمیان تھا ان میں ایک کتاب کو خریدنا میری دلی تمنا تھی جس کا نام ہے "میری محسن شخصیات”

ناول کی جانب میں نے کبھی دیکھا نہیں سوانحی وتعارفی خاکوں اور شخصیات پر لکھے گئے تراشوں کو کبھی چھوڑا نہیں جہاں ملے جس سے ملے جس طرح ملے مطالعہ کرکے ہی دم لیتا ہوں گرچہ ابھی اس میدان میں طفل مکتب ہوں آج اس کا مطالعہ کیا تو ذہن میں خیال آیا کہ اس محبت بھری دلنواز اور روح پرور داستان جو ہمہ جہت باوقار کرداروں پر ہمہ صفت باکردار عالم دین مولانا وزیر احمد اعظمی ندوی دامت برکاتہم نے لکھی ہے اس بابت کچھ لکھا جائے

ممتاز عالم دین ماہر قلم کار مولاناوزیراحمد اعظمی ندوی دامت برکاتہم کے قلم اشہب سے نکلا یہ خراج علم وآگہی کا عنوان اور فکر ودانش کا سرمایہ ہے اس میں استاذ و شاگرد کے پاکیزہ ومقدس رشتوں کی لازوال کہانی اور معاصرین ورفقائے درس کا بھی اعتدال وتوازن محبت و ہمدردی کے ساتھ دل آویز تذکرہ ہےیہ کتاب ایک اطاعت شعار فرمانبردار مخلص وجانثار شاگرد کی اپنے یکتائے زمانہ اساتذہ (جن کی علمی وعملی شہرتوں کا سفر عروج پرہے)کے تعارفی خاکوں پر مشتمل ہے وزیر صاحب کے فیض بار قلم کی جولانی نے اساتذہ کی بے لوث قربانیوں وکارگزاریوں کو حیات ابدی سے ہمکنار کردیا ہے
شائد مولانا کو اس شعر نےجنبش قلم دینے پرمجبور کیا

تجھ کو لکھنا ہے تو دنیا کے معماروں پہ لکھ
معتبر مضمون کوئی شائستہ کرداروں پہ لکھ

یا پھر یہ سوچ کر گل افشانی کی

عنادل کو تو غم ہے صرف اپنے آشیانے کا
یہاں سارا چمن موضوع ہے میرے فسانے کا

ان خاکوں میں کچھ ایسے پھول چنے گئے ہیں جن سے دنیائے علم وادب میں خوشبو ہے مہک ورعنائی ہے روشنی کے وہ مینار اس بزم میں سجائے گئے ہیں جن کو ضو فشانی سے عالَم منور ہے میکدۀ علم وعمل کے ان شہہ سواروں اور خانوادہ شبلی وسلیماں کے ان معماروں کو سامنے لا یا گیا ہے جو جلوت وخلوت کے بطل عظیم ہیں رات کے راہبوں دن کے شہہ سواروں میں جن کا شمار ہو تا ہے علوم و معارف کے وہ بحر بیکراں فکر و سخن کے وہ رازداں اس جاذب نظر مرقع میں سمائے گئے ہیں جن کے علوم ومعارف کی عطر بیز کرنوں اور افکار عالی سے یہ امت گرانبار ہے قلم کے اس تازہ وارد میں اکثر ان عباقرہ علم کو جگہ ملی ہے جو ابھی ضو فگن ہیں اورآپ نےجن کو قریب سے دیکھا اور استفادہ کیا ہے اور ان کے کارناموں کو بھی روشنی ودوام بخشا گیا ہے جو آغوش لحد میں مصروف خواب ہیں۔

باقی سب اس حقیقت کے ترجمان۔

ڈھونڈوگے ہمیں ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

اور مولانا دامت برکاتھم کا انداز نگارش کچھ ایسی کشش و جاذبیت کا نمونہ ہے کہ قاری پڑھتا چلاجا تا ہے اکتاتا نہیں دل برداشتہ نہیں ہوتا مزید کشش بڑھتی جاتی ہے آخر ان سوانحی خاکوں میں ایسا کونساکمال ہے جو مستقل پڑھنے پر اکسائے اور تشنگی بڑھائے مزید کا متلاشی بنائے تو میں کہوں گا وہ ہے ان کا جذبہ اندروں ان کے خلوص کی چاشنی ان کی اپنے اساتذہ سے محبت و عظمت ان کی وارفتگی وشیفتگی ان کا اپنے معاصرین پر اعتماد اپنے ہم جولیوں کا اقرار اپنے کام آنیوالوں کے ساتھ احسان مندی اور اپنے چھوٹوں پر شفقت جود وسخا کی پھوار

یہی وجہ ہے کہ کتاب کے پیش لفظ میں معروف اسلامی اسکالرڈاکٹراکرم ندوی صاحب دامت برکاتہم آکسفورڈ نے بھی یہاں آکر اپنا سیال قلم روک دیا کہ "مستند ہے وزیر کا فرمایا ہوا”
اسی لئے یہ ایک یادگار دستاویز بن گئی

"احسان شناسی” کتاب کا مرکزی خیال ہے پوری کتاب اسی خیال کے ارد گرد گھومتی ہے شفقتوں محبتوں قدردانیوں حوصلہ افزائیوں اور ہمدردیوں کی پرسکون فضاؤں سے فائدہ اٹھا کر آپ نے "میری محسن شخصیات” کی عمارت کو جس جمالیاتی قلم کے ساتھ حوصلوں توانا ولولوں پختہ ارادوں اور نیک آرزؤں کے ساتھ اٹھا یاہے وہ سوانحی وتعارفی خاکوں کی محفل میں ایک حسین اور بے مثال اضافہ ہے جو مدتوں اہل ذوق کو نظارہ دید سے سرشار کرتا رہے گا
نادر الفاظ شستہ تراکیب چست جملے ہنستے مسکراتے قافیے اور سب سے بڑھ کر اپنے اساتذہ محسنین و متعلقین کے متعلق نفیس و پاکیزہ جذبات کو خوبصورت الفاظ کےپیراہن میں تمام تر نجوم وکواکب کی رعنائیوں کے ساتھ کا غذ پر اتار دیا ہے زبان کی لطافت وروانی کے ساتھ ادب کی چاشنی اور فکر کی سلامتی نے ان کی تحریر میں چار چاند لگادئیے ہیں الفاظ کو غلامی میں لینے کا فن کوئی ان سے سیکھے موصوف محترم کو میں نے آج تک بالمشافہ نہیں دیکھا کرونا کے سبب zoom کے سہارے کئی پروگراموں میں ان کا چہرہ دیکھا ہے لیکن ان تحریروں کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ روشنی کے سفیر انس ومحبت سراپا خلوص واپنائیت اور صدق و صفا کا مظہر ہیں
مجھے بے حد خوشی اس بات پر ہے کہ آپ نے جن اساتذہ کی خدمات کو آئینہ دکھایا ہے ان میں اکثر میرے بھی اساتذہ ہیں جن کی بدولت آج یہ قلم ہاتھ میں ہے اور زبان پر الفاظ ہیں
اللہ تعالی وہ دن دکھلائے کہ مولانا وزیر احمداعظمی ندوی سے ملاقات ہو تو میں ان سے معانقہ کرکے ان اساتذہ پر لکھے گئے مضامین پر پھر خراج پیش کروں گااور علم وافادہ کی محفل سجے گی
اللہ تعالی صحت وعافیت کے ساتھ وہ دن ضرور لائے اور خوش وخرم رکھے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button