سمستی پور

سنہری یادیں

مطالعہ نگار: سید محمد ریاض ندوی کھجناوری
رئیس: جامعة الحسنین صبری پور

لکھنؤ کے سفر میں چند تازہ کتابیں خریدی (خرید کر پڑھنے کا مزہ الگ ہوتا ہے) جن میں ایک کتاب ہے "سنہری یادیں” جس کو شگفتہ ادیب و قلم کار جناب مولانا حشمت اللہ ندوی صاحب دامت برکاتھم نےاپنے مادر علمی سے ہزاروں میل کے فاصلہ پر بیٹھ کر،مادر علمی کی محبت میں سرشارہوکر، بڑے سوزوساز اور کیف ومستی میں ڈوب کر لکھا ہے۔

کتاب کیا ہے؟
مصنف کتاب خود رقم طراز ہیں:

ایک مرتبہ مادر علمی دارالعلوم ندوة العلماءمیں چھٹی کے ایام تھے استفادہ کا خاص موقع میرے نصیب میں خدا عز وجل نے لکھ دیاتھا میں اپنے مشفق ومحبوب استاذ حضرت مولانا سید واضح رشید حسنی ندویؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
مولانا نے فرمایا :
"آپ تو بہت اچھا لکھتے تھے لکھنا کیوں چھوڑ دیا "؟

یہ جملہ تھا فکر اسلامی کے سرخیل اور عربی صحافت کے عمید حضرت مولانا سید واضح رشید حسنی ندویؒ(اب جن کی یادیں رہ رہ کر ستاتی اور رلاتی ہیں)کا،اس کے اندر ایسی اسپرٹ تھی،محبت کی وہ چاشنی تھی،خلوص کی وہ آمیزش تھی کہ جیسے ہی میں قطر پہونچا،تو ہمارے معاصر احباب کا ایک گروپ بنا،جس میں یاد ماضی کے عنوان سے لکھا جانے لگا،اس نے میرے ہاتھ میں قلم پکڑایا،اپنی سرگذشت لکھی جانے لگی،تمام ساتھی اسکو پسند کرتے،تحسین سے نوازتے،ہمت افزائی فرماتے،جس سے آگے بڑھنے اور یومیہ لکھنے کا حوصلہ ملا اور یہ سرگذشت مکمل ہوئی۔

یہ اپنےمادر علمی دارالعلوم ندوة العلماء میں گذرے ہوئے ایام کی سر گزشت ہے ان ایام کی یاد تازہ کرائی گئی ہے جن کا ہر لمحہ حسین،ہر پل عزیز تھا اور ماضی کے ان حسین قصوں کو چھیڑا ہے،جن میں زندگی کا ہر نقش خوش رنگ وپرکشش تھا،بڑی دل نواز اور خوشگوار یادیں تھیں جن کو قلمی جامہ پہنا کر مطالعہ کی میز پر رکھا گیا ہے۔

یہ درسگاہ وہ ہےجو عالمی بھی ہے آفاقی بھی،عظمت و سربلندی،اعتماد واستناد،وقار واعتبار جسے حاصل ہے اور جس میں اپنےزمانہ کے اکابرین، مفکرین و مصلحین نے جرعہ نوشی وخوشہ چینی کو باعث سعادت لکھا یہاں تک کہ معروف عربی ادیب علی طنطاویؒ نے لکھا:
"کاش میرا بچپن لوٹ جاتا تو میں ندوہ سےاستفادہ کرتا”

یہی وہ آدم گری ومردم سازی کا کارخانہ ہے جس کو نافعیت، قبولیت ومحبوبیت ملی، مختلف مشارب کے افراد کو ایک دسترخوان پر جمع کرنے کا عظیم الشان کارنامہ اسی کے حصہ میں آیا،حالات کے مطابق نصاب تعلیم میں اصلاح وبہتری کا اسی نے نعرہ بلند کیا،اسی کے چشمہ صافی سے سیراب ہونے والے اقصائے عالم میں پھیلے،یہاں تک کہ ایک وقت وہ بھی چشم فلک نے دیکھا کہ اس کی جانب انتساب کرنے والے کو عقیدت ومحبت کی رداء پہنائی گئی۔

حال کے بیدار لمحات کو قلمی رنگ دینا آسان ہے لیکن بیتے ہوئے لمحوں کو قلم کی نوک پر لانا انتہائی مشکل اوردشوار گذارعمل ہے، پچھلے واقعات اور گذری ہوئی زندگیوں نیزاپنے ایام طالب علمی کو صحت بیانی کے ساتھ سامنے رکھنا اس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب قلم پکڑنے والا قوتِ حافظہ کا مالک ہو،اخذ کی صلاحیت رکھتا ہو،طرز نگارش پر اس کو دسترس حاصل ہو،مولانا حشمت اللہ ندوی صاحب ان تمام صلاحیتوں کے مالک ہیں اور بقول معروف اسلامی اسکالر،برطانیہ میں ندوہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد اکرم ندوی صاحب دامت برکاتھم

"یہ دار العلوم ندوة العلماء کے ایک فرزند احسان شناس،طالب ہوشمند اور مرد بلند اقبال کی سر گذشت ہے،ان کے لکھنے کا ایک خاص انداز ہے جسے پڑھتے ہوئے دل سے صدا آتی ہے
"وہ کہیں اور سنا کرے کوئی” وہ آسان،سلیس،مگر فصیح و بلیغ زبان لکھتے ہیں،ان کی تحریر میں آمد ہے آورد نہیں، یہاں تک کہ میں برطانیہ میں مقیم ہوں لیکن اس کتاب کا سحر مجھے مغربیت اور جدیدیت سے نکال کر چالیس سال پرانے دارالعلوم میں پہنچا دیتا ہے”۔

آپ کے فن شناس قلم نے گذرے لمحوں اور مادر علمی کے ذروں اور اس چمن کے پتے پتے،بوٹے بوٹےکوگذری یادوں کے عکس کے شیشے میں اس طرح اتار دیا ہے کہ دامن دل ان کی تحریروں کی جانب کھنچا چلاجاتا ہے اور قاری مسکراتے ہوئے پڑھتا چلاجاتا ہے اور ندوہ کے درودیوار وہاں کے جفاکش صلاح وصلاحیت کے پیکر عہد ساز وتاریخ ساز اساتذہ ان کی محنتیں،شفقتیں،عنایتیں نیز ان کا انداز تربیت اس کے ذہن پر مرتسم ہوتا چلا جاتا ہے،مادر علمی کے احسانات،سیرت سازی، یہاں کے ذرہ ذرہ سے الفت و محبت کا اظہار دلکش اور اچھوتے انداز میں کیا ہے،
علمی،فکری، تربیتی،تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں،علم کے گونجتے نغموں اور زمزموں اساتذہ کی لازوال شفقتوں، عنایتوں،کرم فرمائیوں کا اقرار ہے جن ہوں نے تراش خراش کر اس قابل بنایا،ان کی جوہر شناس نگاہ تربیت نے ترقیات کی دہلیز پر پہونچایا اور آسمان علم پر درخشاں ستارہ بنا کر چمکایا،اور اپنے معاصرین ومحسنین کا بھی تذکرہ خیر ہے،نیز دوستوں کی محبتوں، احباب کی رقابتوں،اسباق ومذاکرہ،تقریروتحریر،جلسوں و مسابقوں،محفلوں ودعوتوں کو بھی بھلایا نہیں گیا ہے بلکہ ان کےذکر سے بھی یادوں کی محفل سجائی گئی ہے۔

زمانہ طالب علمی میں ان کے ذہن وفکر پر جو پہلی چھاپ پڑی وہ علم وعمل کی ہے جس کا اثر ہلکا نہیں پڑا چونکہ ان کا پہلا مدرسہ وہ ہے جہاں دینی وفکری تربیت کے ساتھ سنتوں کی مواظبت،ذکرواذکار کے ذریعہ روحانی اسپرٹ بھری جاتی ہے یہ ہےمدرسہ اشرف المدارس ہردوئی جہاں اپنے زمانہ کی ایک عبقری شخصیت محو روحانیت تھی،جن کو دنیا محی السنة حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئیؒ کے نام سے جانتی ہے اور ان کو مشہور بزرگ حضرت مولانا قاری امیر حسن صاحبؒ سے شرف تلمذ حاصل رہا،اور ان کی زیر تربیت وہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی۔
مصنف کتاب نے اپنے تعلیمی دور کو ندوہ کا "عہد زریں” لکھا ہے اس کی چند وجوہات بھی لکھی ہیں
بالکل صحیح ہے لکھا جانا چاہئے وہ دور درحقیقت ندوہ کا "عہد زریں” تھا
لیکن جن وجوہات کی بنا پر اس عہد کو زریں سے تعبیر کیا گیا وہ مندرجہ ہیں۔
(1) ندوہ کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔
(2) غیر ملکی طلباء کی تعداد بڑھی۔
(3) مالی طور پر ندوہ مستحکم ہوا۔
(4) نئی تعمیرات۔
(5) مختلف صوبوں میں شاخوں کا قیام۔
(6) نصاب تعلیم میں ضروری اصلاحات۔
(7) رابطہ ادب اسلامی کا قیام۔ (8) عرب شیوخ کی حاضری اور ان سے استفادہ کی راہ آسان ہوئی۔وغیرہ وغیرہ

لیکن ہم نے(راقم)اس دور کو نہیں دیکھا،ہم نےمرشدالامت عارف باللہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتھم کے دور کو دیکھا،اور آپ سے جلوت وخلوت میں خوب استفادہ کیا،جن کی دوررس نگاہ ایمانی سے ملک و ملت کا چراغ روشن ہے اور فکر اسلامی کے سرخیل حضرت مولانا سید واضح رشید حسنی ندویؒ،عربی صحافت کے اہم ستون ادیب زماں حضرت الاستاذمولانا ڈاکٹر سعید الرحمٰن اعظمی ندوی دامت برکاتھم،علوم تفسیر کے ماہر حضرت الاستاذ مولانا برھان الدین سنبھلیؒ،مفتئ زماں حضرت الاستاذ مولانا مفتی ظہورصاحبؒ،ندوہ کے عاشق اور اس کی ترقئ فکر میں غرق حضرت الاستاذمولانا عبد العزیز بھٹکلی صاحب،حدیث کے زمز شناس حضرت الاستاذ مولانا زکریا سنبھلی صاحب، زبان وادب کے شناور حضرت الاستاذمولانا خالد ندوی غازی پوری صاحب،فقہ وحدیث میں ممتاز حضرت الاستاذمولانا نیاز احمدندوی صاحب،اورمغربی میڈیا کے مصنف حضرت الاستاذ مولانا نذر الحفیظ ندوی ازہریؒ و خطیب العصرحضرت الاستاذ مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب،اس کے علاوہ دیگر علوم و فنون کے ماہرین اساتذہ سے کسب فیض کیا،ان حضرات کی دعائے نیم شبی وآہ سحر گاہی کے ذریعہ مادر علمی نے ترقیات کی جن دہلیز پر قدم رکھاوہ ہمارے لئے کسی عہد زریں سے کم نہیں۔
حضرت مولانا ؒ کے زمانہ میں ندوہ کو جو ترقیات حاصل ہوئیں ان کا تسلسل اب بھی برقرار ہےجبکہ حضرت مرشدالامت دامت برکاتھم کے دور نظامت میں جو تعمیری و ترقیاتی فکری وتربیتی کام ہوئے تو ہم اس دور کو بھی ندوہ کا عہد زریں ہی لکھیں گے چونکہ وہ دور (مفکر اسلامؒ )ہم نے دیکھا نہیں ہم نے جس دور کو پایا اور استفادہ کیا ہمارے لئےوہ بھی عہد زریں ہے۔
الغرض کتاب لائق مطالعہ اور اپنے اساتذہ محسنین ومربیین کے احسانات کا اقصاء ہے جس کو آخری سانس تک پورا نہیں کیا جا سکتااور مولانا حشمت اللہ صاحب مادر علمی سے فرط محبت وعشق یہ لکھنے پر مجبور ہیں:
قلب وذہن آج بھی اسی کے درودیوار میں کہیں اٹکا ہوا ہے، اس کی یادوں کے نقوش آج بھی ذہن میں تازہ ہیں اور ان حسین لمحات کی یاد دلا تے ہیں جو اس کی چھاؤں میں گذرے،کبھی دل سے بے ساختہ یہ صدانکلتی ہے "کاش وہ دن واپس آجاتے”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button