اہم خبریںمضامین

کنگنا رناوت کی بکواس- بدلتے حالات منظر نامہمفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کنگنا رناوت کی بکواس- بدلتے حالات منظر نامہ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

کنگنا رناوت کو حال ہی میں صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کوند نے پدم شری اعزاز سے نوازا ہے، یہ ایک فلمی اداکارہ ہیں ، غیر قانونی طورپر تعمیر ان کے اسٹوڈیو بعض حصے کو ممبئی میں ادھے کمار حکومت میں گرایا گیا تو وہ سرخیوں میں آئیں، انہوں نے اپنے تحفظ کے لئے حکومت ہند کا سہارا لیا، انہیں کمانڈوز فراہم کرائے گئے جو ان کی جسمانی تحفظ کو یقینی بنائیں، عدالت نے گھر کے بقیہ حصوں کو زمین دوز کرنے پر حکم امتناعی دیا، ان واقعات کی وجہ سے انہوں نے فلم میں جتنی شہرت نہیں حاصل کی تھی، اس سے زیادہ ہفتہ دس دن میں ان کے مقدر میں آگئی، ذرائع ابلاغ نے ان کی صلاحیتوں پر اپنی توانائی صرف کی، مہاراشٹر میں مخلوط حکومت بی جے پی کے خلاف تھی،اس لئے الکٹرونک میڈیا نے خاص کر کنگنا کے خلاف کارروائی کو ہوا دی، کنگنا وہ زبان بولنے لگیں جو آر اس اس کی زبان تھی اور بی جے پی جس کو زمین پر اتارنے کی جد وجہد میں زمانہ دراز سے مصروف ہے۔
بی جے پی چاہتی ہے کہ ہندوستان کی تاریخ بدل کر رکھ دی جائے، چنانچہ آر اس اس کے مؤرخین نے اس پر کام بھی شروع کردیا ہے، اترپردیش کی یوگی حکومت شہروں کے نام بدل کر اسی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے، کنگنا رناوت کو پدم شری کا اعزاز ملا تو ان کی زبان زیادہ کھلنے لگی، ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’ ۱۹۴۷ئ؁ کی آزادی بھیک میں ملی تھی، اصل آزادی ۲۰۱۴ئ؁ میں ملی‘‘ کنگنا رناوت کو شاید یہ معلوم نہیں کہ جس آزادی کو وہ بھیک میں ملی آزادی کہہ رہی ہے وہ ہزاروں مجاہدین آزادی کے دارورسن کے نتیجے میں ملی تھی، ہزاروں ماؤں کے سہاگ اجڑے تھے تب یہ آزادی حاصل ہوئی تھی، کنگنا رناوت کا یہ بیان ان مجاہدین آزادی کی توہین ہے جوسربکف ہو کر میدان میں نکلے، پھانسی کے پھندے کو چوما، جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، ان میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے، غیرمسلموں کی قربانیاں ہیں، سب کو کنگنا رناوت نے بھیک کہہ کر برباد کردیا، بھیک کشکول گدائی لے کر گھومنے سے ملتی ہے نہ کہ جان وجسم کا نذرانہ پیش کرنے سے ، یہ بھیک نہیںہے ، ہمارے مجاہدین کی بے پناہ قربانیوں کے طفیل انگریز مجبور ہو گئے تھے کہ ہمیں آزادی کا پروانہ دیں، برطانوی حکومت کی جانب سے آزادی کا پروانہ دینا ان کی مجبوری تھی اور مجبوری کے اس مقام تک انہیں ہمارے مجاہدین آزادی نے پہونچایا تھا۔
مودی حکومت کی ثناخوانی میں وہ یہ بھی بھول گئیں کہ بھاجپا کی حکومت کے سربراہ اس سے قبل اٹل بہاری واجپئی بھی رہ چکے ہیں اور اگر ہندتوا کے غلبہ کی وجہ سے وہ ایسا کہہ رہی ہیں تو اس بکواس کے سرے کو اٹل بہاری واجپئی تک انہیں لے جانا چاہئے تھا، انہیں یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ جس دستور کی رو سے یہ ملک جمہوری قرار پایا اور جس کی تیاری میں دو سال گیارہ ماہ اٹھارہ دن لگے بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈ کر نے جس کی تدوین کو آخری شکل دینے کے لئے سات ہزار چھ سو پنتیس ترمیمات کو پڑھ کر پانچ ہزار ایک سو باسٹھ ترمیمات کو رد کردیا تھا اور صرف دو ہزار چار سو تہتر کو قابل اعتنا سمجھا تھا اس دستور کی حیثیت بھاجپا کے اس دور حکومت میں کیارہ گئی ہے؟ کنگنا رناوت آر اس اس کی گود میں کھیل رہی ہیں، وہ موہن بھاگوت کی زبان سے بول رہی ہیں، ۲۰۱۴ئ؁ میں آر اس اس سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ آج گیارہ سو سال کی غلامی کے بعد بھارت آزاد ہوا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ موہن بھاگوت بھی ۱۹۴۷ئ؁ کی آزادی کو آزادی تسلیم نہیںکرتے، شاید یہی وجہ ہے کہ تحریک آزادی کی قیادت گاندھی ، نہرو اور مولانا آزاد سے لے کر سردار پٹیل کے نام کیا جارہا ہے اور حالت یہ ہو گئی ہے کہ ۱۴؍نومبر کو ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی یوم پیدائش کی تقریب میں جو پارلیامنٹ میں منعقد ہوا کرتی ہے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے صدر نشیں (اسپیکر) بھی غائب رہے، کابینہ کا کوئی سنیر وزیر نظر نہیں آیا، ایسے میں کنگنا رناوت جو کہہ رہی ہیں اس میں وہ اکیلی نہیں ، پورا سسٹم شامل ہے، اکیلی کنگنا روات کی سوچ کو پدم شری اعزاز واپس لے کر بدلا جاسکتا ہے، لیکن نظام حکومت، بھاجپا کی پالیسی اور آر اس اس کے نظریات کی روشنی میں جس طرح چلایا جارہا ہے، اس کو بدلنے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، سیاسی پارٹیاں بہت کچھ کرسکتی ہیں، لیکن جمہوریت کی بقا سے زیادہ انہیں ہندتوا کے نام پر ووٹ بٹور نے میں زیادہ دلچسپی ہے، اس لئے وہ سب خاموش ہیں اور ان کی خاموشی سے فرقہ پرست طاقتوں کو تقویت پہونچ رہی ہے، کنگنا رناوت تو صرف ایک مہرہ ہے، شطرنج کی بساط پر مہروں کے چلنے کے لئے بھی قاعدہ قانون موجود ہے، لیکن آج ہندوستان کی بساط پر جومہرے چلے جارہے ہیں ان کے لئے کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے، جو من میں آئے کرو اور جو منہ میں آئے بولو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button