اہم خبریںبہارتعلیم و روزگارکشن گنجمضامین

علمی بازار میں ”مُعین اللغات “ کا بیش بہا اضافہ

🖊 ظفر امام قاسمی

یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ آج بھی درجۂ دینیات میں اردو کے مبتدیوں کے لئے خان صاحب مرحوم کی ”اردو زبان“ کو جو محبوبیت اور مرکزیت حاصل ہے گزشتہ صدی میں اس کے پائے تک بھی کوئی نصابی کتاب نہیں پہونچ سکی،اس بیچ نہ معلوم کتنی نصابی کتابیں مختلف مصنفین کے موئے قلم سے نکلیں اور انقلاباتِ زمانہ کی آندھی سے تہہِ گرد ہوگئیں مگر خان صاحب ؒ کی اردو زبان انقلابات کی تمام آندھیوں کو مات دے کرآج بھی پورے کر و فر اور تب و تاب کے ساتھ حلقۂ علم و ادب میں چٹان کی طرح ایستاد ہے اور ان شاء اللہ تاقیامِ قیامت یونہی ایستاد رہے گی۔

بچوں کے ادیب سے مشہور خان صاحب مولانا اسماعیل میرٹھی علیہ الرحمہ (؁1844ء__؁1917ء) کو بھلا کون نہیں جانتاہوگا،ادبِ اطفال کے نام سے لکھی گئیں ان کی شاہکار نظموں سے کون حظ نہ اٹھایا ہوگا،(نصابی و غیر نصابی کتب و رسائل میں ان کی بےشمار نظمیں آج بھی مندرج ہیں)ان کی نادر اور البیلی نگارشات سے کون اپنے تشنہ لبوں کو سیراب نہ کیا ہوگا؟اور ان کی شہرۂ آفاق تصنیف ” اردو زبان “ ( بشمول پانچوں جلدوں کے) بھلا کس کی نگاہوں سے نہ گزری ہوگی؟ اور یہ کس کس کی آنکھوں کو سرور نہ بخشی ہوگی؟۔آج اردو زبان کو لکھے گئےایک صدی سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے مگر آج بھی ان کی یہ شاہ کار اور لازوال تصنیف حلقۂ علم و ادب میں اپنی ایک الگ شناخت اور منفرد پہچان سے متعارف ہے،بلکہ اس دورِ افتاد میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی اہمیت،معنویت،ہمہ گیریت اور افادیت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ آج بھی درجۂ دینیات میں اردو کے مبتدیوں کے لئے خان صاحب مرحوم کی ”اردو زبان“ کو جو محبوبیت اور مرکزیت حاصل ہے گزشتہ صدی میں اس کے پائے تک بھی کوئی نصابی کتاب نہیں پہونچ سکی،اس بیچ نہ معلوم کتنی نصابی کتابیں مختلف مصنفین کے موئے قلم سے نکلیں اور انقلاباتِ زمانہ کی آندھی سے تہہِ گرد ہوگئیں مگر خان صاحب ؒ کی اردو زبان انقلابات کی تمام آندھیوں کو مات دے کرآج بھی پورے کر و فر اور تب و تاب کے ساتھ حلقۂ علم و ادب میں چٹان کی طرح ایستاد ہے اور ان شاء اللہ تاقیامِ قیامت یونہی ایستاد رہے گی۔
 
    

مگر یہ بات بھی ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اپنی مذکورہ تصنیف میں خان صاحبؒ نے اردو کے جن قدیم الفاظ کا استعمال کیا ہے آج کے علم و تحقیق سے دُور اس طائرانہ ماحول اور سرسری زدہ دَور میں ان کا سمجھنا یا سمجھانا بغیر لغت کی کتابوں کا سہارا لئے نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے،جس دور میں مصنفؒ نے اپنی اس بےمثال تصنیف کو وجود بخشی ہے اس دور میں ٹھیٹھ اردو الفاظ ہی مستعمل تھے،آج کے دور کی طرح ”آدھا تیتر آدھا بٹیر“ کا معاملہ اردو میں دَر نہیں آیا تھا،اس لئے لازمی طور پر اس کتاب میں خالص قدیم اردو کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں،جن سے واقفیت آج کے رَہ رو کے لئے بغیرکسی راہ نمائی کے نہایت دقت طلب امر ہے۔

آج سے ٹھیک پانچ سال پہلے ( ؁2017ء میں جو کہ مصنفؒ کی وفات کا سواں سال ہے،گویا کہ مصنف ؒ کی رحلت کے ٹھیک سو سال بعد) راقم الحروف کو اردو زبان کی تیسری پڑھانے کا ( خوش گوار) اتفاق پیش آیا ( خوش گوار اس لئے کہ یہی اتفاق اس کتاب کی تالیف کا سبب بنا) دو چار دن تو اپنے دماغی زور اور قیاس آرائیوں سے بچوں سامنے الفاظ کےمعانی کی گتھیاں سلجھاتا رہا،مگر جب دماغ کا پہیہ بعض الفاظ کی دلدل میں جاکر دھنس گیا تو اسے دلدل سے باہر نکالنے کے لئے لغت کا سہارا لینا پڑا،جب لغت اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ میری قیاس آرائیاں آدھی فیل تھیں۔
        

باوجودیکہ اردو زبان کی مکمل جلدوں کے الفاظ کے معانی پر مشتمل ایک کتاب بنام ” مفید اللغات “ پہلے ہی  سے بازارِ علم میں دستیاب تھی،مگر وہ اس معنی کر ناکافی ثابت ہوئی کہ اس میں صرف انہی الفاظ کے معانی درج تھے جن کو مصنفؒ نے اپنے کالم ” یاد کرو ہجے اور معنی “ میں جگہ دی تھی،اور یہ بات جگ ظاہر ہے کہ مصنف نے اپنے دور کے طلبہ کی خداداد استعداد کو دیکھتے ہوئے صرف معدودے چند الفاظ ہی اس میں نقل کئے ہیں،ان کے علاوہ کتاب میں اور بھی بےشمار ایسے الفاظ ہیں جو نہایت مشکل ہیں مگر مصنف نے ان کو اپنے کالم میں نہیں لکھا ہے،جس کی وجہ سے ”مفید اللغات“ ان الفاظ کے معانی بتانے سے تہی دامن ہے۔
        

اس کے بعد راقم نے اپنے اوپر التزام کرلیا کہ ہر سبق سے پہلے سبق میں مذکور مکمل الفاظ کے معانی کو کاپی میں نقل کرلینا ہے اور پھر انہیں طلبہ کے دماغ میں راسخ کرنا ہے کہ بچپن کا یاد کیا ہوا بڑھاپا تک جاتا ہے،پھر کیا ہونا تھا ہر دن کا یہ معمول بن گیا اور پھر ایک دن وہ آیا کہ تیسری جلد کے مکمل الفاظ کے معانی کاپی میں مرقوم ہوگئے، پھر دل نے کہا دوسری کے بھی لکھ ڈالو کچھ دنوں میں وہ بھی مکمل ہوگئے اور پھر سرسری طور پر پہلی کے بھی لکھ ڈالے،رب دوجہاں کے شکر سے تقریبا آٹھ مہینے کی مسلسل جاں کاہی اور عَرق ریزی کے بعد یہ کام مکمل ہوا۔


   

معین الغات moinulughat

پھر دل نے ان الفاظ کےمعانی کو ٹائپنگ کی دہلیز تک لے جا ڈالا،کچھ دنوں میں ٹائپنگ بھی پوری ہوگئی،پھر مکمل چار سالوں تک لیت و لعل میں پڑا رہا کہ چھپواؤں یا نہ چھپواؤں، ہر وقت یہ خوف دامن گیر رہتا کہ یہ ہے ہی کون سا کارنامہ کہ اسے تلقی بالقبول حاصل ہو،اور لوگ اس سے استفادے کو لپک پڑیں،اسی سوچ میں ہر وقت غلطاں رہتا، پھرکبھی دل پر طباعت کی مہمیز لگتی تو زبانی طور پر کسی کسی سے پوچھتا کہ آیا چھپوانے کے بعد یہ چلے گی یا نہیں؟ ایک بھی اللہ کے بندے نے ایسا نہ کہا کہ نہیں چلے گی۔

اب مکمل چار سالوں کے بعد تمام ہمت مجتمع کرکے اللہ کے بھروسے پر اسے زیورِ طباعت سے آراستہ کرکے نذر خوشہ چیناں کر رہا ہوں،دل میں امید کی یہ جوت جلاتے ہوئے کہ پروردگارِ عالم کی جو ذات اسباب سے ماوراء ذرے کو آفتاب اور تنکے کو ماہتاب بناتی ہے وہ اسے بھی اپنے دربار عالیہ میں شرف قبولیت عطا کرکے اس کی مہک کو گلستانِ عالم میں پھیلائےگی۔

قومی ترجمان

   مجھے اعتراف ہے کہ میرا یہ کوئی انوکھا اور نرالا کارنامہ ہے نہیں ( بلکہ بعض لوگ میری اس حماقت پرقہقہے بھی مار سکتے ہیں) کہ قارئین دیکھ کر اس پر ٹوٹ پڑیں،میں اپنے رب سے شرمسار بھی ہوں کہ جَو بَوکر اس سے گیہوں کی امید لگائے بیٹھا ہوں،تاہم اتنی امید اس ذات عالی پر ضرور ہے کہ جس شخصیت کی تصنیف پر یہ کام کیا گیا ہے ان شاء اللہ اس شخصیت کی لاج رکھتے ہوئے وہ اسے ضرور شرف قبولیت عطا کرے گا،اور میرے بوئے ہوئے جَو سے گیہوں کی کونپلیں ضرور کھلائے گا ۔


    

چونکہ لغت کی یہ کتاب صرف اردو زبان کے الفاظ پر ہی مشتمل ہے،اس لئے اس میں سبق نمبر کا لحاظ کرتے ہوئے ترتیب وار اس کے الفاظ کے معانی رقم کئے گئے ہیں،مزید افادیت کی خاطر مبتدیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اصل کتاب کے ذکر سے پہلے اردو کے متعلق مزید کچھ باتیں بھی زیبِ قرطاس کی گئی ہیں،جن میں اردو کی تعریف،اردو کا تاریخی پس منظر،چند اصطلاحات،محاورات، امثال،روز مرہ کی تعریفات اور رموزِ اوقاف کے بیان قابل ذکر ہیں۔


    

اخیر میں اردو زبان کےمعلمین اورمتعلمین سے درخواست ہے کہ اس کتاب کو خرید کر ضرور اس سے استفادہ کریں، ان شاء اللہ اس کتاب کی ورق گردانی کے بعد آپ خالی ہاتھ نہیں لوٹیں گے،بلکہ کتاب کی ورق گردانی کے بعد آپ کو یہ احساس ہوگا کہ آپ نے اردو کے بُجھتے ہوئے چراغ میں روغن اندازی کا کام کیا ہے،طلبہ اور اساتذہ کی رعایت کرتے ہوئے اس کتاب کی قیمت نہایت معمولی رکھی گئی ہے ( کتاب کی قیمت سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تجارت مقصود نہیں، بس مقصود یہ ہے کہ اردو کے خوشہ چینوں کا کچھ بھلا ہوجائے) 264 صفحات کی کتاب کی قیمت ڈاک خرچ کے علاوہ صرف 130 روپے ہے جو آج کے اس گراں دور کے لحاظ سے نہایت معمولی ہے۔

                  اب جس کا جی چاہے وہی پائے روشنی
                 ہم نے تو دل جلا کے سر راہ رکھ دیا

       کتاب آرڈر کرنے کے لئے اس نمبر پر رابطہ کریں،آپ خود بھی لیں اور اپنے دوستوں تک بھی پہنچائیں،اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ شئیر کریں تاکہ مستفیدین تک اس کا فیض پہونچے۔
08168043809
       اس دعا پر میں الفاظ کو آرام دے رہا ہوں کہ اے اللہ جس طرح تونے اردو زبان کو آفاقیت عطا کی ہے اپنے لطف و کرم سے اس کی کنجی کو بھی لازوال کر دے۔۔ آمین۔

                       ظفر امام، کھجورباڑی
                       دارالعلوم بہادرگنج
                     20/ مئی ؁2022ء

قومی ترجمان
Qaumi Tarjuman
قومی ترجمان

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button