مضامین

گردش ایام

مولانا شاہین جمالی کی خرد نوازی :
کیا لوگ تھے وہ،جو راہ وفا سے گذرگئے

از:محمد جبرئیل ،شہر میرٹھ


میرٹھ اور دیوبند ہی ان کی زندگی کا اصل علمی مسکن رہا ، ابتدائی تعلیم جامعہ بلوا نیپال ،متوسطات تک جامعہ مرادیہ مظفر نگر،یوپی ،جب کہ علیا کی تعلیم دارالعلوم دیوبند میں وقت کے اکابر علماء سے حاصل کی ۔ آپ کی فراغت ١٩٦٩ میں دورہ حدیث سے ہوئی اور ١٩٧١ میں تکميل علوم القران سے فراغت پائی۔دوسال تدریسی مدت مدرسہ اصغر یہ میں گذری ۔
بعدہ ٤٨ سال سے درس وتدریس کا مبارک سلسلہ امداد الاسلام شہر میرٹھ میں رہا ، اسی لئے فراغت کے بعد گرچہ میرٹھ میں مسند تدریس پر جلوہ افروز ہوگئے،مگر صحافت کو فروزاں کرنے اور روح کے علاج کے لئے اپنے روحانی وعلمی پیشواؤں سے ملنے تقریبا وہ ہر جمعرات کو دیوبند چلے جایا کرتے تھے ، گویا دیوبند سے ان کا علمی رشتہ ،زندگی کے آخری لمحے تک قائم رہا ۔انہوں نے پوری زندگی امت کے نفع کے لئے کام کیا ،اپنے قلم ،زبان اور ہوش و خرد کی تمام تر توانائیاں ،سماج کی فلاح وبہبود میں استعمال کیا ،وہ کام کے انسان تھے ،کام سے ان کو مطلب رہا ،اسی لئے چوہتر برس کی عمر میں بھی وہ بہت کچھ ایسے کام کرگئے ،جس سے دنیا استفادہ کرتی رہے گی ، مدرسہ امداالا سلام کے مسند حدیث پر بیٹھ کر ہزاروں شاگردوں کی تربیت ،درجنوں اداروں کی سرپرستی ونگرانی ، مختلف علوم وفنون پر مشتمل پچیس سے زائد کتابوں کی تصنیف وتالیف ،عام مجالس سے بیان وخطابت کے ذریعے لاکھوں لوگوں تک دینی پیغام رسانی ،اصلاح ودعوت کے جذبے سے سخت سے سخت مخلفین اسلام کو دین اسلام سے قریب کرنے کے لئے ان کی ذہنی وفکری تربیت ، غیروں کی زبان میں اسلامی وحدت ،اس کے عقائد واوصاف کی تبلیغ جیسی ان گنت خدمات ہیں ،جنہیں شمار کر ان کو بہترین خراج عقیدت پیش کیا جاسکتا ہے ۔
مولانا جتنے وجیہ اور علم وعمل کی جامع شخصیت تھے ،ان میں خرد نوازی اور شخصیت شناسی کا پہلو اسی قدر ممتاز تھا ،جب کہ ایسی تہہ دار شخصیت کے لئے عموما خرد نوازی کا موقع بھی نہیں ملتا اور عذر ہی سہی ، ذرہ نوازی سے پہلو تہی ان کی مجبوری بھی بن جایا کرتی ہے ۔ مگر مولانا جمالی کے یہاں ساری مجبوری اپنی جگہ ،خرد نوازی کا موقع وہ نکال ہی لیا کرتے تھے۔
یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میں مولانا کے قریبی احباب میں سے تھا ،البتہ مولانا اپنا قریبی مجھے سمجھتے رہے ، یہی وجہ ہے کہ مجلس چھوٹی ہو یا بڑی ، ان کی نگاہ کرم مجھےڈھونڈ نکالتی تھی اور صرف اتنا ہی نہیں ،بل کہ کئی بار تو ان کی ذرہ نوازی نے تو آب دیدہ کردیا : جلسوں میں جب نظر پڑجاتی تووہ اپنے سے قریب بالکل برابر میں بٹھاتے ،بعض اوقات منتظمین جلسہ سے بیان کر وانے کا حکم بھی صادر کردیتے ،جب کہ اسی اسٹیج پر ایک سے بڑھ کر ایک علم و عمل کے آفتاب و ماہتاب تشریف فرماہوتےتھے ،ان کی موجودگی میں مجھ ایسے بے زبان سے بے ربط گفتگو سماعت فرماتے ، یہ ان کا برپن تھا ،جس میں وہ ممتاز تھے ،وہ میرے ذاتی زندگی کے حوالے سے دخیل ومشیر بھی تھے ،ایک سے زائد بار جب اس عاجز نے ذاتی مسائل کو ان کے سامنے رکھا تو پدرانہ شفقتوں کے ساتھ انہوں نے ایسی رہنمائی فرمائی ہے کہ جسے بھلایا نہیں جاسکتا، مسائل کے تعلق سے بھی بعض لاینحل مسئلے میں بڑی اچھی دست گیری کرتے اور یوں محسوس ہوتا جیسے وہ اصل مدعا کو بھانپ کر مسئلے کی تنقیح فرمارہے ہیں ،سفر حج کے تعلق سے بعض خارجی امور کو بھی جس کا تعلق صوبہ بہار کے ذمہ داران سے تھا ،بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرنے میں کبھی تاخیر تک برداشت نہیں کی اور نہ کبھی اپنے معیار ومقام کو آڑے آنے دیتے ،بل کہ بہت سی مرتبہ اپنے آپ کو صرف میرے لئے استعمال کر کام بن جانے کی تدبیریں اپناتے ،ایسا ہی ایک معاملہ خانقاہ رحمانی مونگیر بہار سے متعلق تھا ،جس میں کامیابی کو پانے کی ہر ترکیب میں نے آزمالی تھی ،مگر ناکام رہا ،لیکن مولانا کا حوالہ جب میرے سامنے آیا تو میں نے ان کے نام سے فایدہ اٹھاتے ہوئے ،انہیں وہیں سے فون لگادیا ،میرے مخاطب امیر شریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی صاحب رحمانی رحمہ اللہ سے ان کی کیا بات ہوئی اور انہوں نے میرے بارے میں ایسا کیا کچھ کہہ دیا کہ مولانا رحمانی نے میرے امور کو نہایت آسان بنا کر مجھے طبعی طور پر فرحت پہنچانے کا کام کیا ،یہ مولانا شاہین جمالی صاحب کی خورد نوازی تھی کہ میں میرٹھ سے باہر وہاں بھی شادکام رہا ،اور انہوں نے قطعا کوئی پل گنوائے بغیر میری رہنمائی فرمائی ، اکثر میرے معاملے دیکھا کہ کبھی وہ اپنی حیثیت عرفی کا بہانہ نہیں کرتے ،بل کہ انہوں نے اپنی وجیہ شخصیت کو میرے مفاد میں استعمال کر میرے بوجھ کو ہلکا ہی کیا ۔
ان کے دونوں صاحب زادے میرے لئے قابل احترام ہیں ،وہ اپنے والد کے زیر سایہ رہ چکے ہیں ، بہت سے گن انہوں نے مرحوم سے حاصل کئے ہیں اس لئے امید کی جاتی ہے کہ مولانا کے متعلقین ،محبیین ،منتسبین کے ساتھ مولانا محفوظ الرحمان شاہین جمالی صاحب کے صاحب دازے محترم کا حسن سلوک آئندہ بھی برادرانہ اور مخلصانہ ہی رہے گا ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ مولانا کے درجات کو بلند فرمائے ،اور ان کے شجر سایہ دار علمی چھاؤں کو ان کے لئے راحت روح و ایماں بنائے ،آمین یارب العالمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button