مضامین

قربانی کرنا افضل ہے یا اس کی قیمت کا صدقہ کرنا؟

قربانی کے ایام ہمیشہ کی طرح اس سال بھی اپنی بے شمار نعمتوں کے ساتھ آرہا ہے۔ قرآن و احادیث میں قربانی کے بارے میں بے شمار فضیلتیں وارد ہوئی ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ: ما من عمل آدمی من عمل یوم النحر أحب الی اللہ من اھراق الدم۔(1) یعنی ایام نحر میں خدائے تعالی کو سب سے پسندیدہ عمل قربانی ہے۔

        آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جہاں انسانوں کے حقوق کی پامالی ہورہی ہے ان کی زندگیاں سلاخوں کے پیچھے ویران ہورہی ہے۔ جیسا کہ محمد زبیر‘ ٹیسٹا اور سری کمار وغیرہ کو حق کی آواز لگانے میں جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ اسی معاشرے میں بعض ایسے لوگ ہیں جو کہ صرف حیوانوں کے حقوق کے بارے میں شد و مد سے آواز اٹھاتے ہیں۔ حیوانوں کو بے رحمی سے ذبح کرنا‘ اس کو اذیت دینا اس کے سخت مخالف اور ناقد ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلام حیوانوں کے حقوق کی بات نہیں کرتا ہے‘ بلکہ دین اسلام باحسن طریقہ سے حیوانوں کے حقوق کی پاسداری و رعایت کرتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ: ما من انسان یقتل عصفورا فما فوقھا بغیر حق الا سالہ اللہ عز و جل۔(2) اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی انسان بغیر حق کیلئے ایک پرندہ کو قتل کرتا ہے یا مارتا ہے تو اس کو قیامت کے دن خدا کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔ بر سرمطلب آمدم بعض لوگ اس میں مسلم و غیر مسلم سبھی شریک ہیں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ قربانی کرنے سے بہتر یہ ہے کہ اس کی قیمت کا صدقہ کردیا جائے‘ چونکہ و ہ أنفع للفقراء و المساکین ہے۔ اور قربانی کا مقصد بھی غرباء و مساکین کو منفعت پہنچانا ہے اور پیسہ سے زیادہ سود مند فقراء کیلئے کچھ نہیں ہے۔ مندرجہ ذیل میں قربانی کرنا افضل ہے یا اس کی قیمت کا صدقہ کرنا؟ اس پر فقہائے کرام کا کیا نقطۂ نظر ہے؟ اس کو ہدیۂ قارئین کرنا چاہتا ہوں۔

        جمہور فقہائے کرام کا مذہب یہی ہے کہ قربانی کرنا افضل و اولی ہے بنسبت اس کی قیمت صدقہ کرنے سے۔ مذاہب اربعہ کا بھی یہی قول ہے کہ اگر کوئی شخص قربانی کے بدلے اس کی قیمت غرباء و مساکین پر صدقہ کرے تو یہ رقم قربانی کے بدلے کافی نہیں ہوگی۔ شرح الزرقانی میں مذکور ہے کہ: و عن مالک أیضا و الشعبی و غیرہما: الصدقۃ أفضل۔(3) یعنی امام مالک و امام شعبی وغیرہما کا قول یہ ہے کہ صدقہ کرنا افضل ہے قربانی کرنے سے۔ اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ امام مالک سے دو قول منقول ہے ایک میں جمہور فقہاء کے ساتھ اور ایک میں امام شعبی وغیرہ کے ساتھ۔

        وہ علماء کرام جو صدقہ کو افضل قرار دیتے ہیں بنسبت قربانی کے ان کے دلائل یہ ہیں: قربانی مشروع ہونے کا عین مقصد فقراء و مساکین کو کھلانا اور صدقہ کرنا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ: فکلوا منہا و أطعموا القانع و المعتر کذلک سخرناها لکم لعلکم تشکرون۔(4) تو کھاؤ ان میں سے اور کھلاؤ قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو۔ اسی طرح زیر فرماں کردیا ہے ہم نے ان کو تمہرے لئے تاکہ تم شکر کرو۔یعنی غرباء و مساکین کو ایسی چیز صدقہ کرنا جس میں ان کا زیادہ نفع ہو وہ بہتر ہے بنسبت کم فائدہ مند چیز کے۔ جیسا کہ فقہ کا ایک قاعدہ ہے ”العمل المتعدي أفضل من القاصر“ یعنی ایک ایسا عمل جس کا فائدہ زیادہ ہو وہ افضل کم فائدہ مند عمل سے۔ مثلا قربانی کا گوشت فقیر صرف کھا سکتا ہے اور پکاسکتا ہے‘ اور وہیں اگر پیسہ صدقہ کردیا جائے تو اس سے متعدد منافع حاصل کرسکتے ہیں۔ اور کورونا کے بعد اس ملک میں بڑھتی بے روزگاری کو دیکھتے ہوئے فقراء و مساکین کو قربانی کے گوشت کے بدلے پیسہ صدقہ کرنا زیادہ فائدہ مند ہے۔

        مصنف ابن عبد الرزاق میں ایک روایت ہے کہ ”عن الثوری عن عمران بن مسلم عن سوید بن غلفۃ قال: سمعت بلالا یقول: ما أبالی لو ضحیت بدیک و لأن أتصدق بثمنہا – یعنی الأضحیۃ- علی یتیم أو مغبر أحب الی من أضحی بہا۔(5)اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ مرغے کی قربانی کروں‘کیونکہ اس کی قیمت کسی غریب یا یتیم پر صدقہ کرنا میرے نزدیک زیادہ بہتر ہے کہ میں ان پیسوں سے قربانی کروں۔

        قربانی ایک عبادت مالیہ ہے اور دین اسلام میں اس کے ما تحت جتنی بھی عبادتیں مشروع کی گئی سب کا مقصد ایک ہی ہے اور وہ معاشرے سے غربت و فقیری کو دور کرنا جیسا کہ زکاۃ ہے صدقۂ فطر ہے۔ اسی طرح قربانی بھی ہے اور معاشرے سے غربت و فقیری کو دور کرنے کیلئے پیسہ صدقہ کرنا یہ قربانی کا ہی جانور صدقہ کرنا زیادہ بہتر ہے‘ بنسبت ہلاک کرکے یعنی ذبح کرکے اس کے گوشت تقسیم کرنے سے۔

        اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ: لن ینال اللہ لحومہا و لا دماؤها و لکن ینالہ التقوی منکم۔(6) یعنی اللہ تعالی کو قربانی کا گوشت اور اس کا خون نہیں پہونچتا ہے بلکہ اس کے پاس تمہارے عمل میں کتنا تقوی و اخلاص ہے وہ پہنچتا ہے۔ اخلاص و تقوی کا تعلق قلب سے ہے‘ اور سب سے زیادہ اخلاص و تقوی اس وقت ہوتا ہے جب انسان بغیر کسی کو بتائے ہوئے اور چھپا کر کے صدقہ کرتا ہے‘ جس میں ریاکاری بہت ہی کم گنجائش ہے۔ اور خدا تبارک و تعالی کو یہی عمل سب سے زیادہ پسند ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت فرماتا ہے کہ: ان تبدوا الصدقات فنعما ہی و ان تخفوہا و تؤتوہا الفقراء فہو خیر لکم۔(7) اگر اعلانیہ دو تم صدقات کو تو خوب ہے وہ۔ اور اگر پوشیدہ رکھو ان کو اور دے دو انہیں ضرورت مندوں کو تو وہ ہے بہتر تمہارے لئے۔اور اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں قربانی کے معاملے میں ریاکاری اور دکھاوا کتنا عام ہوگیا ہے۔ لوگ مہنگے جانور خریدنے میں مسابقہ آرائی کرتے ہیں تاکہ معاشرے میں اس کا سر بلند و بالا رہے اور لوگوں کے واہ واہی ملے۔ ایسے عمل سے کچھ فائدہ نہیں ہے۔ اللہ تبارک و تعالی منافقوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: یراء ون الناس و لا یذکرون الا قلیلا۔(8)اس سے بہتر یہ ہے کہ اتنا پیسہ معاشرے میں کسی غریب یا مسکین ہو صدقہ کردے۔

        ھدایہ کی عبارت ہے کہ: و التضحیۃ فیہا – فی أیام النحر- أفضل من التصدق بثمن الأضحیۃ۔(9) یعنی ایام نحر میں قربانی کرنا‘ قربانی کے قیمت صدقہ کرنے سے افضل ہے۔ افضل اسم تفضیل کا صیغہ ہے۔ جس میں معنی حقیقی کے اعتبار سے دوسرے کے بنسبت زیادتی ہوتے ہے اور معنی یہ ہوتے ہیں کہ ”افضل و مفضول“ دونوں میں ایک ہی قسم کے فضیلت ہے مگر افضل میں وہ فضیلت زیادہ ہے اور مفضول میں کم۔ اب رہی قربانی کی بات تو قربانی کو صرف اجر و ثواب کے بنا پر اس کی قیمت صدقہ کرنے سے افضل بتایا گیا ہے‘ ورنہ اگر صرف صدقہ کردے تو بھی اس کو ثواب ملے گا اور قربانی کے بدلے کافی ہوجائے گا۔ قربانی کرنے پر زیادہ اجر و ثواب اس لئے ہے چونکہ قربانی کرنے میں زیادہ مشقت ہے‘ جانور خریدنا‘ اس کی حفاظت کرنا‘ کھلانا پلانا اور جس عبادت میں مشقت زیادہ ہو اس میں اتنا ہی ثواب زیادہ ہے۔ اس مشقت کی بنا پر فقہائے احناف نے مسافر پر قربانی کے وجوب کے قائل نہیں ہیں۔ حالانکہ عبادت مالیہ میں مقیم و مسافر سب برابر ہیں جیسے زکاۃ اور صدقۃ الفطر وغیرہ۔ یہاں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ اگر سفر میں مشقت نہ پائی جائے جیسا کہ لوگ آج کل ہوائی جہاز سے گھنٹوں میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں‘ تو کیا ایسے میں ان پر قربانی واجب ہوگی؟ یہ ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔

        حالات حاضرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے قربانی کی قیمت صدقہ کرنا زیادہ بہتر ہے قربانی کرنے سے۔ کیونکہ ہمارے ہی ملک میں اجتماعی قتل کے ایسے بہت سارے واقعات پیش آچکے ہیں‘ جس میں غیر مسلموں نے گائے کے گوشت کے شک میں مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔ اس کی نظیر 2014 ء میں محمد اخلاق کا واقعہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق 2010 ء سے لیکر 2017 ء کے درمیان گؤ کشی کے معاملہ میں اٹھائس لوگوں کا قتل ہوا جس میں سے چوبیس صرف مسلمان تھے اور 124 لوگ زخمی ہوئے تھے۔(10) ہمارے ہی ملک کی اکثر ریاستوں میں بیف کو ممنوع قرارا دے دیا گیا ہے‘ اور ہر ریاست میں گؤ کشی کی سزا بھی متعین ہے۔

        ہمارے ملک ہندوستان میں قربانی کی جو اجازت دی گئی ہے وہ مذہبی آزادی کے بنا پر نہیں ہے۔ بلکہ قربانی کی اجازت ((Prevention Of Cruelty to Animal Act-1960کے دفعہ 28 کے تحت دی گئی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ مذہب میں جس جانوروں کو احتراما ذبح کیا جاتا ہے اس کی اجازت ہے۔ بہت سے لوگوں نے وزیر اعظم سے اس قانون کو رد کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔ حیوانوں کے حقوق کی ایک تنظیم نے 2014 ء میں عدالت عظمی میں Jallikattu کے خلاف عرضی داخل کی‘ اور سپریم کورٹ نے اس کھیل کو حیوانوں کی بے حرمتی کے سبب روگ لگادیا۔ مجھے تو ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں مستقبل میں ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی جانب سے قربانی کے مسئلے میں یہ نہ کہہ دیا جائے کہ: It is not integral part of a religion یعنی یہ مذہب کا ایک ضروری حصہ نہیں ہے‘ اس لئے اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔

        میں معذرت خوان ہوں کہ میں نے موضوع سے تھوڑا ہٹ کر بات کی۔ مذکورہ بلا حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور مسلمانوں میں بڑھتی غربت و مفلسی کو دیکھتے ہوئے‘ انصاف کی نگاہوں سے کہا جاسکتا ہے کہ قربانی کے بدلے اس کی قیمت صدقہ کرنا زیادہ بہتر و مناسب ہے۔

        قربانی کرنا افضل ہے کہنے والے جمہور علماء کرام کی دلیلیں: جمہور فقہائے کرام کے نزدیک قربانی کا حکم سنت مؤکدہ ہے‘ فقط وجوب کا قول احناف کا ہے۔ اگر کوئی شخص قربانی کے بدلے ایام نحر ہی میں بکری یا اس کی قیمت صدقہ کرتا ہے تو یہ عمل قربانی کے بدلے کافی نہیں ہوگا۔

        جیسا کہ فتاوی ہندیہ کی عبارت ہے کہ: أنہ لا یقوم غیرہا – أی الأضحیۃ- مقامہا فی الوقت حتی لو تصدق بعین الشاۃ أو قیمتہا فی الوقت لا یجزۂ عن الأضحیۃ۔(11) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر قربانی کے بدلے کوئی شخص قربانی کے دنوں میں عین شاۃ یا اس کی قیمت صدقہ کرنا قربانی کا بدل نہ ہوگا۔

        اس کا سبب بیان کرتے ہوئے امام مرغینانی رحمہ اللہ ھدایہ میں فرماتے ہیں کہ: لأنہا – أی الأضحیۃ- تقع واجبۃ أو سنۃ والتصدق تطوع محض فتفضل علیہ و لأنہا تفوت بفوات وقتہا۔ والصدقۃ تؤتی بہا فی الأوقات کلہا فنزلت منزلۃ الطواف و الصلاۃ فی حق الآفاقی۔(12)اس فقرے میں دو سبب بیان کیا گیا۔ پہلا سبب یہ ہے کہ قربانی کا حکم واجب ہے یا تو سنت اور صدقہ کرنا صرف ایک نفل عبادت ہے‘ اور واجب و سنت کو نفل عبادت پر فوقیت اور افضلیت حاصل ہے۔

        دوسری وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ قربانی صرف ایام نحر ہی میں مخصوص ہے۔ قربانی کے ایام گزرجانے سے قربانی فوت ہوجاتی ہے۔ ہاں اب ایسی صورت میں اگر قربانی نہیں کیا اور وقت نکل گیا تو اس جانور کو جس کو صدقہ کردے یا پھر اس کی قیمت کو غرباء و مساکین میں تقسیم کردے۔ اور رہی بات صدقہ کی تو صدقہ کے اوقات پورے سال ہے جب چاہے تب ادا کرے۔

        فتاوی کبری کے حوالے سے فتاوی عالمگیری میں ایک جزئیہ مذکور ہے کہ: شراء الأضحیۃ بعشرۃ أولی من أن یتصدق بألف۔(13) یعنی دس درہم سے قربانی کا جانور خریدنا اور اس کو قربان کرنا افضل و اولی ہے ہزار درہم صدقہ کرنے سے۔

        عقل کا تقاضا یہ ہے کہ جو عبادت شرعا جس طرح وارد ہوا ہو اس کو اسی کے طریقہ پر ادا کیا جائے۔ اب اگر کوئی روزہ کے بدلے نماز ادا کرے تو روزہ ادا نہ ہوگا اسی طرح اگر کے پیسے کو زکاۃ ادا کرے تو حج ادا نہ ہوگا۔ خدائے ذو الجلال کا ارشاد ہے کہ: فصل لربک و انحر۔ یعنی تم اپنے رب کیلئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے کہ: و لکل أمۃ جعلنا منسکا لیذکروا اسم اللہ علی ما رزقہم من بہیمۃ الأنعام فالہکم الہ واحد فلہ اسلموا و بشر المخبتین۔(14) یعنی اور ہر ایک امت کیلئے مقرر کردیا ہے ہم نے قربانی کا طریقہ تا کہ وہ لیں اللہ کا نام ان پر جو اسی نے ان کو دیئے ہیں چوپائے مویشیوں میں سے۔ سو تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو اس کی فرمانبردار ہوجاؤ اور خوش خبری سنا دو عاجزی کرنے والوں کو۔

        اللہ رب العزت قربانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ: و البدن جعلنہا لکم من شعیر اللہ لکم فیہا خیر فاذکروا اسم اللہ علیہا صوآف فاذا وجبت جنوبہا فکلوا منہا و أطعموا القانع و المعتر کذلک صخرنہا لکم لعلکم تشکرون۔(15) ترجمہ: اور قربانی کے اونٹ کہ مقرر کیاہے ہم نے ان کو تمہارے لئے اللہ کے نشانیوں میں سے۔ تمہارے لئے ان میں فائدے ہیں۔سو لو اللہ کا نام ان پر قطار باندھ کر۔ پھر جب وہ گر پڑیں پہلو کے بل تو کھاؤ ان میں سے اور کھلاؤ قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو۔ اسی طرح زیر فرماں کردیا ہے ہم نے ان کو تمہرے لئے تاکہ تم شکر کرو۔

        اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ قربانی شعائر اسلام میں سے ہے۔ اس کی عظمت ٹھیک ویسے ہی برقرار رکھنا ضرور ی ہے۔ خدائے تعالی کا ارشاد ہے کہ: و من یعظم شعائر اللہ فانہا من تقوی القلوب۔(16) یعنی اور جو تعظیم کرے اللہ کی نشانیوں کی تو یقینا یہ ہے دلوں کا تقوی۔

        بالجملہ دین اسلام میں عبادات کا تقاضا یہی ہ کہ جیسے اس کی مشروعیت ہوئی ہو اس کو اسی صورت پر ادا کیا جائے۔ اب اگر قربانی کے بدلے اس کی قیمت کا صدقہ کرنا جائز ہوتا تو ضرور حضور ﷺ یا ان کے صحابۂ کرام سے ایسا عمل منقول ہوتا‘ اور ایسا ہے نہیں۔ اس لئے شریعت میں قربانی کرنے کو ضروری قرار دیا ہے اس کے بدلے اس کی قیمت صدقہ کرنا کافی نہ ہوگا۔ اور اگر لوگوں نے قربانی کے بدلے صدقہ کرنے لگے تو اس سے ایک سنت متوارثہ کا ترک لازم آئے گا اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ متقدمین و متأخرین علماء کرام نے اس کی سختی سے مذمت فرمائی ہے۔ اب رہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث جو مصنف ابن عبد الرزاق میں ہے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا اجتہاد ہے۔

        ھدایہ کی وہ عبارت جس کو لیکر اعتراض کیا گیا کہ قربانی کرنا صدقہ کرنے سے افضل ہے۔ اس میں افضل و مفضول کی بحث ہے یہاں اس بات کی طرف اشارہ کردینا مناسب سمجھتا ہوں کہ کبھی افضل شیء میں صفت فضیلت ہوتی ہے اور مفضول شیء میں نہیں ہوتی ہے‘ پھر بھی اس کو مفضول کے مقابل میں افضل بولا جاتا ہے حالانکہ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ زید عالم ہو اور عمرو جاہل تو بولا جاتا ہے کہ زید عمرو سے افضل ہے‘ حالانکہ عمرو میں وہ صفت فضیلت موجود ہی نہیں ہے جو زید میں ہے۔ اضحیہ اور صدقہ کی مثال اسی طرح ہے اس کو ذہن نشین کرلو۔

       مقارنہ و موازنہ

        دونوں اقوال کو بغور موازنہ و مقارنہ کرنے کے بعد قول جمہور کا قول اور ان کی دلیلیں زیادہ قوی اور برتر نظر آتی ہے بنسبت امام مالک اور امام شعبی وغیرہ کے قول کے۔ چونکہ جمہور فقہاء کرام کی دلیلیں آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ اور اور عقل و نقل کے زیادہ موافق ہے۔ مگر امام مالک اور امام شعبی کے قول کو کبھی کبھی زیادہ فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تطوعا قربانی کر رہا ہے اور اس کے رشتہ دار میں ایک فقیر مقروض ہے اور دستگران ہے تو اس صورت میں اس شخص کیلئے افضل یہ ہے کہ اس قربانی کے پیسہ سے اپنے رشتہ دار فقیر کی دین کو پورا کردے۔ واللہ اعلم

مصادر و مراجع

.1سنن الترمذي ‘ باب ما جاء في فضل الأضحية

.2رواه النسائى في سننه

.3شرح الزرقاني على المؤطا ‘ كتاب الضحايا

.4سورة الحج آية 36

.5مصنف ابن عبد الرزاق

.6سورة الحج آية 37

.7سورة البقرة آية 271

.8 سورة النساء 142

.9كتاب الهداية للمرغيناني‘ كتاب الأضحية

.10 Cow vigilante violence in India – Wikipedia

.11الفتاوي الهندية ‘ كتاب الأضحية ‘ الباب الأول ‘ ج.5‘ ص. 291

.12كتاب الهداية للمرغيناني ‘ كتاب الأضحية

.13الفتاوي الهندية ‘ كتاب الأضحية ‘ ج.5

.14سورة الحج ‘ آية 34

.15سورة الحج ‘ آية 36

.16سورة الحج ‘ آية 32

Mohammed Tanzeel Alam

Darul Huda Islamic University, kerala

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button