پروفیسر ابوالکلام قاسمی کی رحلت سے اردو تنقید کی ایک خاص لے خاموش ہوگئی: ارشد فیضی
موصوف ایک زندہ دل انسان تھے، ان کی موت سے میرا ذاتی خسارہ ہوا : انجینئر احمد سجاد
دربھنگہ ۔محمد رفیع ساگر / قومی ترجمان بیورو
دوگھرا علم وادب کی اس خوبصورت بستی کا نام ہے جس کی کوکھ سے ایسے بے شمار ہیرے نے جنم لیا ہے جن کی دینی،علمی،ادبی،سماجی اور صحافتی خدمات کے دائرے بے حد وسیع ہونے کے ساتھ ملک وبیرون ملک تک کے حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور بس یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے اپنے میدانوں میں بدلتے حالات کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جو خدمات انجام دی ہیں انہیں ہم فخر کے ساتھ اپنا قیمتی سرمایہ مانتے رہے ہیں،مجھے اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی تردد نہیں کہ میں اپنی بستی کی جن عظیم شخصیتوں کی علمی وادبی خوبیوں کا معترف رہا ہوں ان میں ایک نہایت ہی قابل احترام بلکہ قابل تقلید نام اردو کے مشہور ناقد اور ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ پروفیسر ابوالکلام قاسمی علیہ الرحمہ کا بھی تھا جن کے جانے سے نہ صرف یہ بستی اپنے اہم سپوت سے محروم ہوگئی ہے بلکہ اسے میں اپنے خاص ادبی ذوق کا بھی ناقابل تلافی خسارہ مانتا ہوں،اس کے علاوہ مجھے لگتا ہے کہ ان کے چلے جانے سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسے عظیم ادارے کی علمی فضا اور اردو ادب کے تنقیدی خیمے میں جو سناٹا چھایا ہے اس کے ٹوٹنے میں شاید برسوں لگ جائیں گے۔ یہ باتیں اردو کے نامور ادیب اور باوقار عالم دین مولانا محمد ارشد فیضی قاسمی ڈائریکٹر اسلامک مشن اسکول جالے نے موصوف کی رحلت کے بعد اپنے تعزیتی پیغام میں کہیں۔انہوں نے کہا کہ زندگی کے بعد موت اس قدرتی حقیت کا حصہ ہے جس سے انکار کی گنجائش کا حوصلہ آج تک کسی کو نہ ہوسکا لیکن اسی ساتھ سچ یہ بھی ہے کہ بزم سے اٹھ کر چلے جانے والے بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے جانے کے بعد ایک لمبے عرصے تک ہرسو خاموشی چھائی رہتی ہے میں یقین رکھتا ہوں کہ پروفیسر ابوالکلام قاسمی بھی اسی فہرست کا حصہ ہیں،کامیابی کی تمام تر سچائیوں کو برتتے ہوئے سماج کے معذور حصے کو انہوں نے اپنے ادبی معیاروں سے واقف کرانے کا جو فرض نبھایا اور تنقید کے فن کی جس خوبصورتی سے آبیاری کی اس کے نمونے کم از کم میں نے تو اپنی زندگی میں کافی کم دیکھے ہیں،مجھے افسوس ہے کہ ان کی زندگی میں میں ان کے ادبی قدروں سے اس قدر استفادہ نہ کرسکا جو مجھے کرنا چاہئے تھا مگر آنے والے دنوں میں ان کے چھوڑے ہوئے ادبی ذخیرے شاید ہمیں وہ راہ دکھا سکیں گے جن کا میں متلاشی رہا ہوں۔مولانا فیضی نے کہا کہ موصوف نے ایک لمبے عرصے تک علی گڑھ کی ادبی فضاء کو باوقار بنانے کے حوالے سےجو اقدامات کئے تھے اس کی کھنک وہاں کے باذوق طبقہ کو برسوں تک سنائی دے گی اور ان کا تنقیدی نظریہ ادبی حلقے میں بے حد وقار واحترام کی نظر سے دیکھا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پروفیسر ابوالکلام قاسمی کو اردو دنیا نے ایک ایسے تنقید نگار کی حیثیت سے جانا اور پہچانا جن کا تنقیدی معیار سند کی حیثیت رکھتا تھا اور اس حوالے سے ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے تنقید کی اصل معنویت سے ہمیں متعارف کرایا،کیونکہ وہ تنقید میں تنقیص کے بالکل قائل نہ تھے اس لئے انہوں نے ایسی کسی فکر کو اپنے تنقیدی سفر کا حصہ نہیں بننے دیا جس سے ان کا معیار فن کمزور ہوتا ہو۔انہوں نے کہا کہ ذاتی اور روز مرہ کی زندگی میں بھی وہ نہایت خلیق،ملنسار اور سلجھے ہوئے لہجے کے مالک تھے ان سے ملنے والا بہت کم وقت میں ان کا گرویدہ بن جاتا تھا،ان کی سادگی اور نفاست یونیورسٹی کے ماحول میں چرچے کا موضوع رہا کرتی تھی یہی وجہ ہے کہ ان کی متعدد خوبیوں نے انہیں دوسرے ہم عصروں سے بہت ہی جدا بنا دیا تھا،وہ ایک اچھے ناقد اور ادیب کے ساتھ اچھے انسان بھی تھے۔مولانا فیضی نے کہا کہ ان کے جانے سے علم وادب کی بستی دوگھرا نے ایک قیمتی ہیرا کھو دیا ہے جس کی غم یہاں کے کوگوں کو برسوں تک ستاتا رہے گا،مولانا فیضی کے علاوہ معروف تاجر انجینئر احمد سجاد نے گجرات سے بھیجے اپنے تعزیتی نامہ میں موصوف کی رحلت پر گہرے دکھ اور درد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم نے اپنا ایک مخلص دوست کھو دیا ہے۔وہ موجودہ دور کے معتبر ناقد تو تھے ہی مگر اسی کے ساتھ وہ افراد شناش بھی تھے اور سماج کے ہر طبقے کے ساتھ ان کا رویہ قابل رشک تھا۔انہوں نے کہا کہ ان کی موت میرے لئے ذاتی خسارہ ہے جن کی جدائی کا غم مجھ جیسے نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو برسوں تک نڈھال رکھے گا۔انجینئر احمد سجاد نے کہا ان کے انتقال سے تنقید کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کی جیسی عبقری شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ان کا ہمارے درمیان سے گزر جانا واقعی اردو زبان و ادب کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔