فکر و نظر / مضامین و مقالات

نگاہوں نے زمیں پر آسماں دیکھا  (پہلی قسط) 🖊ظفر امام

     زمین کے کسی خطے پر کچھ لمحات و ساعات ایسے وقوع پذیر ہوتے ہیں جو اُس خطے کے لئے تاریخی اور یادگار بن جاتے ہیں،جہاں وہ خطہ اپنی قسمت پر نازاں ہوتا ہے وہیں اُس خطے کی بخت پر شمس و قمر اور مہہ و انجم کو بھی رشک آنے لگتا ہے،سعادت مندی اُس کی قدم بوسی پر ناز کرتی اور عظمتیں اُس کی عظمتوں کو جھک کر سلام کرتی ہیں۔
     ایسے ہی کچھ تاریخی لمحات و ساعات بیتے کچھ دنوں پہلے یعنی ٢٨/ ٢٩/ صفر اور یکم ربیع الاول ١٤٤٥؁ھ مطابق 15/16/17 ستمبر 2023؁ء بروز جمعہ،ہفتہ اتوار سرزمینِ بنگال کے ایک نامور اور معروف مدرسے” ادارہ فیض القرآن ٹھیکری باڑی اتر دیناجپوربنگال“ کی آغوش میں وقوع پذیر ہوئے جو نہ صرف اُس ادارے بلکہ پورے علاقے کے لئے مایۂ فخر اور متاعِ ناز ثابت ہوئے، جس سے علاقے کا پتہ پتہ اور بوٹا بوٹا خوشی اور سرشاری سے جھوم اٹھا،اور کیوں نہ جھوم اٹھتا کہ خدائے بےہمتا نے اُس خطے پر احسان نوازی کی ایسی برکھا برسائی جس سے وہ پہلے محروم تھا۔
   قارئین یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ آخر اُس خطے پر ان دنوں ہوا کیا تھا؟سو عرض ہے کہ اُن دنوں اُس خطے پر آسمانِ علم کے زمین زاد ستاروں،افقِ تفقہ کے جگمگاتے مہہ پاروں،شجرِ اسلام کے خوش رنگ اور خوش نوا عندلیبوں،گلستانِ علم و فن کے پُربہار پھولوں،زہد و ورع کے تابندہ کہکشاؤں،صلاح و تقوی کے پیکروں،خلوص و للہیت کے علمبرداروں،تخشع و تضرع کے زہرہ جبینوں اور سفینۂ علم و حکمت کے ناخداؤں کا ورود ہوا تھا،اور یہ موقع تھا اٹھارہواں فقہی سیمینار کا۔

     جمعیة علماء ہند کے زیرِ اہتمام چلنے والا ایک شعبہ”ادارة المباحث  الفقہیہ“ کا بھی ہے جو بدلتے زمانے کے انقلابی تقاضوں کی گتھیوں کو قرآن و احادیث کی روشنی میں سلجھاتا اور امتِ مسلمہ کے لئے آسانیاں فراہم کرتا ہے،اِس ”ادارة المباحث“ سے ملک بھر کے چوٹی کے سینکڑوں مفتیانِ کرام وابستہ ہیں،جو اپنے فقہی نقطۂ نظر سے ”ادارة المباحث“ کو اپنی خدمات پیش کرتے ہیں،تقریبا ہر سال ملک کی مختلف جگہوں پر ”ادارة المباحث“ فقہی سیمینار کراتا ہے،جن میں وہ نِت نئے مسائل کو موضوعِ بحث بناتا ہے،اور اُس کا طریقِ کار یہ ہوتا ہے کہ مہینوں پہلے ملک کے مایہ ناز مفتیانِ کرام (جن کی فہرست پہلے ہی سے ادارة المباحث کے پاس ہوتی ہے) کے پاس سوالنامے ارسال کردئے جاتے ہیں،جن پر مفتیانِ کرام اپنے وقیع اور تحقیقی مقالے تحریر فرما کر ادارہ کو بھیج دیتے ہیں،”ادارة المباحث“ پھر اُن جمع شدہ مقالات کی تلخیص کراتا ہے،جسے سیمینار میں پڑھ کر سنایا جاتا ہے،پھر تلخیص میں اُن جمع شدہ آراء پر مفتیانِ کرام کے مابین مناقشہ چلتا ہے،مناقشہ کے بعد جو باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں باتفاقِ رائے ان کو تجاویزی شکل دے دی جاتی ہے،اور پھر یہی شکل حتمی فیصلہ کہلاتی ہے۔(اس مرتبہ کے سیمینار سے مجھے یہی حاصل ہوسکا،ہوسکتا ہے اس کی کچھ جزوی تفصیلات مجھ سے رہ گئی ہوں۔)

    اِمسال اٹھارہواں فقہی سیمینار ہونا تھا جس کے لئے ادارہ فیض القرآن ٹھیکری باڑی اتر دیناجپور طے پایا تھا،سیمینار کی تاریخ 15/تا 17 ستمبر 2023؁ء بروز جمعہ تا اتوار طے پائی تھی،امسال کے سیمینار کے دو موضوع مقرر ہوئے تھے، (١) اجتماعی قربانی سے متعلق بعض تحقیق طلب مسائل،(٢) مالِ حرام سے متعلق چند غور طلب امور، سیمینار میں شرکت کرنے والے حضرت مولانا ابوالقاسم صاحب نعمانی مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند،حضرت مفتی راشد صاحب اعظمی نائب مہتمم و استاذ حدیث دار العلوم دیوبند،حضرت مولانا محمد سلمان صاحب بجنوری نائب صدر جمعیۃ علماء ہند و استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند،حضرت مفتی شبیر احمد صاحب قاسمی صدر مفتی جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد حضرت مفتی سلمان صاحب منصورپوری استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند،حضرت مولانا عتیق احمد صاحب بستوی دارالعلوم ندوة العلماء لکھنو،حضرت مفتی زین الاسلام صاحب قاسمی دارالعلوم دیوبند حضرت مفتی عبد اللہ صاحب معروفی استاذ شعبۂ تخصص فی الحدیث دارالعلوم دیوبند،حضرت مفتی عبد الرزاق صاحب استاذ تخصص فی الحدیث دارالعلوم دیوبند،حضرت مفتی عفان صاحب منصورپوری شیخ الحدیث جامع مسجد امروہہ،حضرت مفتی اشرف عباس صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند،مفتی فہیم الدین صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند،مفتی ساجد عالم صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند،مولانا منیر الدین صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند،مفتی مزمل حسین صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند،مولانا ذاکر حسین صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند مفتی فخر الاسلام صاحب شعبہ افتاء دارالعلوم دیوبند،حضرت مفتی صالح صاحب استاذ مظاہر علوم سہارن پور حضرت مفتی شاہد صاحب گجرات ، مفتی عثمان صاحب گرینیڈ ، مفتی اخلد امین صاحب الہ آباد،حضرت مفتی خالد انور صاحب نیموی بہار،حضرت مفتی صبیح اختر صاحب قاسمی شیخ الحدیث مدرسہ جلالیہ ہوجائی آسام، حضرت مفتی جاوید اقبال صاحب قاسمی صدر جمعیة علماء بہار،حضرت مفتی مناظر صاحب نعمانی قاسمی ترجمان جمعیة علماء کشن گنج،حضرت مولانا ثناء الہدی صاحب قاسمی امارت شرعیہ پھلواڑی شریف پٹنہ،حضرت مفتی عبدالعزیز صاحب ادارہ فیض القرآن ٹھیکری باڑی ، مفتی حبان صاحب دیوبند،(یہ میرے لئے فخر کی بات ہے کہ مفتی صاحب نے میری تحریروں کی تعریف کی،مفتی صاحب سے فیس بک کے ذریعے تعارف ہوا،مفتی صاحب مجھے کوئی کتاب دینے چاہ رہے تھے مگر افسوس کہ میں اس کا موقع بنا نہیں پایا)حضرت مفتی مصعب صاحب معین مفتی دارالعلوم دیوبند،حضرت مفتی اسد اللہ صاحب معین مفتی دارالعلوم دیوبند،حضرت مفتی عیسی زاہد صاحب مظفرنگر،مفتی صفوان صاحب دیوبند،مفتی یسین افغانی صاحب،تخصص فی الافتاء دارالعلوم دیوبند اور رفیق درس مفتی صالح الزماں صاحب اڑیسہ وغیرہم سمیت تقریبا دو سو پچاس مفتیانِ کرام شریک ہوئے۔

     مقرر کردہ تواریخ کے مطابق سیمینار کی پہلی نشست بروز جمعہ بعد نماز مغرب ادارہ فیض القرآن کی مسجد کے بالائی حصہ پر منعقد ہوئی، تلاوتِ قرآن اور نعتِ نبی ﷺ سے باضابطہ مجلس کا آغاز ہوا،نظامت کا فریضہ محبوب العلماء حضرت مفتی عفان صاحب منصورپوری نے انجام دیا،بعدہ ادارہ فیض القرآن ٹھیکری باڑی کے روحِ رواں،مخدومِ گرامی حضرت اقدس الحاج مولانا ممتاز عالم صاحب مظاہری نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا اور گلوگیر لہجے اور نَم آلود پلکوں کے ساتھ اپنے تمام مندوبین مفتیانِ کرام کو اہلا سہلا اور خوش آمدید کہا،اُس کے بعد جمعیة علماء ہند کے نائب صدر حضرت مولانا سلمان صاحب بجنوری نے خطبۂ افتتاحیہ پیش کیا،جس میں فقہی سیمینار کے اغراض و مقاصد کے اوپر بالتفصیل روشنی ڈالی گئی،پھر سیمینار کے پہلے موضوع سے متعلق تلخیص مفتی مصعب صاحب قاسمی معین مفتی دارالعلوم دیوبند اور مفتی اسد اللہ صاحب قاسمی معین مفتی دارالعلوم دیوبند نے پیش کی جبکہ دوسرے موضوع سے متعلق تلخیص حضرت مفتی عبد اللہ صاحب معروفی نے پیش کی،یہ تلخیصات دو نشستوں میں پیش کی گئیں اور دونوں ہی نشستوں میں تلخیصات پیش کئے جانے کے بعد مناقشہ کا سلسلہ شروع ہوا،مختلف مفتیانِ کرام نے فقہی نقطۂ نظر سے اپنی آراء پیش کیں،بالآخر مناقشہ اور کافی بحث و تمحیص کے بعد جو تجاویز باتفاق رائے مہر بند ہوئیں وہ حسبِ ذیل ہیں:

     تجویز (۱)مال حرام سے متعلق چند غور طلب امور
   (۱)  سود، غصب، رشوت، چوری، جوا، سٹہ اور عقد باطل کے ذریعہ حاصل شدہ مال قطعی حرام ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اس کو اصل مالک کو لوٹانا ممکن نہ ہو تو دفع وبال کی نیت سے غرباء میں تقسیم واجب ہے، اور اس طرح کا مال اگر وراثت میں حاصل ہوا ہو اور اس کا مالک معلوم ہو، نیز واپس کرنا ممکن ہو تو مالک تک اس مال کا پہنچانا ضروری ہے۔ اور اگر مالک معلوم نہ ہو یا معلوم تو ہو؛ لیکن اس تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو ایسے مال کو بھی فقراء پر تقسیم کرنا واجب ہے۔

    (۲)  شریعت میں جو اُمور ناجائز ہیں، مثلاً: نوحہ کرنا، ناچ گانا اور بلاضرورت تصویر کشی وغیرہ کو ذریعہ معاش بنانا جائز نہیں ہے۔ اور ان سے حاصل شدہ آمدنی بھی ناجائز ہے۔
    (۳)  جو امور فی نفسہ جائز ہیں؛ لیکن وہ گناہ اور معصیت کا سبب بنتے ہیں، تو ان کو حتی الامکان ذریعہ آمدنی نہیں بنانا چاہئے؛ تاہم ان کی آمدنی حرام نہ ہوگی۔
   (۴)  خریدار پر حلال مال سے ہی واجب الاداء ثمن کو اداء کرنا لازم ہے؛ لیکن اگر کسی وجہ سے حرام مال سے ادائیگی کردی تو اس سے خریدے ہوئے سامان کے منافع اس کے لئے حرام نہ ہوں گے؛ البتہ خریداری میں صرف کردہ حرام مال کے بقدر اصل مالک تک پہنچانا ورنہ فقراء پر خرچ کرنا ضروری ہوگا۔
   (۵)  فروخت شدہ سامان کی قیمت، گاڑی یا مکان کا کرایہ، اسکول یا مدرسہ کی فیس وغیرہ ایسے شخص سے وصول کرنا جائز ہے جس کا ذریعہ آمدنی بظاہر حرام ہو۔

   (۶)  اگر کسی شخص کے پاس حلال اور حرام مال الگ الگ ہوں اور یہ معلوم ہو کہ وہ حلال مال میں سے ہی خرچ کررہا ہے تو اس کی دعوت قبول کرنا اور اس سے ہدیہ وغیرہ لینا جائز ہے۔ اور اگر متعین طور پر معلوم ہوجائے کہ وہ حرام مال پیش کررہا ہے تو اُسے لینا جائز نہ ہوگا۔ اور اگر حلال اور حرام مال مخلوط ہو تو جو وہ اپنے حلال حصہ کے بقدر مال میں سے پیش کرے تو قبول کرنا درست ہے۔ اور اگر اس کا علم نہ ہو؛ لیکن حرام مال غالب ہو تو اس کے یہاں دعوت کھانا اور ہدیہ وغیرہ قبول کرنا جائز نہیں ہے۔

   (۷)  کسی ایسے محلہ میں دوکان کھولنا جہاں اکثر لوگ ناجائز کاروبار میں ملوث ہوں فی نفسہ جائز ہے؛ البتہ احتیاط یہ ہے کہ ایسی جگہوں پر دوکان کھولنے سے پرہیز کیا جائے۔
    تجویز (۲)اجتماعی قربانی سے متعلق بعض تحقیق طلب مسائل:
   (۱) مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی قربانی انفرادی طور پر خود کرنے کی کوشش کریں، یہ زیادہ موجب ثواب ہے؛ تاہم معتبر اجتماعی نظام کے تحت بھی قربانی کرانا جائز ہے۔
   (۲)  اجتماعی قربانی کے نظام میں مجموعی حصہ داروں کی نیت سے بھی جانوروں کی بلاتعیین قربانی درست ہوجائے گی۔
   (۳)  اگر تمام شرکاء جانور میں سے اپنے اپنے حصہ کا پورا گوشت لینا چاہتے ہوں تو وزن کے ساتھ تقسیم کیا جانا یا کم از کم ہر حصے کے ساتھ گوشت کے علاوہ دوسرے اعضاء (مثلاً: سری، پائے، چربی، گردہ اور دل) کے ٹکڑے رکھ دینا ضروری ہے۔
   (۴)  الف:-  قربانی کا نظم وانتظام کرنے والے ادارے اگر جانوروں کی قیمت کا تخمینی اندازہ لگاکر فی حصہ متعین رقم کا اعلان کردیں اور اس کے مطابق رقومات وصول کریں اور رقم کم پڑنے کی صورت میں مزید مطالبہ کرنے کی صراحت بھی کریں یا یہی طریقہئ کار ادارہ میں معروف ہو تو قبل از تعیین جانور کے ہلا ک ہونے یا عیب دار ہونے کی ذمہ داری ادارے کی ہوگی، اور تعیین کے بعد اگر ہلاکت ہو یا عیب پایا جائے تو یہ حصہ دار کا نقصان شمار ہوگا۔ب:-  اگر ادارہ متعینہ رقم لے کر قربانی کرنے کی پوری ذمہ داری لیتا ہے اور رقم کم پڑنے یا زیادہ ہونے پر حصہ دار سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا تو اس طریقہ پر شرعی اُصول وضوابط کے مطابق قربانی کرنے کی اجازت ہے۔ ایسی صورت میں قربانی کرانے والے ہر قسم کے نفع ونقصان سے برئ الذمہ ہوں گے۔ 
   (۵)  قربانی کی رقم وصول کرنے والوں کے اخراجات کو بھی (عرف کے مطابق) دیگر اخراجات میں شامل کرکے حصہ داروں سے وصول کرنے کی گنجائش ہے۔

    (۶)  مدرسہ کے مال سے قربانی کے جانوروں کی حتی الامکان خریداری نہ کی جائے، اہل مدارس کو چاہئے کہ جانور فراہم کرنے والے لوگوں سے ادھار خریداری کا معاملہ کریں اور حصص کی رقومات حاصل ہونے کے بعد واجب الاداء رقم ان کے حوالے کردیں۔

                ظفر امام،کھجورباڑی
                            دارالعلوم بہادرگنج
                          20/ستمبر 2023؁ء
    

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button