اہم خبریںمضامین

فرقہ پرستوں کے نرغے میں ہیں تریپورہ کے مسلمان

 بھارت کے مشرقی علاقے ریاست تریپورہ میں فسادات کی موجیں سروں سے گزر رہی ہیں، متعصب ہندؤں کے لیے خون دل کی سبیلیں لگائی جا رہی ہیں، فرقہ پرستوں کی تنگ نظری سیکولر ذہنیت کے منھ پر کالک تھوپی جارہی ہے۔ تریپورہ کی موجودہ صورتحال حال سے قبل اس کی تاریخ ملاحظہ فرمائیں وکیپیڈیا کے مطابق 14 ویں اور 15 ویں صدی قبل مسیح کے دوران ، تکی پورہ سلطنت بنگال کے پورے مشرقی خطے ، شمال اور مغرب میں دریائے برہما پتر تک ، جنوب میں بنگال کی خلیج اور مشرق میں برما تک پھیلی ہوئی تھی۔

تریپورہ کی ریاستی حتمی حکمنامہ کی بنیاد پر بتایا گیا ، 9 ستمبر 1949 کو ریاضت کا ہندوستان گناتجری میں واقع ہوا تھا اور اس کے بعد انتظامیہ 15 اکتوبر 1949 کو منتقلی ہو گیا تھا۔ 

یکم جولائی 1963 کو ، تری پورہ ایک مرکزی علاقہ بن گیا اور 21 جنوری 1972 کو اسے مکمل ریاست کا درجہ حاصل ہو گیا۔

قبل از تاریخ دور 

ریاست کی اصلیت تریپورہ کے راجوں راجالا کی تاریخ میں لکھی گئی کہانیوں سے منسلک ہے ، جو ہندوؤں کی روایتی تاریخ اور تریپوری لوک داستانوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔

قدیم وقت 

قدیم دور 7 ویں صدی کے آس پاس کا کہا جاسکتا ہے جب تریپوری بادشاہوں نے شمالی تریپورہ کے کیلا شاہ شہر سے حکومت کی اور ” فا ” کو اپنے لقب کے طور پر استعمال کیا۔ کوکبوروک میں ، ” فا ” کا مطلب ہے ” باپ ” یا ” سربراہ "۔

قرون وسطی کا دور 

تریپورہ کے بادشاہوں نے ” مانیکیا ” کے لقب کو اپنایا اور چودہویں صدی میں جنوبی تریپورہ میں دریائے گومتی کے کنارے واقع اپنے دار الحکومت ادئی پور (سابقہ رنگتی) کو منتقل کر دیا۔ اس دور میں ان کی طاقت اور شہرت کا اعتراف مغلوں نے بھی کیا ، جو شمالی ہندوستان میں اس کے ہم عصر تھے۔

جدید دور 

جدید مغلوں کا آغاز اس وقت ہوا جب ریاست میں برطانوی مغلوں کا غلبہ ہونے کے بعد اس کا غلبہ برطانوی ہندوستان کی طرح ہے۔

برطانوی نوآبادیاتی دور (1851–1949)

 اُجینت محل 1901 میں تعمیر کیا گیا تھا۔

1871 میں ، حکومت برطانوی ہند نے مہاراجا کی انتظامیہ میں مدد کے لیے ایک ایجنٹ مقرر کیا۔ اس عرصے کے دوران ، انیسویں صدی کے اوائل میں ، ریاست کا دار الحکومت موجودہ ریاست کا دار الحکومت ، مغربی تریپورہ کے اگارتالا میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ تریپورہ کے حکمرانوں نے اججینتا پیلس اور نہرو محل محل سمیت محل تعمیر کیے۔

آزادی کے بعد (1947 عیسوی – موجودہ)

ہندوستان کی آزادی کے بعد ، تریپورہ کی سلطنت 15 اکتوبر 1949 کو ہندوستان کی یونین میں ضم ہوگ.۔ یکم جولائی 1963 کو تریپورہ ایک مرکزی علاقہ بن گیا اور 21 جنوری 1972 کو مکمل ریاست حاصل کرلیا ۔

لیکن آج کا تریپورہ فرقہ پرستوں کے نرغے میں ہے۔ بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق کم از کم ایک درجن مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے یا انھیں جلایا گیا ہے اور متعدد مقامات پر مسلمانوں کے گھروں اور کاروبار پر حملے کیے گئے ہیں۔ ابھی تک کسی گرفتاری کی کوئی خبر نہیں آئی ہے۔تریپورہ میں ہندوؤں کی اکثریت ہے، جن میں سے ایک قابل ذکر تعداد بنگلہ دیش سے ہجرت کرنے والے ہندوؤں کی ہے۔ مقامی لوگ تریپورہ میں حالیہ تشدد کو پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد کے حالیہ واقعات کے ردعمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔یاد رہے کہ بنگلہ دیش کے ضلع کومیلا میں ایک پوجا پنڈال میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کی اطلاعات کے بعد ملک بھر میں ہندوؤں کے خلاف کئی پُرتشدد واقعات رونما ہوئے ہیں۔

واضح کر دیں کہ بنگلہ دیش نے تشدد میں ملوث افراد کے خلاف سختی سے کارروائی کی ہے۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے تشدد کے واقعات کے فوراً بعد ملک کی ہندو برادری سے ملاقات کی۔ اس کے علاوہ حکومت نے کئی گرفتاریاں کیں اور وزرا نے متاثرہ ہندوؤں سے ملاقات بھی کی۔ لیکن تریپورہ میں بھگوا دہشت گردوں کی طرف سے مسلمانوں پر ہورہے ظلم و بربریت پر بھارت کے وزیراعظم خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کی حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے۔

تاجر عبدالمنان کی آپ بیتی 

تریپورہ کے اناکوٹی ضلع کے سرحدی قصبے کیل شہر میں رہنے والے عبدالمنان نامی تاجر نے بی بی سی کو بتایا  کہ منگل(26/ اکتوبر 2021)کی رات ساڑھے بارہ بجے ایک ہجوم نے ان کے گھر پر حملہ کر دیا اور توڑ پھوڑ کی جس کے نتیجے میں ان کی فیملی کو گھر سے بھاگنا پڑا۔ وہ خود اس وقت گھر پر نہیں تھے اور ریاستی دارالحکومت اگرتلہ میں تھے۔عبدالمنان نے تفتیش کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج پولیس کے حوالے کر دی ہے لیکن انھیں اپنی حفاظت سے متعلق تشویش ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں 44 سال کا ہوں لیکن میں نے یہاں ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اب تو رہنا مشکل ہو گیا ہے، اور کوئی کام کیا کرے گا آدمی۔

اس حملے سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے ایک رات میں مبینہ طور پر ‘وشو ہندو پریشد’ (وی ایچ پی) کے ارکان نے ان کے گھر پر بھگوا جھنڈا لگا دیا تھا۔

عبدالمنان ایک معروف تاجر ہیں اور ریاستی اسمبلی کے ایک ممبر کے خاص رشتہ دار ہیں لیکن پھر بھی یہ ان کے گھر پر حملے روکنے کے لیے ناکافی تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم جہاں رہتے ہیں وہاں مسلمانوں کے صرف پانچ سے 10 گھر ہیں۔ اگر ایسے ہی رہا پھر تو یہاں سے وہاں جانا پڑے گا جہاں مسلمان زیادہ آبادی میں ہیں۔ ریاست میں مسلمانوں کی تعداد 10 فیصد سے بھی کم ہے اور وہ کسی ایک جگہ نہیں بلکہ ان کی آبادی پوری ریاست میں پھیلی ہوئی ہے۔

تریپورہ کے حالات دن بدن شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف ہوئے تشدد کی مذمت میں کئی دنوں سے ریاست بھر میں بھگوا دہشت گرد تنظیم وی ایچ پی اور بجرنگ دل  کی طرف سے  مظاہرے اور ریلیاں جاری تھیں، لیکن یہ ریلیاں شدت اختیار کر گئیں اور ریاست کے مسلمانوں کے خلاف متشدد ہوگئیں۔ جس کے نتیجے میں مساجد میں توڑ پھوڑ، آگ زنی، مسلمانوں کی دُکانوں و مکانوں میں توڑ پھوڑ، مسلم مخالف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شان مقدس میں اہانت آمیز نارے بازی جیسے واقعات روزانہ سامنے آ رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہندوتوادی ہجوم کی جانب سے مسلم علاقوں میں مساجد، گھروں اور افراد پر حملہ کرنے کے کم از کم 27 واقعات ہوئے ہیں۔ ان میں 16 واقعات ایسے ہیں جہاں مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی اور ان پر زبردستی وی ایچ پی (وِشو ہندو پریشد) کے جھنڈے لہرائے گئے۔ کم از کم تین مساجد، اناکوٹی ضلع کی پالبازار مسجد، گومتی ضلع کی ڈوگرہ مسجد اور وِشال گڑھ میں نرولا ٹیلا کو نذر آتش کر دیا گیا۔ مسلمانوں کے گھروں پر پتھراؤ اور نشانہ بنانے اور توڑ پھوڑ کرنے کی بھی خبریں ہیں۔ تقریباً یہ تمام حملے ہندوتوا ہجوم کی طرف سے کیے گئے جو بظاہر بنگلہ دیش میں ہندو مخالف تشدد کے خلاف احتجاج کے لیے جمع ہوئے تھے۔ لیکن حکومت اور ریاستی انتظامیہ کی جانب سے اب تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے، گویا ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے حکومت چاہتی ہی نہیں ہے کہ تشدد ختم ہو اور امن قائم ہو۔ کئی جگہ بنگلہ دیش کے واقعات کا حوالہ دے کر تریپورہ کی صورتحال کو درست بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ بات بھی واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں تشدد کے واقعات پر چند ہی دنوں میں حکومت کی جانب سے سخت اقدامات کئے گئے جس میں تقریبا 500 گرفتاریاں بھی ہوچکی ہیں۔

لیکن تریپورہ میں اب تک حالات جوں کہ توں ہیں بلکہ مزید بگڑتے جا رہے ہیں۔” بروز منگل نارتھ تریپورہ کے علاقے دھرمانگر اور کیلاشہر میں ریاست کے حالات کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کی جانب سے مظاہرے منقعد کئے گئے، بعد ازاں وہاں پولیس انتظامیہ کی جانب سے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی اور مظاہرے سے روک دیا گیا۔ لیکن جن مقامات پر شر پسندوں کے ذریعے دہشت کا ماحول بنایا جا رہا ہے، توڑ پھوڑ اور آگ زنی کی جا رہی ہے وہاں اب تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی ہے۔ حکومت و ریاستی انتظامیہ کی جانب سے محض چند مقامات پر پولیس کی تعیناتی دِکھا کر یہ بتایا جا رہا ہے کہ حالات پر قابو پانے کی کوشش جاری ہے۔حکومت سے یہ اپیل ہے کہ حالات پر جلد از جلد قابو پایا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ مساجد کا جو نقصان ہوا ہے اسکی بھرپائی کی جائے، مسلمانوں کو خصوصی تحفظ فراہم کیا جائے اور جو دہشت پھیلا رہے ہیں انکے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے تاکہ ریاست میں امن قائم ہو سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button