اہم خبریںمضامین

عطا عابدی – ایک تعارف

عطا عابدی – ایک تعارف
ترتیب و پیشکش : انسان گروپ ، مغربی بنگال

نام: محمد عطا حسین انصاری
والد: عابد حسین انصاری
والدہ:سائرہ خاتون
آبائی وطن:برہولیا (دربھنگا، بہار)
جائے ولادت:برہولیا (دربھنگا، بہار)
تاریخ ولادت:01 نومبر 1962ء
(بہ اعتبار اسکولی سند)
تعلیم:ایم اے
پی ایچ ڈی(اردو)
تلمیذ: اویس احمد دوراں
نامی نادری
ناوک حمزہ پوری
تصنیفات و تالیفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)آئینۂ عقیدت (حمد و نعت)
۔ 1987ء
۔ (2)عکسِ عقیدت (حمد و نعت)
۔ 2002ء
۔ (3)بیاض (غزلیات)
۔ 2003ء
۔ (4)مطالعے سے آگے (تنقید و تحقیق)
۔ 2006
۔ (5)افکارِ عقیدت (حمد و نعت)
۔ 2007ء
۔ (6)نوشت نوا (غزلیات)
۔ 2009ء
۔ (7)زندگی، زندگی اور زندگی (نظمیں)
۔ 2010ء
۔ (8)مناظرے مذکر و مؤنث کے
۔ (کہانیاں برائے اطفال)
۔ 2012ء
۔ (9)خوشبو خوشبو نظمیں اپنی
۔ (نظمیں برائے اطفال)
۔ 2012ء
۔ (10)شعر اساس تنقید (تنقید)
۔ 2015ء
۔ (11)دریچے سے
۔ (رباعی، قطعہ، ہائیکو، تعزیتی تہنیتی نظمیں)
۔ 2016ٰء
۔ (12)سقوط ماسکو اور ترقی پسند ادب
۔ (مکالمہ، مذاکرہ)
۔ 2018ء
۔ (13)تشکیل و تعبیر
۔ (اصنافِ ادب پر
۔ ناوک حمزہ پوری کے مضامین)
۔ 2001ء
۔ (14)فصلِ آگہی
۔ (سلیم انصاری کی غزلیں)
۔ 1996ء
۔ (15)عکسِ اشک
۔ (ترتیب و تقریظ
۔ /محسن رضا رضوی کے نوحے)
۔ 1987ء
غیرمطبوعہ کتب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)تجدید (غزلیات)
۔ (2)شعر اساس مکالمات
۔ (3)عکس ہائے دور دراز
۔ (سوانحی ناول)
۔ (4) بچوں کی کتابیں (تعارف و تذکرہ)
۔ (زیر طبع)
۔ (5)آزادی کے بعد بہار کے اردو ادبی رسائل
۔ (زیر طبع)
۔ (6)لمحاتِ فکر (ترتیب شدہ)
آغازِ تحریر:82ء-81ء
صحافتی وابستگی
(سابقہ/موجودہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)ایڈیٹر ”مسافر“ ململ، مدھوبنی)
۔ (2)سب ایڈیٹر۔ ماہنامہ افکارِ ملی، نئی دہلی
۔ (3)مدیرِ اعزازی:تحفۂ ادب، دربھنگہ
رکنِ مجلسِ ادارت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)رسالہ ”رفتارِ نو“، دربھنگہ
۔ (2)رسالہ ”ترجمان“، عظیم آباد
۔ (3)ماہنامہ ”زبان و ادب“، پٹنہ
رکن مجلس مشاورت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)ماہنامہ ”لمحۂ فکریہ“، نئی دہلی
۔ (2)ماہنامہ ”بچوں کی دنیا“، گیا
۔ (3)”ادب“، دربھنگہ
۔ (4)سہہ ماہی ”ندائے بصرت“
۔ ململ، مدھوبنی
۔ (5)”بھاشا سنگم“، پٹنہ
۔ (6)”دربھنگا ٹائمز“، دربھنگا
۔ (7)”تخلیق و تحقیق“، مئو ناتھ بھنجن
مدیر:کاؤنسل دستاویز، پٹنہ
کاؤنسل خبرنامہ، پٹنہ
پذیرائی/ایوارڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ (1)ادارہ راوی لندن کا عالمی نعتیہ مقابلہ
۔ پہلا خصوصی انعام-1992ء
۔ (2)کئی کتابوں پر بہار اردو اکاڈمی کے انعامات
۔ (3)شاداں فاروقی ایوارڈ، دربھنگا-2008ء
۔ (4)نقی احمد ارشاد ایوارڈ
۔ علمی مجلس، بہار-2010ء
۔ (5)الطاف حسین حالی ایوارڈ
۔ انجمن ترقی اردو، مالیگاؤں-2013ء
۔ (6)اکبر رضا جمشید اردو زبان و ادب ایوارڈ
۔ پٹنہ-2018ء
۔ (7)ڈاکٹر محمد مسلم ایوارڈ، دربھنگا- 2019ء
پتا (موجودہ):معروفت بک امپوریم
اردو بازار، سبزی باغ،پٹنہ
فون:9934296773 / 7903021559

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
تماشا زندگی کا روز و شب ہے
ہماری آنکھوں کو آرام کب ہے
چمکتی ہے تمنا جگنوؤں سی
اندھیری رات میں رونق عجب ہے
ضرورت ڈھل گئی رشتے میں ورنہ
یہاں کوئی کسی کا اپنا کب ہے
کہاں دنیا کہاں اس کے تقاضے
وہ تیرا مے کدہ یہ میرا لب ہے
زباں ہی تیرا سرمایہ ہے لیکن
عطاؔ خاموش یہ جائے ادب ہے

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
تجھ کو خفت سے بچا لوں پانی
تشنگی اپنی چھپا لوں پانی
خاک اڑتی ہے ہر اک چہرے پر
کس کی آنکھوں سے نکالوں پانی
دھوپ دریا پہ نظر رکھتی ہے
تجھ کو کوزے میں چھپا لوں پانی
اڑتے پھرتے ہیں سروں پر بادل
خواب آنکھوں میں بسا لوں پانی
روز بچوں کو سلا دوں یونہی
روز پتھر کو ابالوں پانی
آگ سے کھیلنا ہے کل مجھ کو
آ تجھے اپنا بنا لوں پانی
خارزاروں پہ چلوں ننگے پاؤں
خشک دھرتی کی دعا لوں پانی
صبر کی حد بھی تو کچھ ہوتی ہے
کتنا پلکوں پہ سنبھالوں پانی
بھول جاؤں نہ کہیں تیراکی
کیوں نہ کشتی ہی جلا لوں پانی
اپنی وحشت کا اک اظہار سہی
کر کے سرد آگ جلا لوں پانی
زخم ہو پھول ہو یا انگارہ
ہو جو روشن تو بلا لوں پانی
شرط ہے تیری رفاقت ورنہ
وقت کی آگ میں ڈالوں پانی
آگ مطلوب لب تشنہ ہے
میں تجھے کیسے بلا لوں پانی
چشم احباب جو ہو خشک عطاؔ
خون کو اپنے بنا لوں پانی

غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔
تیرگی شمع بنی راہ گزر میں آئی
ساعت اک ایسی بھی کل اپنے سفر میں آئی
جس جگہ چہرہ ہی معیار وفا ٹھہرا ہے
خاک ہی خاک وہاں دست ہنر میں آئی
تیری نظروں میں تھی دنیا تو یہی کیا کم تھا
حشر یہ ہے کہ تو دنیا کی نظر میں آئی
بارہا یاروں نے ساحل سے کہا تھا ہم ہیں
بارہا ناؤ مگر اپنی بھنور میں آئی
زندگی سمجھوں اسے یا کہ اسے موت کہوں
وہ جو مہمان کی صورت مرے گھر میں آئی
یوں بھی تاریخ کی تاریخ رقم ہوتی ہے
نکلی تاریخ محل سے تو کھنڈر میں آئی
خواب ہی خواب کی تعبیر ہوا تو جانا
زندگی کیوں کسی آنکھوں کے اثر میں آئی
شمع جلتے ہی بجھی اور دھواں ایسا اٹھا
لذت شام یہاں خواب سحر میں آئی
زندگی کچھ ہے عطاؔ شعر و ادب ہے کچھ اور
یہ دو رنگی کی وبا کیسی ہنر میں آئی

اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بھی پریمؔ کے اور کرشنؔ کے افسانے ہیں
آج بھی وقت کی جمہوری زباں ہے اردو

ضرورت ڈھل گئی رشتے میں ورنہ
یہاں کوئی کسی کا اپنا کب ہے

ادب ہی زندگی میں جب نہ آیا
ادب میں اتنی محنت کس لئے ہے

صبر کی حد بھی تو کچھ ہوتی ہے
کتنا پلکوں پہ سنبھالوں پانی

کوئی بھی خوش نہیں ہے اس خبر سے
کہ دنیا جلد لوٹے گی سفر سے

خواب ہی خواب کی تعبیر ہوا تو جانا
زندگی کیوں کسی آنکھوں کے اثر میں آئی

سب خواب پرانے ہیں ہر چند فسانے ہیں
ہم روز بساتے ہیں آنکھوں میں نئی دنیا

جب قلم ہاتھ میں آیا تو عطا ایسا لگا
اک ملاقات زمانے سے زمانے کی ہوئی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button