اہم خبریںمضامین

اتباع رسول مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ



ہر آدمی اللہ کی محبت کا طالب ہے ، ساری زندگی کی تگ و دو اگر وہ واقعتاً مسلمان ہے تو اللہ کو راضی کرنے اور اس کی محبت پالینے کے لیے ہو تی ہے ۔اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم میں حکم دیا کہ آپ اس بات کا اعلان کر دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو، اگر تم ان کی اتباع کروگے تو اللہ تمہیں محبوب بنا لے گا یعنی تم اللہ کے پسندیدہ بندے بن جاؤ گے اور وہ تمہارے گناہ بخش دے گا ،اس لیے کہ اللہ بخشنے والارحم کرنے والا ہے ۔اور سچی بات یہ ہے کہ جسے اللہ کی رحمت اور مغفرت مل گئی وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہو جائے گا ۔اسے کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں ہے ۔کہیں تھوڑی بہت کمی اور کجی رہ گئی ہو گی تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کبریٰ سے بندوں کے کام بن جائیں گے ۔


قرآن کریم کی دوسری آیات میں بتایا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ زندگی میں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے ،ظاہر ہے بہترین نمونے کی اتباع کر کے انسان اچھا اور بہترین بن سکتا ہے ،احادیث میں سنتو ں پر عمل کرنے کی تلقین کی گئی ہے ، اور اپنی زندگی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر گزارنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
ہم سب اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے دعوے دار ہیں ، لیکن ہماری زندگی اتباع رسول سے خالی ہے ،ہم نمازیں نہیں پڑھتے حالاں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کہا تھا،ہمارے چہرے سے داڑھی غائب ہے ، جبکہ وہ بھی سنت ہے ، بیوی بچوں کے ساتھ ہمارا رویہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے بر عکس ہے ، اس معاملہ میں ہم نے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی سے کچھ بھی حصہ نہیں پایا ،اس لیے خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ، طلاق کے واقعات کثرت سے ہو رہے ہیں، کھانے پینے بودو باش بلکہ زندگی کے تمام حرکات و سکنا ت میں اتباع رسول کا پہلو ہماری نظروں سے اوجھل رہتا ہے،بلکہ جو کچھ لوگ سنتوں پر عامل ہیں اور اتباع رسول کی کوشش کرتے ہیں وہ آج کے دور میں رجعت پسند اور دقیانوس سمجھے جاتے ہیں ۔حالانکہ اصل زندگی تو وہی ہے جس کے ہر فعل و عمل میں اتباع رسول کو برتا گیا ہو۔


صورت حال یہ ہے کہ احکام شریعت و سنت پر عمل مسلمان عام حالات میں نہیں کرتا، اضطراری حالت میں البتہ شریعت کی یاد آتی ہے ، کسی نے خود کشی کر لی تو پولیس کے خوف سے جلد تدفین کر دی جاتی ہے حالانکہ تدفین میں جلدی کا حکم تو ہر حال میں ہے ، معاملہ نارمل ہو تو کئی کئی روز جنازہ پڑا رہتا ہے ،کسی لڑکی کا معاملہ جنسی بے راہ روی کے نتیجے میں حمل تک پہونچ گیا تو نکاح کی جلد ی ہوتی ہے ، حالانکہ بالغ ہونے کے بعد نکاح کردینے کا حکم تو عام حالت میں ہے ، اسی طرح اپنی غربت و افلاس کے معاملہ میں دل کو الفقر فخری پڑھ کر تسلی دے لیتے ہیں ، کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر کو اپنے لیے فخر قرار دیا ہے ، ہم اس کی اتباع کر رہے ہیں، حالاں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فقر سے بندے کی محتاجی کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے ، وہاں فقر اختیاری تھا، ہمارا فقر اضطراری ہے ، ہمارا فقر تو ایسا اضطراری ہے کہ کبھی کبھی کفر تک پہونچا دیتا ہے ۔’’کاد الفقر ان یکون کفراً‘‘میں یہی بات کہی گئی ہے ، اس تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ ہمارے یہاں اللہ اور رسول کی محبت کا نعرہ صرف نعرہ ہے ، جب کہ اللہ کی محبت کی اصل بنیاد جو اتباع رسول ہے وہ ہماری زندگی میں یا تو ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اختیاری نہیں اضطراری ہے ۔تمام مفسرین نے آیت ربانی’’قُلْ إنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِي یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ‘‘ کے ذیل میں لکھا ہے کہ جو شخص اتباع رسول کے بغیر اللہ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹاہے ۔


اتباع رسول صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہاں تھا، جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کام کے کرنے کا حکم دیا ویسا کیا ،کسی عمل پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی محسو س کی اس سے پوری زندگی احتراز کیا ، انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی پیروی کی کہ اللہ نے انہیں ’’رضی اللّٰہُ عنہم و رضوا عنہ‘‘ کا مژدہ سنا دیا۔اور زبان رسالت سے یہ اعلان کرا دیا کہ ہمارے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پالوگے ؛ضرورت اسی قسم کے اتباع کی ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button