اہم خبریںسائنس / کلائمیٹعالمی خبریں

شدید گرم لہر: اپنے عمل کی سزا بھگت رہی ہے امریکہ اور کناڈا کی عوام

رپورٹ: نشانت سکسینہ
ترجمہ: محمد علی نعیم

کناڈا اور امریکہ کی عوام شدید گرم لہر کی شکل میں جس پریشانی سے گزررہی ہے اس کے لئے وہ خود ذمہ دار ہے
دراصل معروف ماہرین موسمیات کی ایک عالمی ٹیم کے ذریعے کئے گئے ریپڈ ایٹریبیوشن تجزیہ کے مطابق امریکہ اور کناڈا کے کچھ حصوں میں گزشتہ ہفتے آئی سخت گرم لہر انسانوں کی وجہ سے پیدا شدہ موسمیاتی تبدیلی کے بغیر ناممکن تھی
ماہرین موسمیات کے مطابق گرین ہاؤس گیس کے اخراج کی وجہ سے ہونے والی موسمیاتی تبدیلی نے شدید گرم لہر کے امکان کو کم از کم 150 گنا زائد کردیا ہے


امریکہ اور کناڈا کے کچھ خاص شمالی مغربی علاقوں میں ایسے درجہ حرارت ناپے گئے جو کئی ڈگری سے ریکارڈ توڑتے ہیں جس میں لٹن گاؤں میں 49.6 ڈگری سیلسیس ( ف°121.3) کا ایک نیا کناڈائ ریکارڈ شامل ہے جو سابقہ ملکی ریکارڈ 45 ڈگری سیلسیس (ف°113) سے کافی زیادہ ہے


اس ریکارڈ کو قائم کرنے کے کچھ وقت کے بعد ہی لٹن گاؤں ایک جنگل کی آگ میں کافی حد تک تباہ ہوگیا
موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آج ہونے والی ہر گرم لہر زیادہ ممکن اور اور شدید ہوجاتی ہے، ان بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے ماہرین موسمیات نے جائزہ طریقوں پر عمل کرتے ہوئے 1800 کی دہائی کے بعد سے گلوبل وارمنگ کے تقریباً 1.2 ڈگری سیلسیس (ف°2.2) کے بعد آج کے موسم کا ماضی سے موازنہ کرنے کے لئے مشاہدات اور کمپیوٹر سمیولیشن کا تجزیہ کیا


تجربہ کئے گئے سخت درجہ حرارت گزشتہ درجہ حرارت کی حد سے بہت باہر تھے جس سے یہ ناپنا مشکل ہوگیا ہے کہ یہ صورتحال موجودہ موسم میں کتنی کم ہے اور انسانوں کی وجہ سے پیدا شدہ موسمیاتی تبدیلی کے بغیر کتنی کم ہوتی، لیکن محققین اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ انسانی اثرات کے بغیر تقریباً ناممکن تھی


محققین نے دو متبادل وضاحت پائ کہ کیسے موسمیاتی تبدیلی نے غیر معمولی گرمی کو اور ممکن بنادیا ، ایک امکان یہ ہے ، جبکہ کلائمیٹ چینج نے اس طرح کی گرم لہر ہونے کے امکان کو بڑھا دیا ہے، یہ موجودہ موسم میں بھی بہت ہی غیر معمولی واقعہ ہے، پہلے سے موجود قحط سالی اور غیر معمولی وایومنڈلی گردش کی صورتحال، جسکو گرمی کے گنبد کے طور پر جانا جاتا ہے، موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ مل کر زیادہ درجہ حرارت پیدا کرتی ہے، اس حال میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے بغیر زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت تقریبا 2 ڈگری سیلسیس (ف °3.6 ) کم ہوتا


جب تک مکمل طور پر گرین ہاؤس گیس کے اخراج کو روکا نہیں جاتا ہے تب تک عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا رہے گا اور اس طرح کے واقعات بھی ہوتے رہیں گے ، مثال کے طور پر بھلے ہی عالمی درجہ حرارت میں اضافہ 2 ڈگری سیلسیس (3.6 ڈگری فارن ہائیٹ) تک محدود ہو جو 2050 تک ہوسکتا ہے ، ماہرین کے مطابق اس طرح کی گرم لہر ہر 5 سے 10 سال میں ایک بار آتی ہے
ایک متبادل ممکن وضاحت یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے ایک غیر لکیری سطح کو کراس کرلیا ہے جہاں مجموعی طور پر گلوبل وارمنگ کی ایک چھوٹی مقدار درجہ حرارت میں نہایت تیزی سے اضافہ کررہی ہے جو اب تک دیکھی گئی ہے -مستقبل کی تحقیقات میں دریافت کئے جانے کی امید ہے اسکا مطلب یہ ہوگا کہ گزشتہ ہفتے کے واقعہ کی طرح ریکارڈ توڑ گرم لہر پہلے سے ہی کلائمیٹ ماڈل کی پیشین گوئی کے بالمقابل زیادہ ہی ہونے کے امکان ہیں ، اس سے اس بات پر سوال اٹھتا ہے کہ موجودہ سائنس کلائمیٹ چینج کے تحت گرم لہر کے برتاؤ کا کتنی اچھی طرح اندازہ لگاسکتی ہے
واقعہ سخت انتباہ دیتا ہے کہ انتہائی درجہ حرارت، فی الحال متوقع درجہ حرارت کی حد کے باہر 50°N کی اونچائی کے طول بلد پر ہوسکتا ہے، ایک رینج جسمیں سبھی قریب امریکہ،فرانس اور جرمنی کے کچھ حصے، چین اور جاپان شامل ہیں


ماہرین نے انتباہ دیا کہ اڈاپٹیشن کے منصوبوں کو حالیہ دنوں میں پہلے سے دیکھی گئی حد سے کافی زیادہ درجہ حرارت کے لئے ڈیزائن کیا جانا چاہیے


تحقیق عالمی موسم ایٹریبیوشن گروپ کے حصے کے طور پر 27 محققین کے ذریعے کی گئی تھی جسمیں کناڈا، جرمنی، نیدر لینڈ ، سوئٹزر لینڈ ،فرانس اور امریکہ کی یونیورسٹیز اور محکمہ موسمیات کی ایجنسیوں کے سائینسداں شامل تھے
اس ضمن میں کچھ ماہرین کی رائے اس طرح ہے
” جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ عدیم المثال ہے ،چار یا پانچ ڈگری سیلسیس (سات سے نو فارین ہائیٹ) سے ریکارڈ بریک نہیں ہونا چاہیے ، یہ ایک ایسا غیر معمولی واقعہ ہے کہ ہم اس امکان سے انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ جو ہم آج گرمی کی شدت کا تجربہ کررہے ہیں وہ گلوبل وارمنگ کی نہایت اعلی سطح پر ہی ممکن سمجھتے تھے “ فریڈرک آٹو ادارہ ماحولیاتی تبدیلی آکسفورڈ یونیورسٹی


”جبکہ ہم امید کررہے ہیں کہ گرم لہر مزید سخت ہونگی ، اس علاقے میں گرمی کی اس سطح کو دیکھنا غیر متوقع تھا ، یہ اس بات پر اہم سوال اٹھاتا ہے کہ کیا ہم واقعی سمجھتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کس طرح گرم لہر کو مزید گرم اور نقصاندہ بنارہی ہے“ گریٹ جینوین اولڈن برگ رائل نیدرلینڈز

موسمیاتی انسٹیٹیوٹ

”کلائمیٹ چینج اس طرح کے کمیاب واقعات میں اضافہ کررہاہے ، ہم نامعلوم علاقے میں قدم رکھ رہے ہیں ، گزشتہ ہفتے کناڈا میں تجربہ کئے گئے درجہ حرارت نے لاس ویگاس یا اسپین کے ریکارڈ توڑ دئیے ہوں گے، لیکن اگر ہم گرین ہاؤس گیس کے اخراج اور گلوبل وارمنگ کو روکنے کا انتظام نہیں کرتے ہیں تو درجہ حرارت اور زیادہ ریکارڈ تک پہنچ جائے گا“ سونیا سیوارتنے ادارہ ماحولیات و موسمیات ای ٹی ایچ زیورخ


“2019-2020 دونوں میں سب سے مہلک آفات میں گرم لہر سرفہرست ہے، یہاں ہمارے پاس ایک اور خوفناک مثال ہے ، تکلیف کی بات ہے کہ یہ صرف ایک چونکانے والی بات نہیں بلکہ ایک بہت ہی پریشان کن عالمی رجحان کا حصہ ہے ، انمیں سے کئی اموات کو گرم لہر جن کا ہم اس علاقے اور پوری دنیا میں سامنا کررہے ہیں، کے تعلق سے منصوبوں سے روکا جا سکتا ہے“ مارٹن وین آلسٹ ، ریڈ کراس ریڈ کریسنٹ کلائمیٹ سینٹر و یونیورسٹی آف ٹوونٹے
”ریاستہائے متحدہ امریکہ میں گرمی کی وجہ سے شرح اموات موسم سے متعلق نمبر ایک قاتل ہے مگر انمیں سے تقریباً سبھی اموات کو روکا جاسکتا ہے، ہیٹ ایکشن پلان ، ہیٹ ویو ارلی وارننگ، ریسپانس سسٹم سمیت ہمارے تعمیر شدہ ماحول میں تبدیلیوں کو ترجیح دیکر، تاکہ ایک گرم مستقبل نقصاندہ ثابت نہ ہو، گرمی سے نپٹنے کی تیاریوں کو بڑھا کر فی الحال اور مستقبل میں گرمی کی وجہ سے بیماری اور شرح اموات کو کم کرسکتے ہیں“ کرسٹی ایل ای بی، سینٹر فار ہیلتھ اینڈ گلوبل انوائرمنٹ ، یونیورسٹی آف واشنگٹن

”یہ واقعہ ایک بڑا انتباہ ہونا چاہیے ،فی الحال ہم ان چیزوں کو اچھی طرح نہیں سمجھتے ہیں جنکی وجہ سے ایسا غیر معمولی درجہ حرارت ہوتا ہے ، ہم نے شاید موسمیاتی تبدیلی کی ایک حد کراس کرلی ہے جہاں زیادہ گلوبل وارمنگ کی تھوڑی مقدار درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ کا باعث بنتی ہے“ دیم کومو ، ادارہ برائے ماحولیاتی مطالعات (VU ایمسٹرڈم) ، رائل نیدرلینڈ میٹورولوجیکل انسٹی ٹیوٹ (KNMI)
”یہ قابل تعجب ہے کہ ہم نے صرف ایک ہفتے میں کیا حاصل کیا ہے، 27 سائینسدانوں، مقامی ماہر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور موسمیاتی ایجنسیوں کے ساتھ جو اس ریپڈ ایٹریبیوشن میں شامل ہے ، دنیا بھر سے علم اور ماڈل ڈاٹا کا نظم تحقیقی نتائج میں اعتماد پیدا کرتا ہے“ سجیجی فلپ اور سارہ کیو ، ہیڈ آف اسٹڈی رائل نیدرلینڈ میٹورولوجیکل انسٹی ٹیوٹ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button