اہم خبریںمضامین

سیرت رسول ﷺ میں معاملہ فہمی اور حکمت و فراست : محمد قمرالزماں ندوی

سیرت رسول ﷺ میں تحمل و برداشت، ، فہم و شعور ، ادراک و فراست اور معاملہ فہمی کی درجنوں نہیں ، بلکہ سیکڑوں نمونے اور مثالیں موجود ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کوئی فیصلہ عجلت اور جلد بازی میں نہیں لیتے تھے، معاملے کے تمام پہلوؤں پر باریکی سے نظر ڈالتے اور اس کے عوامل و اسباب پر بہت گہرائی اور گیرائی سے نظر ڈالتے ، اصحاب رائے کی رائے سے فائدہ اٹھاتے اور ان سے مشورہ لیتے، باوجود کہ آپ مشورہ کے اصلا پابند نہیں تھے کیونکہ آپ رسول اور نبی تھے، آپ پر براہ راست وحی کا نزول ہوتا تھا، لیکن اس کے باوجود و شاورھم فی الامر کے تحت نازک اور حساس مسئلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے مشورہ لے کر ہی کوئی حتمی رائے دیتے، فیصلہ کرتے اور اس مسئلہ کا حل پیش کرتے۔ بہت سے موقع پر منافقین کی شرارتوں فتنہ پردازیوں اور ریشہ دوانیوں پر، بعض صحابہ کو سخت غصہ آیا اور انہوں نے جذبات میں آکر سامنے والے کو، جس کی حرکت اور شرارت سے اسلام اور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا، قتل کی اجازت چاہی، لیکن آپ نے سختی سے منع کردیا اور صبر و برداشت کی تلقین کی ۔ عبد اللہ بن ابی جو منافقین کا سردار تھا، بارہاں اس کی طرف سے ایسی حرکتیں سرزد ہوئیں ، اس نے ایسے ایسے گھناونے جرم کئے ، جس کی سزا قتل سے کم نہیں تھی، لیکن ہر موقع پر آپ نے صبر، برداشت،تحمل ، حکمت اور دانش مندی سے کام لیا اور معاملہ فہمی کا ایسا ثبوت دیا کہ نتائج اور عوامل کے اعتبار سے اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ عبد اللہ بن ابی کو اس کے کھلم کھلا نفاق اور اسلام دشمنی کے باوجود بہت سی مصلحت کے پیش نظر قتل نہیں کیا گیا اور اسے سزا نہ دینے کی وجہ یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آخرت میں عذاب عظیم دینے کا اعلان فرما دیا تھا دنیاوی سزا اور حد سے اس میں تخفیف ہوجاتی، البتہ علامہ ابن حجر رح کا کہنا ہے کہ واقعہ افک میں اس پر بھی حد نافذ ہوا تھا ۔۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ افک کے بعد سرعام عبد اللہ بن ابی منافق کی ذلت و رسوائی کے بعد حضرت عمر سے اس کیفیت کو دیکھ کر کہا کہ اے عمر! تمہارا کیا خیال ہے؟ دیکھو! والله اگر تم نے اس شخص کو اس دن قتل کردیا ہوتاہوتا، جس دن تم نے مجھ سے اسے قتل کرنے کی بات کہی تھی تو اس کے بہت سے ہمدرد اٹھ کھڑے ہوتے، لیکن اگر آج انہیں ہمدردوں کو اس کے قتل کا حکم دیا جائے تو وہ اسے قتل کردیں گے۔ حضرت عمر نے کہا،، والله میری سمجھ میں خوب آگیا کہ رسول ﷺ کا معاملہ میرے معاملہ سے زیادہ بابرکت ہے۔ (سیرت ابن ہشام) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت ملنے سے پہلے حجر اسود کے رکھنے کے سلسلہ میں جو تنازعہ ہوا تھا ، اس موقع پر جس انداز سے سب قبیلے کی دل بستگی کی اور ہر ایک کو نمائندگی کا موقع دیا، وہ خود ایک مثال ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ منورہ کے بعد امن و شانتی، صلح و آشتی اور بقائے باہم کے لیے دیگر اقوم کے ساتھ جو معاہدہ کیا اور جو تجاویز طے کئے جو میثاق مدینہ کے نام سے معروف ہے، اس معاہدہ کی جامعیت کی دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ ہم یہاں سیرت رسول ﷺ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاملہ فہمی اور حسن معاملہ کا ایک اور واقعہ پیش کرتے ہیں جس میں ہمارے لیے بہت کچھ عبرت اور نصیحت ہے۔۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نسلا قحطانی تھے، ایام جاہلیت میں قبیلئہ *بنو اسد* کے حلیف تھے، ان کا آبائی وطن ملک یمن تھا۔ مکہ میں غلامی یا حلیفانہ تعلق کے باعث سکونت پذیر تھے ۔ شاعری اور شہسواری میں منفرد حیثیت کے مالک تھے قبل از ہجرت حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور جب مدینہ منورہ اسلام کا پائے تخت اور مرکز رشد و ہدایت قرار پایا تو آپ بھی حضرت سعد رضی اللہ عنہ کےساتھ وارد یثرب ہوئے اور حضرت منذر بن محمد انصاری رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنا مہمان بنایا اور حضرت خالد بن زحبلہ رضی اللہ عنہ سے مواخات ہوئی۔ آپ ان خوش قسمت صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں ہیں جو غزوئہ بدر احد خندق اور تمام مشہور غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے ۔

دربار مصر میں والی مصر مقوقس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رقعہ اور مکتوب گرامی لے کر حاطب بن بلتعہ ہی کو بھیجا تھا ۔ آپ نے نہ صرف سفارت اور ایلچی کا ہی فریضہ انجام دیا بلکہ مصر کے والی مقوقس کے سامنے اسلام کی شاندار اور بہترین ترجمانی کی اور بادشاہ مقوقس کو اسلام کی دعوت پیش کی ۔
حضرت حاطب بن بلتعہ نے جو مکالمہ پیش کیا اور جو زبردست اسلام کی ترجمانی کی اس دلنشیں لہجہ اور انداز پر مقوقس نے بے اختیار صدائے تحسین و آفرین بلند کی اور بولا تم حکیم ہو اور ایک حکیم کی طرف سے آئے ہو ۔ میں نے جہاں تک غور کیا یہ نبی کسی لغو کام کا حکم نہیں دیتا اور نہ پسندیدہ امور سے باز رکھتا ہے ،میں اس کو نہ تو گمراہ جادوگر کہہ سکتا ہوں اور نہ جھوٹا کاہن ،اس میں نبوت کی بہت سی نشانیاں ہیں میں عنقریب اس پر غور کروں گا۔ اس کے بعد آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نامئہ مبارک لے کر ہاتھی کے دانت کے ایک ڈبہ میں بند کیا اور مہر لگا کر اپنی پیش خدمت کنیز کی حفاظت میں دیا ۔ اس کے بعد مقوقس نے حضرت حاطب کو نہایت عزت و احترام سے رخصت کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے گراں قدر تحائف و ہدیات ساتھ کر دئے جن میں ماریہ و سرین دو لونڈیاں دلدل نام ایک خچر اور بہت سے قیمتی کپڑے تھے ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مصر جاکر سفارتی خدمت بھی آپ نے انجام دیا مقوقس کے دربار میں جاکر ایک معاہدہ ترتیب دیا جو حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے حملئہ مصر تک طرفین کا معمول بہ تھا ۔
اخلاق وفا شعاری احسان پذیری اور صاف گوئی ان کے مخصوص اوصاف ہیں ۔ مزاج میں قدرے سختی تھی غلاموں پر سختی کرتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین ان کی اصلاح کرکے دباتے تھے۔ البتہ احباب اور رشتہ داروں کا بے حد خیال رکھتے تھے فتح مکہ کے موقع پر انہوں نے مشرکین کو جو خط لکھا تھا اور جس خط کا ابھی نیچے تزکرہ کیا جائے گا وہ درحقیقت ان ہی جذبات پر مبنی تھا ۔ اسی نیت خیر و صاف گوئی کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درگزر فرمایا۔
فتح مکہ کے لئے جب تیاریاں شروع ہوئیں تو اس کے لئے تمام احتیاطی تدبیریں عمل میں لائی گئیں اور غنیم کو بے خبر رکھنے کی پوری کوشش کی گئ ۔ حضرت حاطب بن بلطعہ رضی اللہ عنہ گو مکہ کے رہنے والے نہ تھے، تاہم ایام جاہلیت میں قریش سے جو تعلقات پیدا ہوگئے تھے ،اس نے ان کو احباب قدیم کی موادات پر برانگیختہ کیا۔ انہوں نے ان تیاریوں کے متعلق خط لکھ کر ایک عورت کی معرفت مکہ کی طرف روانہ فرمایا، لیکن کشاف غیب نے قبل از وقت اس راز کو طشت ازبام کردیا ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ روضئہ خاخ کے پاس جاکر اس عورت سے خط چھین لائیں ،غرض خط گرفتار ہوکر آیا اور پڑھا گیا تو آپ نے تعجب سے فرمایا ۰۰ حاطب یہ کیا ہے ؟ ۰۰
عرض کی یا رسول اللہ!
میرے معاملے میں عجلت نہ فرمائیے ۔ میں قریشی نہیں ہوں تاہم ایام جاہلیت میں ان سے تعلقات پیدا ہوگئے تھے ۔ چونکہ تمام مہاجرین اپنے مکی اعزہ و اقارب کی حمایت و مساعدت کرتے رہتے ہیں، اس لئے میں نے بھی چاہا کہ اگر نسبی تعلق نہیں ہے تو کم سے کم اس احسان کا معاوضہ ادا کردوں جو قریش میرے رشتہ داروں کے ساتھ رکھتے ہیں میں نے یہ کام مذھب سے مرتد ہوکر یا کفر کو اسلام پر ترجیح دے کر نہیں کیا ہے ۔ (بخاری شریف کتاب المغازی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ جو کچھ سچی بات تھی اس نے ظاہر کردی ،اس لئے اس کو کوئی برا نہ کہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ!
یہ خدا اور رسول اور مسلمانوں کی خیانت کا مرتکب ہوا ہے ،اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں ۔ ۰۰ ارشاد ہوا۰۰ کیا وہ معرکئہ بدر میں شریک نہ تھا ؟ خدا نے تمام اہل بدر کو اجازت دے دی ہے کہ تم جو چاہو کرو ،تمہارے لئے جنت واجب ہوچکی ہے ۔ رحمۃ للعالمین کی اس شان در گزر پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔
اسی واقعہ کے بعد دشمنان اسلام سے الفت و مودت کی ممانعت کی گئ اور قرآن پاک میں یہ احکام نازل ہوئے ۔
یاایھا اللذین آمنوا لا تتخذوا عدوی و عدوکم اولیاء تلقون الیھم بالمودة و قد کفروا بما جاءکم من الحق ( الممتحنت ع ۱)
اے وہ لوگو جو کہ ایمان لائے ہو میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناو ۔ تم ان کی طرف محبت سے پیش آتے ہو حالانکہ تمہارے پاس جو (مذھب) حق آیا ہے اس کا انہوں نے انکار کیا ہے ۔ ( مستفاد از کتاب مہاجرین جلد دوم)
اس واقعہ سے پہلا سبق یہ ملا کہ اگر انسان سے خطا اور بھول چوک یا کسی طرح کی غلطی ہوجائے یا علمی فرو گزاشت ہوجائے تو فورا اپنی غلطی اور کوتاہی کا اعتراف کرلے ضد عناد اور ہٹ دھرمی کی بجائے حق پرستی اور صاف گوئ کو اپنا شیوہ بنائے ۔ سواد اعظم اور جمہور کی پیروی کرلے اور اپنی غلط رائے اور تفردات پر مصر نہ رہے اور شاذ اقوال پر اپنی فکر اور منہج کی بنیاد نہ رکھے ۔
اس واقعہ میں حکومت، تنظیم و ادارہ اور جماعت و تحریک چلانے والوں کے لئے بھی بے شمار عبرت اور نصیحت کے پہلو موجود ہیں کہ ان کا دل کتنا کشادہ ہونا چاہیے اور عفو و درگزر کی کیسی مثالیں پیش کرنی چاہیے، پرانے اور مخلص احباب سے بشری تقاضے پر ہونے والی خطاوں اور لغزشوں کو کس قدر معاف کرنا چاہیے اور کس طرح ان کی صلاحیتوں سے غلطی اور خطا پر معافی مانگ لینے کے بعد فائدہ اتھانا چاہیے اور خود ایسے لوگوں کو جن سے بھول چوک ہوجائے کس طرح صاف گوئی اور سچائی سے کام لینا چاہیے اور پھر جماعت کیساتھ اخلاص کے ساتھ شریک ہوجانا چاہیے ۔ نیز کسی قضیہ اور معاملہ کے حل میں عجلت اور جلد بازی سے پرہیز کرنا چاہیے اور معاملہ کی گہرائی تک پہنچنے کی کرنی چاہیے۔
اس واقعہ کی روشنی میں حکومت اور اداروں نیز علمی اور تحریکی مراکز کے ذمہ داروں کو بھی غور کرنا چاہیے اور اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کیا وہ اپنے ماتحتوں میں سے اگر کسی سے غلطی اور چوک ہو جائے تو کیا سنبھلنےاور نظر ثانی کا موقع انہیں دیتے ہیں؟ کیا ان کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش دوبارہ کی جاتی ہے ؟
دیکھنے میں تو یہی آتا ہے اور مشاہدہ یہی ہے کہ ایسے لوگوں کو موقع نہیں دیا جاتا ہے اور پھر وہ اچھی صلاحیت والے اور جنیس لوگ گوشئہ گمنامی میں چلے جاتے ہیں اور اپنا شخصی وجود کھو دیتے ہیں ۔
یہی رویہ حکومت اور ادارہ کا بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے کہ اس کی اس صلاحیت کو برباد کردیتے ہیں جبکہ دوسرا آپشن اور حل موجود رہتا ہے ۔ دور نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے زمانے کے اس واقعہ کو ہمیں غور سے پڑھنا چاہیے اور اس کی گہرائی میں جاکر جو لعل و گہر ہیں اس کو تلاش کرنا چاہئے ۔
اس واقعہ کا سب سے موثر پہلو یہ ہے کہ انسان کو حق گوئی اور صاف گوئی سے کام لینا چاہئے ۔ اپنی غلطی کا فورا اعتراف فورا کرلینا چاہئے سواد اعظم سے کٹ کر اپنی کسی رائے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے ۔ بڑوں کی سرپرستی اپنے کو دور نہیں رکھنا چاہیے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button