مضامین

سیاسی بصیرت کا فقدان

محمد امام الدین ندوی
مدرسہ حفظ القرآن منجیا ویشالی

پنچایتی انتخاب طویل سفر کے بعد اپنا بستر تہ کر ہی لیا۔ اگلے میعاد تک کے لئے شور شرابے بند ہو گئے۔کسی کے حصے میں کامیابی آئی تو کسی کے نصیب میں ناکامی۔کامیاب ہونے والے امید وار فتح کے جشن منائے اور کامیابی کے جلوس نکالے۔گلیوں سڑکوں چوک چوراہوں پر پٹاخوں کی لڑیاں بچھائی گئیں اور پٹاخوں کی دل دوز گونج سے خلق خدا پریشان ہوگئ۔
ہارنے والے امیدوار کو بہت صدمہ ہوا لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی کچھ ہاتھ نہ لگا۔شب وروز کی محنت اکارت گئی۔راتوں کی نیند حرام ہوئی۔کھانا پینا بھی وقت پر نہ ہوسکا۔اس کے باوجود مایوسی ہاتھ لگی۔
الیکشن چاہے MP یا MLA یا PANCHAYAY سطح کا ہو یہ ان دنوں بہت عمدہ تجارت بن گیا ہے۔ پانچ سال میں آدمی امیر بن جاتا ہے۔اس لئے الیکشن میں بے دریغ خرچ کرتا ہے ووٹر کیسے گرفت میں آئے گا اس کے لئے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔امیدوار دوران الیکشن خوب جھوٹے وعدے کرتے ہیں جیتنے کے بعد نظر نہیں آتے وعدہ وفا تو دور کی بات ہے۔پہلے وہ اپنی لاگت نکالنے کے فراق میں رہتے ہیں پھر عوام کی سنتے ہیں ۔عوام سے انہیں ہمدردی نہیں ہوتی ہےکیونکہ اس نے پیسے دے کر ووٹ خریدا ہے اس لئے ہمدردی کس بات کی؟۔ وارڈ ممبر سے لے کر اوپر تک چلے جائیے سب کی نگاہیں عوام کو ملنے والی سرکاری مراعات کے کمیشن پر ٹکی ہوتی ہیں۔کام سے پہلے کمیشن کا مطالبہ ہوتا ہے ۔صاحب معاملہ قہرا وجبرا رضامندی ظاہر کرتا ہے۔پھر اس کا کام ہوتا ہے ۔ٹال مٹول کی صورت میں فنڈ ہی ختم ہوجاتا ہے ۔اس طرح جیتنے والا اور اس کا منشی مالا مال ہوجاتا ہے۔جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کا حقدار ہوجاتا ہے ۔یہ سب کسی کا جائز حق مار کر کیا جاتا ہے۔ضرورت مندوں کے خون چوس کر اپنے خوابوں کے شیش محل تیار کئے جاتے ہیں۔محتاجوں کےدل دوکھا کر اپنی نسلوں آل اولادوں کے لئے عیش و عشرت کے باغ لگائے جاتے ہیں۔
بیچارہ ووٹر دھوبی کا گدہا ثابت ہوتا ہے نہ گھر کا اور نہ ہی گھاٹ کا۔
الیکشن میں لوگ ذاتی رنجش کا بدلہ لیتے ہیں۔
گڑا مردہ اکھاڑتے ہیں۔ظاہرا حمایتی نظر آتے ہیں پر اندرونی طور پر مخالفانہ ذہن لئے پھرتے ہیں۔دوسروں کو ورغلاتے ہیں۔ووٹروں کو بھڑکاتے ہیں۔اگلا کو شکست دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ہیں۔
اس الیکشن میں بہت سی چیزیں دیکھنے کو ملیں۔سر فہرست مسلمانوں کا آپسی انتشار رہا۔مسلمان چند خانوں میں بٹ گئے۔چند سکوں کی لالچ میں اپنا سودہ کر بیٹھے۔نہ ایمان کی ہی فکر رہی اور نہ ہی اپنے وجود کی۔ ماضی کی طرح غلامی کی زنجیر دانستہ طور پر اپنے ہاتھوں اپنے گلے میں ڈالنا ہی مناسب سمجھا۔غیروں نے ان کی کمزوری کو پکڑ لیا ۔اب مسلمانوں کی بچی کھچی طاقت کا اندازہ انہیں ہو گیا۔وہ سمجھ گئے کہ انہیں کس طرح اپنی گرفت میں لیا جاسکتا ہے۔جہاں پر مسلم ووٹر زیادہ ہیں وہاں پر بھی دوسرے قابض ہوگئے۔پورے بلاک سطح پر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کہیں ایک امید وار کامیاب ہوا تو کہیں وہ بھی نہیں۔
اس سے ہماری سیاسی شعور،دور اندیشی، نااہلی کےساتھ ساتھ آپسی انتشار کا پتہ چلتا ہے۔ہم اس میدان میں کس پائیدان پر کھڑے ہیں؟۔
مسلمان اپنا وارڈ ممبر تک نہ بنا سکا تو دیگر عہدہ تو بڑی اونچی چیز ہے۔ہاں جہاں جہاں مسلمانوں نے سوجھ بوجھ اور شعور سے کام لیا ہے وہاں نتیجہ بہتر آیا ہے۔مگر یہ تناسب صفر ہے۔
بہ حیثیت مسلمان کامیاب ہونے والے امیدوار کی حیثیت خادم کی ہے ۔اور عوام مخدوم ہے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے سید القوم خادمھم۔لیکن کامیاب ہونے والا مسلم نمائندہ تو سارے حدودوقیود کو پار کر جاتا ہے۔اس کی زبان تلخ ہوجاتی ہے لہجہ بدل جاتا ہے غیرت وحمیت کا جنازہ نکل جاتا ہے۔انسانیت مر جاتی ہے۔ہمدردی مفقود ہو جاتی ہے۔مطمح نظر مال اور حصول مال ہوتا ہے مال آنے کا راستہ چاہے جیسا ہو۔اس کی اس بری حرکت سے قوم و ملت رسوا ہو اس کا کوئی غم نہیں ۔
مسلم نمائندوں پر بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔اسے حقوق انسانی کی ادائیگی کے ساتھ حقوق اللہ بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔اسے اپنے سے اوپر والے ذمہ دار کو تو حساب دینا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ اللہ کو بھی حساب دینا ہے۔
ہم اپنے احساس و شعور اور سیاسی بصیرت کو کھوکھلی نہ کریں۔اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔اپنی کمزوری کو نمایاں نہ کریں۔اتحاد کو قائم رکھیں ۔احساس ذمہ داری ہی ہمیں اونچا مقام دلا سکتا ہے۔ہمیں اللہ کے سامنے حاضری کو نہیں بھولنا چاہئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button