حتی الامکان رشتے نبھاتے رہیے
محمدامام الدین ندوی ،مدرسہ حفظ القرآن منجیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشتے،ناطے،اللہ کی جانب سے ملی ہوئی بیش بہا دولت ہے ۔بہت قیمتی سرمایا ہے۔اس کو بچانااورباقی رکھنا ضروری ہے۔اس سے دنیا میں تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ایک دوسرے سےلوگ متعارف ہوتےہیں۔اس سے انسانی وقار بلند ہوتا ہے۔عزت وشرف ،قدرو منزلت ، بڑھتی ہے۔رشتے داری کوقاٸم رکھنے کی تاکید قرآن وسنت میں جابجا بیان کی گٸ ہے ۔
ایک رشتہ کے وجود سے کئی رشتے بنتے ہیں اور ایک رشتہ کے منقطع ہونے سے بہت سے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ۔مثال کے طورپر جب کسی کی شادی ہوتی ہے اس کے نتیجےمیں لڑکی کے سارےرشتےدارلڑکےکےرشتہ دار کہلانےلگتےہیں اور لڑکےکےتمام رشتےدار لڑکی کےرشتہ دار ہوجاتے ہیں ۔لیکن جب میں بیوی کے رشتے کسی وجہ سے منقطع ہوتے ہیں تو سارے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ۔
رشتےدارچاہے امیرہویاغریب سب کی قدر کرناضروری ہے۔سب سےتعلقات استوار رکھنا اخلاقی بلندی ہے۔اللہ سے محبت کاتقاضہ ہے۔رسول سے انسیت کی دلیل ہے ۔فیشن اور آپسی تفاخر کے اس دورمیں اپنےمعیارکے رشتے داری کو فوقیت دی جاتی ہے ۔اسی کا خیال رکھا جاتاہے۔امیروکبیر لوگ غریبوں کو رشتہ دار سمجھنے میں عارمحسوس کرتے ہیں۔ ان کس ساتھ بیٹھنا،باتیں کرنا،ان کی خاطرومدارات کرنا،ان کی دلجوٸ کرنا باعث عاراورہتک عزت تصورکرتے ہیں۔بسااوقات غریب رشتے دار کو پہچاننے سے لوگ انکار بھی کردیتے ہیں۔اگر دو چار امیر لوگوں کی موجودگی میں ایک غریب رشتہ دار آجاۓ تو بہت گراں معلوم ہوتا ہے ۔آدمی کبیدہ خاطر ہوجاتا ہے ۔اگر تعلیم یافتہ ہے تو پھر کم پڑھے یا ناخواندہ رشتہ دار کو سٹنے نہیں دیتاہے اور اگر قریب ہوتا بھی ہے تو فوم لیٹی نبھانے کے لٸے۔اگر زمین دار ہے تو اور مشکل ہے ۔جبک یہ ساری چیزیں خارجی ہو کرتی ہواکرتی ہیں ۔اپنی اپنی قسمت سے ملا کرتی ہیں ۔جس کے نصیب میں قسام ازل نے غربتی لکھا ہے وہ کوشش بسیا کے باوجود امیر بنبے سے رہا ۔جس کے تقدیر میں امیری،اور رٸیسی لکھ دی گٸ ہے افلاس اس کے قریب آغا نہیں سکتا۔اس اضافی نعمت کی بنیاد پر انقطاع تعلقات یا رشتے میں اونچی نیچ درست نہیں ۔یہ جہالت کی کی بات ہے ۔نفس پرستی کی علامت ہے ۔شیطانی عمل ہے۔اس بارے میں اللہ کے یہاں سوال ہوگا۔
اللہ تعالی نے غریب رشتہ داروں کی دیکھ بھال کا حکم مالدار قرابت دار کو دیا۔اور ان پر خرچ کرنے جو کارثواب اور ذریعہ اجرعظیم بتایا۔ان کے ساتھ ہمدردی،صلہ رحمی،مصیبت کی گھڑی میں شانہ بشانہ موجودگی،خوشیوں کے ایام میں ان کے ساتھ شرکت اور شمولیت کو بلندی درجات کازینہ قرار دیا۔
رشتے اللہ کے یہاں بنتے ہیں اور دنیا میں وجود میں آتے ہیں ۔رشتے دار بھی اللہ ہی کے بنانےسے بنتے ہیں ۔اس لٸے امیری غریبی ایک اضافی صفت ہے ۔رشتہ داری نبھانے میں اس صفت کو بالاۓ طاقت رکھ دیں ۔
انسان ہونے کے ناطے سب یکساں ہیں ۔انسانیت کی بنیاد پر رشتہ بناٸیں اور نبھاٸیں۔
اس کرونا مہاماری نے انسان کوانسان سے جداکردیا۔ایک دوسرے کے قریب جانے سے روک دیا۔دل ودماغ میں ایسا خوف،وحشت،دہشت،پیدا کردیاکہ لوگ ایک جگہ جمع ہونے سے اجتناب کرنے لگے۔آپس کی ملاقات سے گھبرانے لگے ۔دیکھا سامنے سے آتے ہوۓ تو رشتہ داری اور برسوں پرانی تعلقات کو بالاۓ طاقت رکھ کر راستہ بدل دیا تاکہ سلام مصافحہ نہ کرنا پڑجاۓ۔اس وبا نے باپ،بیٹے،ماں بیٹی،بھائی،بہن،نند بھاوج،وغیرہ کو بھی الگ کردیا۔سب ایک دوسرے سے بچنے لگے اور خوف زدہ ہوگٸےکہ کہیں اس وبا کے چپیٹ میں کہیں ہم بھی نہ آجاٸیں۔
جنازہ میں شرکت بہت بڑا کار ثواب ثواب ہے گرچہ یہ فرض کفایہ ہے ۔جنازہ پڑھنے اور مٹی دینے والوں کے لٸے دوقیراط ثواب کاوعدہ ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کتنا بڑا ثواب کا کام ہے ۔دوسرے یہ کہ ایک انسان کا دوسرے انسان پر چند حقوق ہیں اس میں جنازہ بھی ہے ۔اس وبا میں کسی کی وفات ہوگٸ تو بہت سے رشتہ دار ڈرکےمارے جنازے میں شریک نہ ہوسکے کہ ہم بھی اس مرض میں کہیں مبتلا نہ ہوجاٸیں۔
یہ (کرونا)ایک وباہے آفت سماوی ہے ۔یہ اللہ کی جانب سے ہے۔دوسری بیماری کی طرح یہ بھی ایک مرض ہے۔جس کو اس وبا سے دوچار ہونا ہے وہ اس میں مبتلا ہو کر رہےگا ۔جس کی موت اس وبا(کرونا) سے جڑی ہے وہ اسی بہانے اس فانی دنیا کو الوداع کہ کر عالم جاودانی کی طرف کوچ کرےگا۔جس کو بچناہے وہ اس وبا میں قطعی گرفتارنہیں ہوگا ۔موت کو بہانہ چاہٸے۔اس کے ڈر سے ملنا جلنا بند کرنا حماقت ہے۔سلام مصافحہ سے گریز کرنا ناعقلی ہے ۔سلام ایک بہترین دعا ہے ۔مصافحہ گناہوں کو ختم کرتا ہے۔مگر ہم اتناخوف زدہ ہیں اور مرنے سے ڈرتے ہیں کہ اپنے نبی کی سنتوں سے برگشتہ ہو گٸے ہیں ۔یقینا جس عمل سے گناہ جھڑتےہوں اس سے بیماری پیدا ہو یہ عقل سے پرے ہے۔اس لٸے ملنا جلنا سلام ودعا مصافحہ جاری رہے۔موت اپنے وقت پر ہی آۓگی ۔متعین جگہ اور پر ہی آۓگی۔جس سبب سے مرناہے اسیا سبب سے ملے گی۔
اس وبا کی وجہ سے رشتہ میں کھٹاس پیدا نہ کٸے جاٸیں۔بیماری اور وبا آنےجانےوالی چیز ہے یہ آتی جاتی رہے گی ۔اس سے رشتےاورتعلقات میں دراڑپیدا نہ ہو اس کا خاص خیال رہے۔
رشتے وتعلقات کے بگاڑ اور انقطاع (قطع رحمی)میں مسلکی اختلافات کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔جب سے مسلکی اختلافات کو ہوا دیا گیا ۔یہ اختلاف آپسی نفرت وعداوت کی شکل اختیار کرگٸ۔اس کے زد میں رشتہ داری بھی آگٸ ۔سلام،کلام، آمدورفت،کھان پانی،سب پر اس اختلاف کا برا اثر پڑا ۔رشتہ داری میں شادی بیاہ پر تالے لگ گٸے۔اپنے اپنوں سے دوران اور پراۓ بن گٸے۔
مسلکی اختلاف الگ شٸے ہے ۔اس کے نتیجے میں قرابت داری کو سولی دینا جرم عظیم ہے۔
قطع رحمی اور قرابت داری کو کمزور کرنے میں نظری اختلاف کا بھی اہم کردار ہے۔یہ بھی آپسی جدائی کا سبب ہے۔اس راستہ میں جاہل سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ کودتے ہیں ۔تل کا تاربناتے ہیں۔
اب تو نیم حکیم ومفاد پرست مولوی اپنی روٹی سینکنے کے لٸےاپنی پوری توانائی مسلکی نفرتوں کو ہوا دینے،مسلکی اختلاف کو بھڑکانے میں ایڑی چوٹی کازور لگادیا ہے۔اس سے قرابت داری کھوکھلی سی ہوگئی ہے ۔یہ وہ زہر ہے جس کا کوئی علاج نہیں ۔یہ مانند کینسر ہے۔
معاملات اور لین دین انسانی ضرورت میں داخل ہے۔ہر شخص کواس سے سابقہ پڑتا ہے۔آپسی معاملات درست ہیں تو سب سے اچھے ہیں۔اگر معاملات اور لین دین صحیح نہیں تو یہ صفت بہت سی بیماریوں کو جنمی دے گی۔اس لٸے معاملات کا تصفیہ ضروری ہے ۔آپسی معاملات اجنبیوں کی طرح حل کرنا چاہٸے۔بسااوقات قطع رحمی میں معالات دخیل بنتی ہیں۔لین دین کی اداٸیگی کے وقت توتو میں میں ہوتا ہے اور یہ قرابت داری میں دوری کا سبب ہوتا ہے۔یہ احمقانہ عمل ہے اس سے بچنا ضروری ہے۔معاملات اورقرابت داری دو الگ شٸے ہے۔
وراثت اسلام کا دیا ہوا عظیم تحفہ ہے ۔یہ حق سب کو اسلامی قانون کے تحت ملا ہے۔انسان کے انتقال کے بعد تقسیم وراثت کا مسٸلہ پیش آتا ہے۔شریعت نے سب کے حصے الگ الگ متعین کٸے ہیں ۔بیٹا کا الگ بیٹی کا الگ بیوی وشوہر کا الگ وغیرہ ۔کچھ لوگ ہیں جو خوش دلی سے میراث تقسیم کرتے ہیں اور حق والوں کو حق دیتے ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔کچھ لوگ سماجی دباٶ میں آکر یہ حق ادا کرتے ہیں تو بعض لوگ عدالت کا سہارہ لیتے ہیں ۔کیس مقدمات ہوتے ہیں ۔کچہریوں کے چکر لگاۓ جاتے ہیں پھر عدالتی فیصلے کے بعد تقسیم وراثت کا عمل مکمل ہوتاہے۔پھر حق والے کو حق ملتا ہے۔یہ احکام شریعت ہے ۔اس کی اداٸیگی ضروری ہے۔
تقسیم وراثت کے بعد اکثروبیشتر قرابت داری ختم کردی جاتی ہے ۔یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے سواۓ ایک دو فیصد کے۔ایک دوفیصد افراد تقسیم وراثت کے بعد خوش ہوتے ہیں ۔اسے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور قرابت داری کا بھی خیال رکھتے ہیں ۔اکثر آدمی وراثت کی تقسیم کے بعد رشتہ داروں کے لٸے دروازہ بند کرلیتے ہیں۔یہ جرم عظیم اور شریعت کی صریح خلاف ورزی ہےاور جہنم میں لےجانے کا سبب ہے۔بہت سی بہنیں قطع رحمی کے ڈر سے اپنے حقوق سے دست بردار ہوگٸیں۔
حقوق کی اداٸیگی اہم عبادت ہے۔حق تلفی بڑاگناہ ہے۔بہت سی خرابیوں اوربراٸیوں کو جنم دیتی ہے۔انسان کو حقوق کی اداٸیگی کا خاص خیال رکھناچاہٸے۔حق کی پامالی اور حق تلفی رشتےاورقرابت اجاڑتی ہے۔تعلقات کو بگاڑتی ہے۔حق تلفی کی وجہ سے قریب سےقریب تر رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔حق کی پامالی دنیا اور آخرت کو بگاڑتی ہے ۔ذلت ورسواٸ کا سبب بنتی ہے۔انسان کو حقوق کی پامالی سے گریزکرناچاہٸے۔حقوق کی اداٸیگی کا خاص خیال رکھنا چاہٸے۔یہ دنیا میں عزت وشرافت کا سبب اور آخرت میں دخول جنت کا ذریعہ ہے۔حقوق کی پامالی کے نتیجہ میں دین ودنیا برباد ہوتی ہے۔حقوق کی اداٸیگی میں ہمیں سستی،وغفلت سے کام نہیں لینا چاہٸے۔حق والے کو بخوشی حق دینے کی ضرورت ہے
صلہ رحمی ،رشتے کی پاسداری،قرابت داری نبھانے کی تاکیدواہمیت،نیز اس کی فضیلت قرآن واحادیث میں کثرت سے وارد ہوئی ہے۔رشتے نٸے ہوں یا پرانے۔دورکےہوں یا نزدیک کے ،رشتہ دار اور قرابت دار امیر ہوں یا غریب جاہ و منصب کے حامل ہوں یانہ ہوں ،مدمقابل ہویانہ ہو ہرحال میں صلہ رحمی کا خیال رکھنا چاہٸے۔قطع رحمی سے گریز کرنا چاہٸے۔
عام طورپردیکھاگیاہےکہ کوٸ غریب رشتہ دار ہے اسے امیر رشتہ دار کم لگاتے ہیں۔اس کا نام لیناگوارہ نہیں کرتے۔کسی کے سامنے برملا اس کا اظہار نہیں کرتے۔لیکن اس غریب کو جب مالداری آتی ہے ،وہ دولت مند بن جاتاہےتوسارےرشتہ داراس غریب سے رشتہ جوڑناپسند کرتے ہیں۔اس کی عزت کرتے ہیں ۔ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں کھلاتے پلاتے ہیں۔اس سے جڑکےرہنا تعمیروترقی کا زینہ تصور کرتے ہیں ۔جبکہ یہ انتہاٸ مہلک مرض ہے۔رشتہ دار جیسے بھی ہوں رشتہ داری جیسی بھی ہو اس کوباقی اور زندہ رکھنا مومن کی شان اور پہچان ہے ۔
صلہ رحمی پر اللہ نے بہت زور دیا ہے۔اس سلسلہ میں قرآن کی بہت سی آیتیں ہیں جو قرابت قاٸم رکھنے پردلالت کرتی ہیں سورہ نسا ٕ میں ہے ”اوراللہ سے ڈروجس کے نام کواپنی حاجت براری کا ذریعہ بناتے ہو اور قطع رحمی سے بچو“۔
سورہ رعد میں فرمایا”اور جن (رشتہ ہاۓقرابت)کو جوڑےرکھنےکااللہ نےحکم دیاہےان کو جوڑےرکھتےہیں“
حضرت انسؓ سےروایت ہےرسول اللہ صلعم نےفرمایاجوشخص چاہتاہےکہ اس کی روزی میں وسعت وکشادگی ہواوراسے لمبی عمرملے اسے چاہٸےکہ صلہ رحمی کرے۔(بخاری ومسلم)
حضرت عاٸشہؓ رویت کرتی ہیں رسول اللہ صلعم نےفرمایا رحم(رشتہ داری اورقرابت)عرش سےلٹکاہواکہ رہاہےجومجھےملاۓگااللہ اسے ملاۓگاجومجھےقطع کرےگااللہ اسےتوڑےگا۔(بخاری)
مذکورہ قرآنی آیت اور فرمان مصطفی سے پتہ چلتاہےکہ رشتہ داری قاٸم رکھنااوراسے نبھانا بہت اہم ہے۔دین ودنیا کی کامیابی وکامرانی اسی میں پنہاں ہے۔
قطع رحمی کی شناعت کو قرآن نے اس انداز میں بیان کیا۔سورہ رعد کی آیت ہے اللہ کافرمان ہے”اورجولوگ اللہ عہد وپیمان کرکےاسےتوڑتےہیں اور جن رشتہ ہاۓقرابت کے جوڑےرکھنےکااللہ نے حکم دیا ہے اسے توڑتےہیں اور ملک میں فسادوبگاڑ پیداکرتےہیں ان کے لٸےلعنت ہے براگھرہے“۔
حضرت جبیرابن مطعم سےروایت ہے رسول اللہ صلعم نے ارشادفرمایاکہرشتہ وناطے کوتوڑنےوالا جنت میں داخل نہ ہوگا (بخاری ومسلم)
مذکورہ بالا آیت قرآنی اور ارشاد نبوی سے قطع رحمی کی شناعت اور انجام بد کا پتہ چلتاہے۔لہذا رشتہ کو جہاں تک ہوسکے نبھانےکی کوشش کی جاۓ ۔تاکہ اپنی اور اپنے آل واولاد کی زندگی میں برکت ووسعت اور رزق میں کشادگی ہو۔دین ودنیا کی تمام بھلائی میسر ہو۔آخرت میں عزت نصیب ہو۔اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے آمین۔