جہد مسلسل سے عبارت تھی جس کی حیات
جد وجہد جانفشانی اور محنت شاقہ کو گلے لگائے حالات کے تھپیڑوں سے نبردآزما ہوتے ہوئے زندگی گذارنا ایک اہم اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے اس مرحلہ میں دشواریاں تنگیاں پریشانیاں انسان کو گھیر لیتی ہیں اور اس کی Activities پر مہر لگادیتی ہیں لیکن وہ انسان جو ان سب حالات سے خندہ پیشانی سے گذر کر اور صبر کا دامن تھام کر اپنی حیات کو اللہ اور اس کے فیصلوں کے حوالہ کردیتا ہے تو وہ با مراد اور آنے والی نسلوں کے لئے آئیڈیل بن جاتا ہے اور اہل زمانہ اسے دیر اور دور تک یاد رکھتے ہیں کچھ ایسے ہی احوال تھے ہمارے ممدوح الحاج منشی عبد الغفور صاحبؒ کے جن کی زندگی جفاکشی اور عمل پیہم سے عبارت تھی عزم وعمل اور جہد مسلسل کی منھ بولتی تصویر تھی بے لوث خدمت ان کی زندگی کا خاصہ تھا الحاج منشی عبدالغفور صاحبؒ کو خداوند تعالیٰ نے ایک خطہ سے منتخب فرماکر لمبی عمر تک دین کی خدمت اور اس کی اشاعت کے لئے قبول فرمایا اور روشنی بخشی یہ اس کا احسان اور فضل ہے تقریبا ستر سال انہوں نے تعلیم و تربیت کے میدان میں گزارے اور علاقہ کی قدیم ومشہور دینی وتعلیمی درسگاہ مدرسہ انوار القرآن نعمت پور کے ذریعہ علوم و شریعت کے انوار وبرکات سے اس علاقہ ہی کو نہیں بلکہ پورے ملک کو روشن کیا یہ ان کے خلوص وللہیت اور دینی جذبہ کی جانب دال ہے ان کے سوز دروں اوربارگاہ خداوندی سے نیاز مندانہ تعلق کی علامت ہے ،رب ذوالجلال نے آپ کی ذات کے اندر بہت ہی اہم و گوناگوں صفات و خصوصیات ودیعت فرمائی تھیں جس وجہ سے وہ حالات سے نبرد آزما ہوتے ہوئے بھی ستر سالہ زندگی انوار القرآن کے نام کر گئے اور دین ودانش کے زمزمے بلند کرنے میں سدا کوشاں رہے اور اپنا نام خداتعالی کے یہاں مرضیین کی فہرست میں درج کرا گئے جب سے مدرسہ کی نظامت آپ کے ہاتھ میں آئی تب سے تو آپ نے اپنی دیرحاضری کو بھی مدرسہ کے حق میں سم قاتل سمجھا اور گردانا اور شب روز کی جہد مسلسل سے ادارہ کو تعلیمی وتعمیری ترقی فراہم کی اپنے شیخ جنید وقت ولئ مرتاض عارف باللہ حضرت مولانا سید مکرم حسین صاحب سنسار پوری دامت برکاتہم کی توجہات اور آپ کی نگرانی ومشوروں سے ترقیات کی دہلیز پر قدم رکھتے گئے جن کی ابدی جدائیگی کے بعد عوام وخواص ان کے بارے میں یوں گویا ہوئے ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم ،حقیقت یہ ہے کہ آپ کی ذات مدرسہ انوارالقرآن کے حق میں نایاب ہی تھی ان کے چلے جانے سے بزم کی روشنی ماند پڑ گئی چونکہ وہ اپنے اندر کمالات وتجربات اور خدارسیدہ صوفیوں ومخلص زاہدوں وشب زندہ داروں کی مصاحبت کی دنیا سجائے بیٹھے تھے قلم و کتاب سے گہری وابستگی اور ادب کے سچے عاشق تھے مشہور شعراء وادباء کے کلام امثال آپ کو ازبر تھے چائے کی محفل میں چٹخارے لے کر سناتے ملاقات کو قہقہ زار اور یادگار بنا دیتے ملک کی مٹی سے محبت حب الوطنی کا جذبہ قابل دید تھا ہمارے وہ اکابرین جو ملک کی خاطر تختہ دار پر لٹک گئے اور اہل وعیال سے دور جیلوں میں جنہوں نے اپنی زندگی کا حصہ بمشقت گذارااور سخت صعوبتیں برداشت کیں اس جانب ان کا ذہن و فکر بڑارنجیدہ رہتا اور ان کے قلب میں یہ تڑپ اور ملک کے مسائل کی جانب دھیان ہمہ وقت رہتا تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی انہوں نے وقت کا پیشتر حصہ صرف کیا اور طلباء کی تربیت کے میدان میں انہوں نے بہت کوششیں کی جن پر ان کی تحریر بھی خاصی عام ہے جولائق عمل ہے نیز فکری و تربیتی تحریروں کو بڑی فوقیت دیتے اور طلبہ کو ان پر عمل کا پابند بناتے، ہمارے یہاں مدارس اسلامیہ میں مبتدی طلبہ کو اردو سکھلانے کے لئے اکثر جگہ مولانا اسماعیل میرٹھیؒ کی تحریر کردہ کتاب اردو زبان کے پانچ حصوں کو فوقیت دی جاتی ہے اسی کے ذریعہ طلبہ اردو سیکھتے ہیں اس کا پانچواں حصہ قدر مشکل اور محنت درکار ہے بعض مدارس میں تواساتذہ بھی اس کی تدریس سے جی چراتے اور بھاگتے ہیں اس طبقہ پر منشی جیؒ نے گرابار احسان فرمایا اور پانچوے حصہ کی شرح (شرح نایاب )کے نام سے تحریر فرمائی جو اس کی تسہیل و تشریح اور معانی پر محیط ہے یہ آپ کی زندگی کا اہم کام اور آپ کے قلمی وتدریسی دور کا شاہکار ہے اور اپنی نوعیت کا پہلا کارنامہ قرار دیا گیا ہے،آپ کی زندگی شگفتہ مزاجی شیریں زبانی اور دل و نگہ کی پاکیزگی سے مزین تھی اس مادہ پرست دور میں اور مواقع فراہم ہونے کے باوجود بھی انہوں نے تعیش پسندانہ زندگی نہیں گزاری اپنے لئے نہیں قوم و ملت کے لئے جیئے سدااپنے دامن کو پاک وصاف رکھا قلندرانہ صفت انہیں بھا گئی تھی درویشیانہ ادائیں انہیں محبوب تھیں کلیوں والا لمباکرتا اور لنگی زیب تن کئے ہوئے نظامت ورئاست کے دور کو مکمل کیا اور قبا پوشی کے بجائے فقیرانہ زندگی کو ترجیح دی اور خودی و خود داری کی حفاظت کی اور ایک مرد حر کی زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوئے یہی وجہ ہے کہ انسانی قافلہ آپ کے بچھڑنے پر اشکبارہوگیا اوراسی وجہ سے علمی و فکری حلقہ میں آپ کی شخصیت معتبر اور علاقہ وسماج میں پسندیدہ و محبوب بن گئی انوارالقرآن کی علمی پہچان میں آپ کا بڑا کردار ہے اور رہے گا اور انوارالقرآن سے ان کی نسبت ایسی ہی ہے جیسے نگینہ کی خاتَم سے منشی جیؒ کا دینی جذبہ دیدنی تھا ان کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ انہوں نے اہل وعیال جان ومال کی پرواہ کئے بغیر صرف اور صرف مدرسہ انوار القرآن کے نام اپنی زندگی کا پیشتر حصہ قربان کیا اس کا اجر ظاہرا بھی خداوند تعالی نے ان کی اولاد کی شکل میں ان کو نصیب فرمایا ان کی نظر اور نگرانی سے ان کے گھرانے میں علم وفضل اور قلم وکتاب کی شمع روشن ہوئی جن کا فیضان جاری وساری ہے اور ان شاءاللہ تاقیامت ان کی دعائے نیم شبی وآہ سحرگاہی کے سہارے اس گھرانے میں علم وفضل کے چراغ روشن رہیں گے آپ کی زندگی سے یہ پیغام ملتا ہے کہ دین کی نشرواشاعت اور خلوص کے ساتھ خد مت سےخدا تعالی ایسا نواز دیتا ہے کہ دنیا کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں اور آسمان والا زمین والوں میں اس کی محبت ومقبولیت کے بیج ڈالتا ہے کچھ یہی حال تھا اپنی آخری آرام گاہ کوچ کرجانے والے اس مرد مجاہد کا اللہ تعالی ان کی محنتوں کا اپنی شایا ن شان اجر عطا فرمائے۔ آمین