کشن گنج

جامعہ امِ کلثوم للبنات وادئ خراب کا ایک نوبہار پھول🖊 ظفر امام

توفیقِ ایزدی اور برادرِ بزرگوار جناب مولانا محمد ہاشم اختر صاحب  مدظلہ کی پُرخلوص دعوت پر ٢٧/ صفر المظفر ١٤٤٥؁ھ مطابق 14/ ستمبر 2023؁ء بروز جمعرات جامعہ ام کلثوم للبنات کجلا منی کشن گنج میں بچیوں کا سہ ماہی جائزہ لینے کی غرض سے حاضر ہونے کی سعادت میسر آئی،باوجودیکہ بیتے کئی مہینوں سے مولانا ہاشم صاحب کی زبانی و تحریری دعوتیں موصول ہوتی رہی تھیں مگر اپنی کچھ عدیم الفرصتی اور کچھ فطری سستی کی بناء پر اب تک جامعہ ام کلثوم میں حاضری کی سعادت سے محروم رہا تھا تاہم حاضری کا شوق دل میں کروٹیں لیتا رہا اور یہ شوق اُس وقت فزوں تر ہوجاتا جب جامعہ کی نوشگفتہ پھولوں بلکہ کلیوں کی حمدیہ اور نعتیہ ویڈیوز اور اُن پر اکابرینِ دین و ملت کے والہانہ تاثرات نظر نواز ہوتے،اِس بار مولانا ہاشم صاحب مہتمم مدرسے کا اصرار اتنا پُرزور ثابت ہوا کہ میں چاہ کر بھی راہِ فرار اختیار نہ کرسکا،سو جمعرات کی نَم آلود صبح جب کہ ابھی سورج کی روپہلی کرنیں پھوٹنی شروع ہی ہوئی تھیں کہ میں اپنے مسکن سے نکلا اور کوئی ایک گھنٹے کے بعد جامعہ کے کیمپس میں داخل ہوا۔

 جامعہ ام کلثوم کا افتتاح بزرگانِ دین اور اساطینِ ملت کے ہاتھوں ابھی گزرے شوال ہی کے مہینے میں ہوا ہے،جامعہ ام کلثوم للبنات کا آغاز جس کرایے کے مکان میں ہوا تھا طالبات کی بھیڑ کی وجہ سے وہ مکان کافی چھوٹا پڑ رہا تھا جس کی وجہ سے طالبات کو کئی طرح کی کُلفتوں کا سامان کرنا پڑ رہا تھا،بریں بنا کافی سرگردانی کے بعد کشن گنج شہر کے جنوبی مغربی کنارے پر ایک دوسرا کرائے کا مکان مل گیا اور ابھی دو ہفتے پہلے مدرسے کو اِس مکان میں منتقل کیا گیا ہے۔

جامعہ امِ کلثوم فی الوقت جس جگہ پر اپنا برگ و بار کھلا رہا ہے وہ جگہ شہر کشن گنج کے سب سے سناٹے علاقے میں ہے،آپ شاید میری اِس بات سے ورطۂ حیرت میں پڑ جائیں گے اور آپ کا پڑنا بجا بھی ہوگا کہ جامعہ کے پھاٹک تک شاہ راہِ عام سے جو سڑک پہونچاتی ہے وہ سڑک اتنی خستہ حالی اور زبوں بختی کی شکار ہے کہ کوئی اناڑی مسافر گاڑی پر سوار ہوکر مدرسے تک نہیں پہونچ سکتا،سڑک کے کچی ہونے کی وجہ سے برسات کے اِس موسم میں پوری سڑک گڈھوں کی تصویر بنی ہوئی ہے،

اتفاق سے جس مکان میں مدرسہ چل رہا ہے وہ مکان اُس کالونی کے سب سے آخری سرے پر واقع ہے،جس کی بناء پر مدرسہ کے دروازے تک پہونچتے پہونچتے یہ مخدوش راستہ خاصا طویل ہوجاتا ہے، مدرسہ کی دیوار سے متصل دھان کی سبز چادر تاحد نگاہ پھیلی ہوئی ہے،مگر میں جب مدرسے کے اندر داخل ہوا تو مدرسے کے نظم و نسق،رکھ رکھاؤ اور وضع داری کو دیکھ کر بےساختہ میرے دل میں یہ خیال کوند گیا کہ جامعہ امِ کلثوم اِس خرابے کا ایک نوبہار پھول ہے،جس کی خوشبو سے ان شاء اللہ عنقریب ہی صرف پوری کالونی ہی نہیں بلکہ پورا شہر کشن گنج اور اطرافِ شہر کشن گنج مہک اٹھیں گے۔

 مدرسے کے گیٹ سے ایک راہداری گزرتی ہے جو مدرسے کے پچھلے حصہ تک کو چلی جاتی ہے،اُس راہداری میں بڑے قرینے سے پھولوں کے گملے رکھے ہوئے نظر آئے جو شاید ہر آن بزبانِ حال اپنے مہمانوں کے استقبال میں نغمۂ دل آویز گنگنانے میں مصروف رہتے ہیں،پھر جب مدرسے کے ہال میں داخل ہوا تو دیکھا کہ مولانا ہاشم صاحب نے اُس کے ایک کونے کو بڑے خوبصورت اور منقش پردوں سے گھیر کر دفتر کے لئے مختص کرلیا ہے،سامنے میں ایک خوبصورت اور جاذب نگاہ میز رکھی ہوئی ہے،میز کے ایک سرے پر مدرسے کے مختلف شعبوں سے متعلق کئی طرح کے رجسٹر رکھے ہوئے ہیں اور جبکہ دوسرے سرے پر پھولوں کے گلدستے اپنے واردین و صادرین کو دعوتِ نظارہ دے رہے ہیں،میز کے بغل میں ہی ایک شیلف رکھی ہوئی ہے جو مختلف علوم و فنون پر مشتمل کتابوں سے لبریز ہے،جو مطالعے کے رسیا لوگوں کو اپنے لمس کے لئے مجبورکر رہی ہیں،وہاں سے اندرونی حصے کی طرف بڑھے تو دیکھا کہ وہاں بڑے چھوٹے کمروں پر مشتمل کئی کمرے بنے ہوئے ہیں،جن میں سے ایک کو معلمات کے لئے مختص کردیا گیا ہے جبکہ تین کمروں کو طالبات کی علمی اور استراحتی سرگرمیوں کو  انجام دینے کے لئے مختص کردیا گیا ہے،ظاہر سی بات ہے کہ مدرسہ نیا ہے تو وہاں پڑھنے آئی طالبات بھی چھوٹی عمر کی ہی ہوں گی،مگر اس کے باوجود اُن ننھی مُنی طالبات کے حسنِ انتظام اور اُن کی سلیقہ شعاری کو دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں،ہر چیز اپنی جگہ پر نظر آئی،نہ کوئی شور نہ ہنگامہ، ساری بچیاں سفید نقاب میں یوں نظر آرہی تھیں جیسے اس سرزمین پر کسی نورانی مخلوق کا ورود ہوا ہو۔

 جامعہ امِ کلثوم للبنات کا آغاز آج سے یہی کوئی چار مہینے پہلے انتہائی بےسر و سامانی کے عالم میں ہوا تھا،مولانا ہاشم صاحب کافی عرصے سے کسی مدرسے میں تدریسی خدمت سے وابستہ تھے،یوں تو امتِ مسلمہ کی نئی نسل بالخصوص صنفِ نازک میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی،اخلاقی انارکی،ذہنی پراگندگی اور ارتدادی لہر کو دیکھ کر مولانا ہاشم صاحب کے دل میں امت کے ان نونہالوں کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ عرصے سے کروٹیں لے رہا تھا مگر باوجودیکہ خدائے مُعطی نے مولانا ہاشم صاحب کے اندر انتظام و انصرام کا ملکہ کوٹ کوٹ کر بھر رکھا ہے،آپ فطری طور پر نہایت ہی فعال اور متحرک واقع ہوئے ہیں،عرصہائے دراز سے جمعیة کے بینر تلے آپ کی بےلوث خدمات نے آپ کی فعالیت میں مزید تابندگی پیدا کردی ہے،حالات کی نامساعدی کی وجہ سے آپ اِس بارِ گراں کو اپنے اوپر لادنے سے پیچھے ہٹ رہے تھے، بالآخر امسال آپ نے اپنے اُس جذبے کو عملی جامہ پہنانے کا تہیہ کر ہی لیا اور پھر محض خدائے کارساز پر بھروسہ کرتے ہوئے کرایے کے ایک مکان میں ایک مدرسے کی نہاد بنام ” جامعہ ام کلثوم للبنات “ رکھ دی،ابھی افتتاحِ مدرسہ کو چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ قُرب و جوار اور دور و دراز کے علاقوں حتی کہ دوسرے اضلاع سے بھی کشاں کشاں طالبات کے ایک خوبصورت قافلے نے اُس پودے کی معصوم سی چھاؤں میں آسودگی حاصل کرنے کے لئے رختِ سفر باندھنا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مدرسہ میں طالبات کی اتنی بھیڑ اکٹھی ہوگئی کہ مہتمم مدرسہ کو معذرت کرنی پڑی۔

الغرض گھڑی کی سوئی نو پر جا اٹکی تھی،اتنے میں ہم ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوگئے،ناشتے سے فراغت کے بعد ہم امتحان ہال میں پہونچے،یہ کوئی باضابطہ امتحان نہیں تھا کہ اُس کے لئے امتحان جیسا تام جھام کرنا پڑتا بس صرف ایک جائزہ تھا اور چونکہ بچیوں کی تعداد زیادہ اور وقت کم تھا سو بچیوں کا ایک طائرانہ جائزہ لیا گیا،مگر اُسی طائرانے جائزے کے اندر ہی احساس ہوگیا کہ مولانا ہاشم صاحب کی جد و جہد اور اُن کی سعئ پیہم ضائع نہیں جا رہی ہے،بلکہ آپ کی محنت رفتہ رفتہ اپنا رنگ دکھا رہی ہے،بچیوں کا جائزہ بحمداللہ قابلِ اطمینان رہا، تمام بچیوں نے پورے وثوق اور جوش و جذبے کے ساتھ جوابات دئے،بالخصوص اُن کی قواعد کی ازبری اور درک،حفظ دعا و طریقہائے نماز اور معلوماتِ عامہ نے دل کو موہ لیا،ایسا نہیں ہے کہ تعلیم اکمل و مکمل ہے کمی کچھ بھی نہیں،کمی ہے اور یقینا ہے،مگر مدرسے کے افتتاحی مراحل کے پیشِ نظر تعلیم قابلِ اطمینان ہے اور جو تھوڑی بہت خامی اور کمی ہے وہ ان شاء اللہ گزرتے وقت کے ساتھ ختم ہوجائے گی اور ادارہ کی تعلیم مثالی ہوگی۔

امتحان سے فراغت کے بعد مولانا ہاشم صاحب نے اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی لذیذ اور مزیدار بریانی کھلائی بعدہ ایک چھوٹی سی الوداعی مجلس منعقد ہوئی جس میں بچیوں کی عمدہ لب و لہجے میں تلاوتِ قرآن اور نعتِ نبی سن کر دل باغ باغ ہوگیا،اور پھر اخیر میں حضرت مولانا محمد کاشف انور صاحب ندوی مدظلہ رشید پور التاباڑی (یہ دوسرے ممتحن تھے) کے تاثر اور مختصر سی دعا پر یہ مجلس اختتام کو پہونچی۔

باری تعالی سے دعا ہے کہ وہ ادارے کو قبول فرمائے اور تعلیم و تربیت کے ہر میدان میں اس کو نمایاں بنائے،اور ادارے کی جملہ ضروریات کو اپنے خزانۂ عامرہ سے پوری فرمائے۔آمین۔ظفر امام،کھجورباڑی، دارالعلوم بہادرگنج،٣/ربیع الاول ١٤٤٥؁ھ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button