بعد مردن انہیں ملتی ہے حیات جاوید قوم کے عشق میں جو عمر بسر کرتے ہیں
چودھری عدنان علیگ
قارئین! علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا نام آتے ہی ذہن فوری طور پر سید القوم سر سید احمد خاں علیہ الرحمہ کی قائم کردہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرف جاتا ہے اور یہ خیال ہوتا ہے کہ کس قدر کٹھن وقت میں اس مردِ آہن نے اس ادارے کی بنیاد رکھی تھی جب قدم قدم پر مصائب تکالیف کا پہرہ تھا ہر سو تاریکی اور ظلم وبربریت اپنے پنچے پسارے بیٹھی تھی اور دوسری طرف ھندوستانی مسلمان چاروں طرف سے انگریزوں کی چپیٹ میں قدیم تہذیب کا خستہ لباس اوڑھے بیٹھے تھے، اور کسی افسانوی شتر مرغ کی طرح اپنی گردنوں کو عظمت گزشتہ کے ایک ریگ زار میں چھپا رکھا تھا, ایسے کشیدہ حالات میں ھندوستانی عوام کو اس طلسمی دنیا سے نکالنے کے لیے "نواے تلخ”اور "عزم کوہکن” دونوں کی ضرورت تھی، اور خاص طور پر مسلمان قوم جو انگریز کی غلامی میں پس رہی تھی امید لگائے نئ صبح کا انتظار کررہی تھی. اس وقت بغاوتوں اور سازشوں سے بھرے اس معاشرے میں ایک عظیم شخص کا ظہور ہوا جو یک وقت علم کا عظیم مدبر، مصلح، مصنف، ھمہ داں، رہبرو رہنما، جدید علم کی ترسیل وتبلیغ کا مخترع تھا، یہ وہ مردِ مجاہد تھا جنکو آج پوری دنیا گہوارےِ علم وفن علیگڑھ تحریک و علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سید القوم سر سید احمد خان کے نام سے جانتی ہے جنکی علمی و تحریری سوچ وفکر، فلسفہ آج بھی قوم وملک کی رہنمائی کررہا ہے.
صورت سے عیاں جلالِ شاہی چہرے پہ فروغِ صبح گاہی
وہ ریش دراز کی سپیدی چھٹکی ہوئ چاندنی سحر کی.
اگر آپ ایک نظر سر سید کی پیدایش اور انکی جوانی کے ایام اور اس وقت کے حالات پر ڈالیں تو آپکو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ جس وقت بر صغیر پاک وھند 1857 کی دلخوردہ شکست کے بعد پزمردگی ناامیدی مایوسی کے سمندر میں ڈوبا ہوا تھا اس وقت اس واقعے نے سر سید احمد خان کی فکر اور عملی زندگی میں ایک تلاطم برپا کر دیا۔ اور ان کے اندر چھپے ہوئے مصلح کو بیدار کر دیا۔ علی گڑھ تحریک کا وہ بیج جو زیر زمین پرورش پا رہا تھا اب زمین سے باہر آنے کی کوشش کرنے لگا۔ چنانچہ اس واقعے سے متاثر ہو کر سرسید احمد خان نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔
اور 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانان برصغیر کی فلاح بہبود اور ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں، عرف عام میں وہ ”علی گڑھ تحریک “ کے نام سے مشہور ہوئیں۔ سر سید نے اس تحریک کا آغاز ایک طرح سے جنگ آزادی سے پہلے ہی کر دیا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ دھیرے دھیرے اس مقصد کے لیے کالج کا قیام عمل میں لایا گیا رسالے نکالے گئے تاکہ مسلمانوں کو ترقی کے اس دھارے میں شامل کیا جائے۔
1869 ءمیں جب سرسید احمد خان کو انگلستان جانے کا موقع ملا۔ یہاں پر وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ہندوستان میں بھی کیمبرج کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ قائم کریں گے۔ وہاں کے اخبارات اسپکٹیٹر اور گارڈین سے متاثر ہو کر سرسید نے تعلیمی درسگاہ کے علاوہ مسلمانوں کی تہذیبی زندگی میں انقلاب لانے کے لیے اسی قسم کا اخبار ہندوستان سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اور ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ کا اجرا اس ارادے کی تکمیل تھا۔ اس رسالے نے سرسید کے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کی تکمیل میں اعلیٰ خدمات سر انجام دیں۔اور علی گڑھ تحریک کو بارآور کرنے میں بھی بڑی مدد دی۔ لیکن یہ پیش قدمی اضطراری نہ تھی بلکہ اس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔. اور یہی وجہ ہے کہ علی گڑھ تحریک تمام تحریکوں میں اپنی انفرادی شان رکھتی ہے، اس تحریک کو مکمل ادبی تحریک نہیں کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ سرسید کی سیاسی، سماجی، مذہبی، علمی و ادبی، کاوشوں کی وجہ سے وجود میں آئی اس لیے اس تحریک کو سرسید تحریک کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے،. سر سید احمد خان نے عوام کو بیدار کرنے میں اور ملک کی سالمیت کے لیے کھڑا کرنے میں جو کردار ادا کیا تاریخی اوراق اسکی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں یہ وہ میرِ کارواں تھا جس نے کہا تھا کہ "جس قوم نے فکر پر بندشیں لگائیں اس نے اپنی موت کے محضر پر دستخط کردیئے” یہی وہ واحد شخصیت تھی جس نے مدتوں سے سوئے ہوے مردہ دلوں کو جھنجھوڑ کر کہا تھا کہ” کسی قوم کے لیے اس سے زیادہ بے عزتی نہیں کہ وہ اپنی قومی تاریخ کو بھول جائے
اور اپنے بزرگوں کی کمائی کو کھو دے”
. جنگ آزادی کا مجاہدانہ اور عاقلانہ نظریہ پیش کرنے والی یہ عظیم شخصیت تا قیامت دلوں میں زندہ جاوید رہیگی جنکی ناقابل فراموش جہد مسلسل کو نہ تو انسان بھلا سکتا ہے اور نہ ہی تاریخی اوراق سید القوم کے بلند حوصلے، عزم راسخ خلوصِ نیت اور جہد مسلسل کی جیتی جاگتی تصویر یہ عظیم ادارہ ہے جو اپنے پورے جاہ و جلال اور شان وشکوت کے ساتھ فلک بوس عمارتوں کی شکل میں جگمگا رہا ہے اور تاقیامت یو ہی جگمگاتا رہیگا انشاءاللہ.
17/ اکتوبر یومِ پیدائش سر سید احمد خان علیہ الرحمہ.
.