تازہ خبرفکر و نظر / مضامین و مقالات

اے نیا سال بتا تجھ میں نیاپن کیا ہے! 

🖊️ ظفر امام /کشن گنج

     صانعِ عالم نے جب سے آسمان کی اس نیلگوں تھالی کو چاند،سورج، ستاروں اور سیاروں کے خیرہ نگاہ قمقموں سے رونق اور تابانی بخشی ہے تب سے لیکر آج تک ان کے طلوع اور غروب کا تسلسل بلا کسی تخلف کے جاری ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک بدستور جاری رہےگا جب تک کہ بحکمِ الہی یہ ارض و سماء، یہ دشت و جبل،یہ کوہ و دریا اوریہ صحراء و بیاباں صورِ اسرافیل کے ہوش رُبا دھماکے سے ریزے ریزے نہ ہوجائیں،اس نظامِ الہی کی روک تھام پر آج تک نہ کسی کا بس چلا ہے اور نہ تا صبحِ قیامت چل سکےگا،معلوم ہوا کہ دنوں کا بدلنا اور ماہ و سال کا مُنقلب ہونا کوئی نئی بات نہیں۔

              ؎  اے نیا سال بتا تجھ میں نیاپن کیا ہے
              ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے

              آسمان بدلا ہے افسوس نا بدلی ہے زمیں
              ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں

     جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے تب سے لیکر آج تک نہ جانے کتنے سال ماضی کی کوکھ میں سما گئے، کتنے مہینوں کے وجود مٹ گئے،کتنی بہاریں آئیں اور اپنے فسانے سناکر چلی گئیں اور کتنے خزاؤں نے جنم لئے اور پھر اپنا وجود گنوابیٹھے مگر نظامِ الہی کی خشتِ اول میں سرِمو برابر بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی، سورج کی  جو شعاعیں اور چاند کی جو کرنیں ہزاروں لاکھوں سال پہلے فرشِ زمین پر اپنے جلوے بکھیرتی تھیں آج بھی وہی شعاعیں اور کرنیں زمین پر جلوہ ریز ہوتی ہیں،نہ کسی نیکوکار کی نیکی ان کی تابانی میں اب تک اضافہ کرسکی ہے اور نہ ہی کسی بدکار کی بدی ان کی زرتابی میں کمی۔

             ؎ روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی
             آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی
           
                 تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
           ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی

    مہ و سال کے اسی انقلابی دوراہے پر ہم ایک بار پھر سے کھڑے ہیں،2022؁ء کے دسمبر کی ٹھٹھرتی راتیں 2023؁ء کے جنوری کی یخ بستہ صبحوں کے استقبال کے لئے بانہہ پسارے کھڑی ہیں،2022؁ء اور 2023؁ء کے درمیان بس اب صرف بالشت بھر کا فاصلہ رہ گیا ہے،ایک ہی جست میں 2022؁ء ماضی کا ایسا فسانہ بن کر رہ جائے گا کہ اس کی آغوش میں نہ جانے کتنی یادیں اور باتیں،کتنے ہجر اور وصال،کتنی وفائیں اور جفائیں،کتنی آہیں اور واہیں،کتنے غم اور خوشیاں، کتنے کرب اور مسرتیں،کتنے نالے اور نغمے اور کتنی کامرانیاں اور نامرادیاں دفن ہوکر رہ جائیں گی،نہ جانے گردشِ وقت کی کتنی ایسی کڑوی یادیں ہیں جو اس سے وابستہ ہوکر ہمیشہ تختۂ قلب پر کچوکے لگاتی رہیں گی اور کتنے ایسے زخم ہیں جن میں وقتا فوقتا ٹیسیں ابھرتی رہیں گی،پھر نئے سال کی آمد پر یہ مبارکبادیاں کیوں؟

           ؎   بے سبب لوگ کیوں دیتے ہیں مبارک باديں
                غالباً بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں

   مہ و سال کا یہ انقلاب ہمارے لئے کسی نئی چیز کا تولد نہیں کرتا کہ ہم اس کی جدت کی فسوں سازی میں کھوجائیں،اس کے البیلے پن کی چکاچوندیوں میں مگن ہوجائیں،بلکہ نئے سال کا یہ انقلاب ہمیں ایک درس دیتا ہے،ایک پیغام سناتا ہے،ایک راگ الاپتا ہے،ایک نغمہ سناتا ہے،وہ نغمہ خوابیدہ انسانوں کو میٹھے خواب سے بیدار کرنے کے لئے ہوتا ہے،وہ راگ راہِ حق سے بھٹکے ہوئے انسانوں کے قافلوں کو درست سمت عطا کرنے کے لئے ہوتا ہے،وہ پیغام مدہوش و متوالا انسانوں کے لئے ہوش مندی کی چنگاریاں سلگانے کے لئے ہوتا ہے اور وہ درس مستقبل میں پیش آنیوالی کلفتوں اور پریشانیوں سے نجات عطا کرنے کے لئے ہوتا ہے،سال کا یہ انقلاب کانوں کے دروازوں پر یہ دستک دے رہا ہوتا ہے کہ اب سونے کا وقت ختم ہوا،جتنا سونا تھا سولئے،اب جاگ بھی جاؤ،کہیں ایسا نہ ہو کہ تم سوتے ہی رہ جاؤ اور گردشِ حیات رفتہ رفتہ تم کو ابدی خواب کی کھائی تک پہونچادے۔
    

مگر افسوس کہ وہ دستک ہماری جوئے حیات میں طغیان تو کجا ہلکا سا ارتعاش بھی پیدا نہیں کر پاتی بلکہ ہم پیدا ہونے نہیں دیتے،ان نغموں سے ہم بیدار تو کجا ہوتے ہماری آنکھیں مزید سوجاتی  ہیں، ہمارے اوپر غفلت و بےخبری کی ردا مزید تَن جاتی ہے،دنیا کے نشہ نے ہمارے اوپر کچھ اس طرح سے اپنا تسلط جما لیا ہے کہ آخرت کا تصور ہمیں سَراب لگتا ہے،جب بھی دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی شام رنج و فرح اورغم و شادمانی کی سوغات ہمارے ہاتھوں میں تھمائے غروب ہوتی ہے اور جنوری کی کپکپاتی صبح انقلابِ سال کی نوید لیکر طلوع ہونے کی تیاری کرتی ہے تو ہمارا ایک مغرب پسند اور روشن خیال طبقہ سراپا برہنہ ہوجاتا ہے،اس کے خرافاتی ذہنوں میں لہو و لعب اور بےحیائی و بےشرمی کی شمعیں تھرتھرا اٹھتی ہیں،وہ بڑی بےصبری کے ساتھ رات کے 12/ بجنے کا انتظار کرنے لگتا ہے،یوں لگتا ہے جیسے اس کا منشأِ زیست ہی یہی ہو اور خدا نے اس سینۂ گیتی پر اسی لئے اس کا وجود بخشا ہو۔
    

پھر جب رات 12/ بجے کی کہرآمیز تیرگی میں داخل ہوتی ہے تو یک بیک آتشیں پھلجڑیوں سے اندھیری رات کا وہ پورا سماں جگمگا اٹھتا ہے،کرۂ ارضی پر ایک بےہنگم اور بےڈھب سا شور برپا ہوجاتا ہے، پٹاخوں کے تابڑ توڑ دھماکوں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، بےحیائیوں اور بےشرمیوں کا تلاطم امڈ آتا ہے،سرِ راہ طوفانِ بدتمیزی بپا کیا جاتا ہے،”ہیپی نیو ائیر“ اور ”نیا سال مبارک ہو“ سے آسمان لرز اور زمین دہل اٹھتی ہے،محفلِ رنگا رنگ منعقد کی جاتی ہے،جو کئی دنوں پہلے کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتی ہے،اس محفل میں عورت مرد سب ننگا ناچ کرتے ہیں،بےمحابا ایک دوسرے پر خود کو وارتے ہیں، گانے بجانے اور رقص و سرود کا ایک واہیات دور چلتا ہے، گھنگھروؤں کی جھنکار اور پازیب کی کھنکھار سے پوری محفل وجد میں آجاتی ہے،جام اچھالے اور ساغر لنڈھائے جاتے ہیں،ہمارے وہ مسلمان جن پر بجا طور پر اسلامی اقدار و روایات اور اس کی تہذیب و ثقافت کی حفاظت و صیانت کا فریضہ عائد ہوتا تھا اس محفلِ رنگارنگ کی بہاروں میں کھوکر موت کے خزاں کو یکسر فراموش کر بیٹھتے ہیں اور وہ کچھ دیر کے لئے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کے گلے میں مذہبِ اسلام کا قلادہ جھول رہا ہے۔

           ؎  موت کو بھول گیا دیکھ کر جینے کی بہار
             دل نے پیشِ نظر انجام کو رہنے نہ دیا

جبکہ نئے سال کے نام پر جشنِ بہاراں منعقد کرنا،بام و در کو برقی قمقموں سے سجانا،سڑکوں اور پارکوں میں ہلڑبازیاں کرنا یہ عیسائی اور یہودی لابیوں کی ایجاد ہے،نئے سال کے موقع پر جشن منانے کا یہ رواج (بقول بعضے) انیسویں صدی عیسوی میں یورپ کے ایک نیوی جہاز سے شروع ہوا،جس کا مختصر پس ِ منظر یہ ہے کہ یورپ کی نیوی فوج سالہا سال بحری سفر میں رہ کرگزاردیتی تھی،ایک ہی منظر اور ایک ہی ماحول کی بود و باش سے جب وہ اوب جاتی تھی تو وہ تفریحِ طبع اور ضیافتِ قلب کے لئے کبھی کبھی مستیوں کی محفلیں منعقد کیا کرتی تھی کہ اسی بیچ انقلابِ سال کے موقع پر ایک منچلے فوجی نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ کیوں نہ ہم اس سال نئے سال کا جشن منائیں، چونکہ یہ جشن نیا بھی تھا اور ان کے لئے البیلا اور انوکھا بھی،مزید برآں وہ اس طرح کی محفلوں کے دلدادہ تو پہلے ہی سے تھے،سو اس کے بقیہ ساتھیوں نے اس کی اس رائے کو نہایت تپاک اور اعلی ظرفی کے ساتھ قبول کیا اور پھر دسمبر کی آخری رات میں انہوں نے نئے سال کے موقع پر رنگ رنگلیوں کی ایک ایسی محفل منعقد کی،جس کی دھما چوکڑی سے اس جہاز کا عرشہ ہل اٹھا،اس کے مستول ( کھمبے) اور پتوار تک تھرک اٹھے،اس محفل کی رنگارنگی اور اس سمندر کی لہروں کی موسیقی کافی دور رس ثابت ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالم پر چھاگئی۔
    

آج جہاں عیسائی مشینریاں اس جشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں، وہیں ان کے شانہ بشانہ اسلام کے نام لیوا بھی ان سے بالکل پیچھے نہیں ہیں،اس جشن کے تئیں ان کے جوش و جذبہ اور خبط و خمار کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے اسلام کے ساتھ اس جشن کا کوئی بہت گہرا ربط ہو،جبکہ اللہ کے رسول ﷺ نے غیروں کےبشانہ بشانہ چلنے پر بہت ساری وعیدیں بیان فرمائی ہیں،آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ”جو کوئی جس قوم کی مشابہت اختیار کرےگا کل قیامت کے دن اس کا حشر بھی اسی قوم کے ساتھ ہوگا

بڑا افسوس کا مقام ہے کہ ایک مسلمان کے اوپر کیا فرض عائد ہوتا تھا اور وہ کر کیا رہا ہے،آج کا ہمارا معاشرہ اخلاقی انارکی اور ذہنی پسماندگی کے اتنے عمیق غار میں جا گرا ہے کہ اس کی نظروں میں یہ چیزیں کوئی معنی رکھتی ہی نہیں ہیں،وہ اپنے لئے کامیابی کا راز مغرب کی پیروی میں ہی مضمر سمجھتا ہے،چاہیے تو یہ تھا کہ انقلابِ سال کے موقع پر مسلمان اپنا احتساب کرتے،اپنی کتابِ زیست کا ایک ایک ورق کھنگالتے کہ گئے دنوں میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟پانے پر خدا کا شکر اور کھونے اشکِ ندامت بہاتے اور آئندہ کے لئے عزم بالجزم کرتے کہ زندگی کے بقیہ اوقات کو خدا اور رسول ﷺکی رضا جوئی میں صرف کریں گے۔
    

یاد رکھئے یہ چند دنوں کی زندگی ہے،جو رفتہ رفتہ کسی برف کی سل کے مانند پگھلتی چلی جا رہی ہے،وقت کی جوت زندگی میں بس ایک ہی بار جلتی ہے،اس لئے اپنی زندگی کو لہو و لعب اور کھیل و تماشہ میں برباد نہ کریں،خدا نے آپ کو بیکار نہیں بنایا ہے کہ من مانیاں کر کے جیسے تیسے کرکے زندگی گزارلیں،نئے سال کے موقع پر مبارک بادی دے لینے کے بعد اللہ کے نزدیک قد بلند نہیں ہوجاتا بلکہ اور بھی گرجاتا ہے کیونکہ یہ غیروں کی روش اور باطل کا نظریہ ہے،شجرِ زندگی سے ایک ٹہنی کے گرجانے اور لمحہ بہ لمحہ موت کے منہ کے قریب پہونچنے پر جشن منانا دانش مندی نہیں بلکہ نادانی اور حماقت ہے۔
              ؎  اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو
              پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو

    اللہ پوری امت مسلمہ کو عقل سلیم اور فہم ذکی کی دولت سے مالا مال فرمائے اور اسے صراطِ مستقیم پر گامزن کرکے اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں کو اس کے لئے ہموار بنائے۔۔۔ آمین

                          ظفر امام،کھجورباڑی
                          دارالعلوم بہادرگنج
                        31/ دسمبر 2022ء

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button