اپنا محاسبہ : مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
- انسان کو چاہیے کہ وہ ہر رات سونے سے قبل دن بھر کا حساب کرلے ، یہ حساب اللہ کے فرشتوں نے نامۂ اعمال میں درج کر لیا ہے لیکن بندے کو اس کا پتہ نہیں
اچھے تاجر کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنی آمد اور خرچ پر نظر رکھتا ہے ، دو کان بند ہونے کے قبل وہ دن بھر کا حساب تیار کر لیتا ہے تاکہ اسے پتہ چل جائے کہ آج کا دن نفع کا رہا یا نقصان کا ، نفع پر خوش ہوتا ہے اورنقصان کی صورت میں پریشان ، اس پریشانی میں وہ اس بات کا تجزیہ کرتا ہے کہ معاملہ نقصان کا کیوں رہا ، حالاں کہ دوکانداری تو ساری کی ساری نفع کی امید پر تھی ، پوری رات وہ بستر پر کروٹیں بدلتا رہتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس نقصان سے نکلنے کی کیا تدبیر ہو سکتی ہے ۔
انسان صبح سے شام تک جو کچھ کرتا ہے ، اس میں بھی کچھ آمد ہوتی ہے اور کچھ خرچ ، اعمال صالحہ ہمارے نامہ اعمال میں اجر وثواب کے طور پر آمد میں درج ہوتے ہیں، جب کہ گناہ ، منکرات اور سیئات ہمارے خرچ کا حصہ ہیں، بعض اعمال تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ پورے نیک اعمال کو ختم کر ڈالتے ہیں، قرآن کریم میں اسے اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالَکُمْ سے تعبیر کیاگیا ہے ، البتہ بندہ جب منکرات سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سیئات کو حسنات سے بدل دیتا ہے ، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ جو لوگ توبہ کرتے ہیں، ایمان پر قائم رہتے ہیں، عمل صالح کرتے ہیں تو اللہ ان کے سیئات کو حسنات سے بدل دیتا ہے ، کیوں کہ اللہ غفور الرحیم ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ ہر رات سونے سے قبل دن بھر کا حساب کرلے ، یہ حساب اللہ کے فرشتوں نے نامۂ اعمال میں درج کر لیا ہے لیکن بندے کو اس کا پتہ نہیں ، اس لیے ضروری ہے کہ دن بھر کے اعمال کا جائزہ لیا جائے ، کتنے کام اللہ کو راضی کرنے والے کیے گیے اور کتنے اعمال اللہ کی نا راضگی کا سبب بنے ، صوفیاء کی اصطلاح میں اسے محاسبہ اور مراقبہ کہتے ہیں، جب آدمی اس کام سے لگ جاتا ہے تو مزید اچھے عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، گناہوں پر ندامت ہوتی ہے اور اس کی زندگی مرضیات الٰہی کے مطابق گذرنے لگتی ہے اور اگر ایسانہیں ہو سکا تو انسان گھاٹے میں رہتاہے اللہ رب العزت نے زمانہ کی قسم کھا کر یہ بات کہی ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے اور بڑی تاکید کے ساتھ کہی ہے؛ تاکہ ہر انسان کو یہ بات ذہن نشیں ہوجائے، در اصل نفع نقصان کی زبان ہر آدمی سمجھتا ہے ، اس لیے اللہ رب العزت نے انسان کے خسران میں ہونے کا اعلان کر دیا، اس گھاٹے اور خسران سے نکلنے کی شکلیں بھی ساتھ میں بتادیں وہ یہ کہ اگر آدمی ایمان پر ثابت قدم رہے ، نیک عمل کرے ،حق کی تلقین کرے اور صبر کو اپنی زندگی کا شعار بنا لے تو وہ گھاٹے سے باہر آسکتا ہے ۔
احتساب کے اس عمل میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کا اپنا کبر ہوتا ہے ، وہ غلطیوں پر غلطیاں کیے جاتا ہے ، لیکن خود احتسابی کی توفیق اسے اس وجہ سے نہیں ملتی کہ وہ اپنے کو ’’عقل کل‘‘ کا مالک سمجھتا ہے، اس کی نظر میں غلطیاں وہ ہیں جو دوسرے کرتے ہیں، اپنی غلطیوں کی طرف اس کا ذہن نہیں جاتا اور وہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے ، صحیح کر رہا ہے ، ایسا شخص فریب نفس میں مبتلا ہو تا ہے ، اور یہ فریب اس کو صحیح راستے پر آنے سے روکتا رہتا ہے ، تا آن کہ موت کے سخت اور آہنی پنجے اسے اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں، وہ زندگی میں اپنا محاسبہ نہیں کر سکا تھا ، لیکن فرشتے نے جو لیکھا جوکھا تیار کیا ہے وہ قیامت میں اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا، وہ حیرت اور تعجب کی نگاہ سے دیکھے گا کہ اچھا یہ کام بھی میں نے کیا تھا اور یہ بُرائی بھی مجھ سے سر زد ہوئی تھی ، اس دن بھی وہ ڈھیٹھ ہو کر کہے گا کہ نہیں ، نہیں ، میں نے یہ سب نہیں کیا ہے ، اللہ کہتے ہیں کہ اس دن اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اعضاء وجوارح کو گویائی مل جائے گی وہ سب گواہی دیں گے کہ اس بندے نے ایسا کیا تھا، جب اپنے ہاتھ پاؤں بیگانے ہو جائیں گے تو کون اسے بچا سکے گا ، اب اسے معلوم ہوگا کہ ہم نے دنیا میں جو عمل کیا وہ ہمیں خائب اور خاسر بنا گیا ، اس لیے کہ کامیابی تو وہاں ان لوگوں کے لیے ہے ، جنہوں نے اللہ کو رب مانا اور پھر اس پر جم گیے ، جمنے کا مطلب ہے کہ دنیاوی حوادث اور مصیبتوں نے ان کے پائے استقامت میں لرزہ پیدا نہیں کیا ، ایسے لوگ ہی اس دن کامیاب ہوں گے ۔ان پر رحمت کے فرشتے نازل ہو ں گے اور انہیں تسلی دیں گے کہ ڈرو مت اور غمگین نہ ہو، پھر انہیں جنت کی بشارت دیں گے جس کا وعدہ نیکو کاروں سے کیا گیا ہے ۔
ان خبروں کو بھی پڑھیں
- جمعیت علماء اتردیناجپور کا انتخابی عمل
- تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ
- سکشمتا 2.0 میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات
ان خبروں کو بھی پڑھیں