اہم خبریںمضامین

اقبال: محرمِ رازِ درونِ میخانہ✍️انور آفاقی دربھنگہ ۔

اقبال: محرمِ رازِ درونِ میخانہ

✍️انور آفاقی دربھنگہ ۔

گاؤں کے پرائمری اسکول میں جہاں میں پڑھتا تھاوہاں روزانہ ایک دعا ۔۔۔۔۔۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
ہر صبح ہم سب کو پڑھائی جاتی تھی ۔ یہ دعا مجھے پرائمری اسکول ہی میں یاد ہو گئی تھی ۔ اسی پرائمری اسکول میں ایک ترانہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
بھی یاد ہو گیا تھاجو خاص طور سے 26 جنوری اور 15 اگست کے موقع سے بڑے اہتمام کے ساتھ پڑھایا جاتا تھا ۔ اور بتایا گیا کہ ان دونوں ( دعا اور ترانہ) کے لکھنے والے کا نام علامہ اقبال ہے ۔اور پھر مڈل اسکول سے ہائی اسکول تک پہنچتے پہنچتے علامہ اقبال کے بہت سارے اشعار یاد کر چکا تھا۔ علامہ اقبال دھیرے دھیرے لاشعوری طور پر ذہن پر چھاتے گئے اور سچی بات تو یہی ہے کہ کم عمری کے زمانے سے ہی اگر کسی شاعر نے درِ دل پہ دستک دی تو وہ صرف اور صرف علامہ اقبال ہی تھے۔
ہائی اسکول میں داخل ہوا تو ہمارے اردوکے جو استاد ملے وہ بھی اتفاق سے علامہ اقبال کے بڑے قدر داں تھے ۔ لہذا علامہ اقبال سے اور قریب تر ہو گیا اور ان کی کئی نظموں اور غزلوں کے ساتھ ساتھ شکوہ ،
جواب شکوہ کے بھی کئی اشعار یادکر چکا تھا ۔ مگر
ان کی ایک غزل کا مندرجہ ذیل شعر ۔۔۔
مری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہوں محرم رازِ درون میخانہ
پڑھا اور استاد محترم نے شعر کی تشریح فرمائی تو پھر ایسا ہوا کہ یہی ” محرمِ راز درون میخانہ ” میرے درونِ دل میں براجمان ہو گیا اور وہ اپنی پر وقار شخصیت اور اشعار کے توسط سے دل و دماغ پر حکومت کرنے لگا ۔۔۔ اور آج بھی میں خود کو ان سے ایک روحانی رشتےسے منسلک پاتا ہوں۔
اور شاید یہی وجہ ہے کہ علامہ کے حوالے سے کبھی بھی کوئی تحریر،۰ مضمون یا کوئی کتاب ملتی ہے تو اسے پڑھتا ضرور ہوں ۔ گذشتہ چار پانچ سالوں میں ان پہ لکھے گئے نئے پرانے مضامین یا کتابیں جو میرے مطالعے میں آئیں ہیں ان کو پڑھ کر یہ پتہ چلا کہ آج بھی علامہ اقبال کی تاریخ ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے (مثلا ۔۔ شاعر و محقق خلیق الزماں نصرت کی مرتبہ کتاب "بر محل اشعار اور انکے ماخذ ” صفحہ 135 مطبوعہ 2016 میں علامہ کی ولادت کا سال 1873 لکھا ہے۔ ) ، دوسری طرف ڈاکٹر احسان عالم نے اپنی تصنیف ” آئینہ تحریر”( صفحہ 24 مطبوعہ 2016) میں لکھا ہے کہ علامہ اقبال کے جد اعلی "راجپوت تھے جو سو برس پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے تھے”۔ تو ایک طرف جسٹس شادی لال کو اس پہ اعتراض تھا کہ اقبال ایک کامیاب وکیل تھے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ” وہ اقبال نامی شاعر کو تو جانتا ہے لیکن اسی نام کے وکیل کو نہیں جانتا ” ( بحوالہ” قانون داں اقبال "مرتبہ ظفر علی راجا )۔ اس طرح کی متعصب سوچ کے حامل صرف شادی لال ہی نہ تھے بلکہ اور بھی کچھ لوگ تھے۔ مجھے ان ہی تین موضوعات پہ گفتگو کرنی ہے ۔
تاریخ ولادت :
غالبا علامہ اقبال تنہا ایک ایسے شاعر اور ادیب ہیں جن کی تاریخ ولادت میں سب سے زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے لہذا آج بھی ادباء کے درمیان ایک متنازع موضوع بنتا رہتا ہے۔
علامہ اقبال کی ولادت کےاختلافی سنوات جو مختلف راویوں نے اپنی کتابوں یا مضامین میں درج کئے ہیں وہ اس طرح ہیں :
1870 عیسوی ۔
معروف و مشہور مصنف و مرتب لالہ سری رام نے
علامہ اقبال کا سن ولادت 1870 ء لکھا ہے ۔ (بحوالہ خمخانہ جاوید جلد اول صفحہ 369 مطبوعہ سن 1908ء ۔ )
دوسرے سر سید راس مسعود نے اپنی مرتبہ کتاب "انتخاب زریں” (مطبوعہ 1937 صفحہ 245 ) میں بھی علامہ کا سن ولادت 1870 عیسوی ہی درج کیا ہے۔
1872 عیسوی ۔
ڈاکٹر عبدالحکیم نے اپنے مضمون بہ عنوان "اقبال کی زندگی” میں علامہ اقبال کی ولادت کا سال 1872 عیسوی لکھا ہے ۔ ان کا یہ مضمون غلام دستگیر رشید کی مرتبہ کتاب ” آثار اقبال” جو اس زمانے کے مشہور و معروف قلمکاروں کے مضامین کا مجموعہ ہے (مطبوعہ ستمبر 1944ء ناشر۔ ادارہ اشاعت اردو حیدرآباد ) میں صفحہ 17 پہ موجود ہے۔
تعجب ہےاسی مندرجہ بالا کتاب ( آثار اقبال ) میں عبدالقادر سروری کا بھی ایک مضمون ” اقبال حیات اور شاعری” جوصفحہ 106 پہ شامل ہے اس میں علامہ اقبال کی پیدائش کا سال 1872 لکھا ہوا ہے۔ جبکہ انکی اپنی تصنیف ” جدید اردو شاعری ” میں علامہ اقبال کی ولادت کا سال 1875 درج ہے۔ (تفصیل نیچے 1875 عیسوی والے کالم میں دیکھا جا سکتا ہے) ۔
1873 عیسوی ۔
محمد حسین خاں نے اپنی کتاب ” اقبال ” مطبوعہ 1939 ، ناشر ۔ خورشید اینڈ برادرس، فراش خانہ دہلی میں صفحہ 9 پہ علامہ کا سن ولادت 22 فروری 1873 عیسوی درج کیا ہے۔
ان کے علاوہ چند دوسرے مصنفین نے بھی علامہ کی پیدائش کا سال 1873 تحریر کیا ہے جنکی تفصیل ذیل میں درج ہے۔
حیات اقبال ” ناشر تاج کمپنی لیمٹیڈ لاہور مطبوعہ 1936 صفحہ 10۔
ذکر اقبال ” مصنف عبد المجید سالک۔ ناشر بزم اقبال لاہور صفحہ 10۔
یہاں ایک بات قابل غور ہے وہ یہ کہ علامہ اقبال نے میٹرک 1893 عیسوی میں پاس کیا ( بحوالہ "زندہ رود ” صفحہ 63 ) اگر بفرض محال ولادت کا سال 1873ء مان لیا جائے تو علامہ نے میٹرک بیس یا اکیس سال کی عمر میں پاس کیا جو کسی لحاظ سے مناسب نہیں لگتا ہے ۔ کیونکہ عموما میٹرک پاس کرنے کی عمر 14 ،15 یا 16 سال ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں میری ( راقم التحریر ) ذاتی رائے ہے کہ علامہ کی ولادت کا سال 1873ء صحیح نہیں ہے۔
1875 عیسوی۔
محمد الدین فوؔق نے 1930ء میں اپنی کتاب ” مشاہیرِ کشمیر "( صفحہ ۔177 مضمون بعنوان ڈاکٹر شیخ سر محمد اقبال ) میں علامہ اقبال کی ولادت کا سال 1875 ء تحریر کیا ہے ۔
عبد القادر سروری نے اپنی تصنیف "جدید اردو شاعری ” ( مطبوعہ 1932 ء ناشر مطبع انجمن امداد باہمی۔ حیدرآباد ) میں صفحہ 207 ,208 پہ ولادت کا سال 1875 لکھا ہے۔
1876 عیسوی ۔
سید اعجاز حسین اعجاز نے اپنی تصنیف "مختصر تاریخ ادب اردو ” مطبوعہ 1940ء ناشر انڈین پریس لمیٹیڈ الہ آباد ، صفحہ 202 پہ علامہ کی ولادت کا سال 1876ء درج کیا ہے ۔
مولانا عبدالسلام ندوی کے مطابق بھی علامہ کی پیدائش کا سال 1876ء ہی ہے۔ ( بحوالہ” اقبال کامل” صفحہ 3 ، سن طباعت 1948 ء اور طبع چہارم 1978ء)
انگریزی زبان و ادب کے معروف ادیب/ناول نگار ملک
راج آنند نے بھی اپنے ایک انگریزی مضمون میں علامہ اقبال کی ولادت کا سال 1876ء لکھا ہے ۔ان کا یہ مضمون” رائل اکاڈمی جنرل” میں شائع ہوا تھا ۔ بعد میں اسی انگریزی مضمون کا اردو ترجمہ "نیرنگ خیال ” اقبال نمبر طبع اول 1932ء اور طبع ثانی 1977 ء میں صفحہ 87 پہ بھی چھپا ہے ۔
خود علامہ اقبال نے جب 1907ء میں ڈاکٹریٹ کے لئےاپنا تحقیقی مقالہ بعنوان” ایران میں فلسفہ مابعد الطبیعیات کا ارتقاء ” میونخ یونیورسٹی ،جرمنی میں جمع کیا تو اس پہ اپنی ولادت کاسال 1876ء ہی لکھا تھا۔ اور پھر جب انہوں نے 1931میں گول میز کانفرنس برطانیہ، میں شرکت کے لئے پاسپورٹ بنوایا تو اس پہ بھی سن ولادت 1876ء ہی تھا۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی مرتبہ کتاب ” زندہ رود "
میں لکھا ہے کہ ” اقبال کی زندگی میں جس سن ولادت کو اقبال کی تائید حاصل تھی وہ 1876 عیسوی ہی تھا "۔
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقبال اپنی پیدائش کا سال 1876ء پہ ہی کیوں مصر تھے تو اس کی صرف ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ کہ ان
( اقبال ) کو اپنا تاریخ میلاد ھجری تقویم کی مناسبت سے یاد تھا جو صحیح بھی تھا مگر جب انہوں نے اپنے سن ولادت کو ھجری سے عیسوی میں تبدیل کیا تو ان سے حساب میں چوک ہو گئی جس کی وجہ سے 1876عیسوی ہو گیا اور وہ اسی عیسوی سن کو صحیح سمجھتے رہے اور ہر جگہ اسی کو لکھتے رہے۔ اس کو سمجھنےکے لئے پروفیسر جگن ناتھ آزاد( ماہر اقبالیات ) کی بڑی اہم انگریزی تحقیقی کتاب ” اقبال:مائنڈ اینڈ آرٹ "کا مطالعہ بہت مناسب ہوگا۔ اسی کتاب کے صفحہ 52 پہ مندرجہ ذیل اقتباس سے اس عقدہ کو سمجھنے میں سہولت ہوگی۔
"Again 3rd of Dhu Qu’d 1294 A.H,
according to the Christian calendar is November 9,1877and not 1876. It appears that Iqbal remembered the Hijri year of his birth correctly but , while converting it into Christian year, he made an error and gave it as 1876 A.D. The civil and Military Gazzete Lahore, represented by Md Shafi ( one of Iqbal’s close associates), in it’s obituary on Iqbal gave his date of birth as November 9,1877. This is the correct date "
( Ref. Iqbal :Mind and Art. Page.52)
1877 عیسوی ۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے اپنی عربی تصنیف ” روائع اقبال ” جس کا اردو ترجمہ "نقوش اقبال ” ہے، میں صفحہ 43 پہ علامہ اقبال کی ولادت کا سال 1877 درج کیا ہے۔ مذکورہ کتاب کا ناشر ” مجلسِ تحقیقات و نشریات اسلام لکھنئو ہے اور سن اشاعت 1972ء۔
ماہیر اقبالیات پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے اپنے ایک مضمون جو انگریزی اخبار "ہندوستان ٹائمز ” میں 1973 میں چھپا تھا ، علامہ اقبال کی ولادت کی تاریخ 9 نومبر 1877 درج کیا ہے ۔ بعد میں یہی مذکورہ تاریخ ان کی کتاب ” مرقع اقبال” مطبوعہ 1977 صفحہ 7 پہ بھی درج ہے۔
ان کے علاوہ اسی مذکورہ تاریخ کی وکالت مس اینی میری شیل اور سید فقیر الدین قبل کر چکے تھے ۔(بحوالہ "اقبال کے بعض اہم پہلو” صفحہ 10 ،مرتب ۔ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد ") ۔
جب 1972 ,1973 میں اپنے ملک( ہندوستان ) میں علامہ اقبال کی ولادت کے صد سال جشن کے لئے ماہرین اقبالیات میں بات چیت ہونے لگی تو اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی نے اپنی زیر قیادت ایک کمیٹی تشکیل دی تھی کہ علامہ کی تاریخ ولادت کا صحیح تعین کریں ، شاید اس لیے کہ علامہ کی تاریخ ولادت کے مسئلہ پر ہندوستان میں بھی ماہرین اقبالیات کےدرمیان اختلاف پایا جاتا تھا ۔ لہذا کمیٹی نے مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ، پروفیسر جگن ناتھ آزاد اور علامہ کے عقیدت مند، اقبالیات کے ماہر اور کمیٹی کے روح رواں علی سردار جعفری وغیرہم کے غور و فکر کے بعد علامہ کی صحیح تاریخ پیدائش 9 نومبر 1877ء ہی طئے پائی اور "کل ہند اقبال صدی کمیٹی” کے صدر درگا پرساد دھر کے توسط سے محترمہ اندرا گاندھی کو پیش کر دیا ۔ اس طرح ہندوستان میں علامہ کے صد سالہ جشن کے لئے سن 1977 کا اعلان کیا گیا ۔
درگا پرساد دھر کی وفات 1975 کے بعد ” کل ہند اقبال
صدی کمیٹی ” کی پشت پناہی جناب آئی ۔کے۔ گجرال جو اس زمانے میں سویت یونین (روس) میں سفیر ہند ( 1976۔1980) تھے ،کرتے رہے ۔ اور پھراس طرح علامہ اقبال کا صد سال جشن بڑے جوش و خروش سے پورے ملک (ہندوستان ) میں1977ء میں منایا گیا۔
کلکتہ میں بھی دسمبر 1977 ء ہی میں صد سالہ جشن اقبال کا ا انعقاد عمل میں آیا ۔ جو تین دنوں ( 30 ,31دسمبر 1977ءاور پہلی جنوری 1978ء ) تک چلا ۔ اتفاق سے ان دنوں میرا ( راقم التحریر ) قیام کلکتہ ہی میں تھا اور اس جشن میں بطور سامع و ناظر شریک تھا۔ اس جشن صد سالہ کیلئے جو کمیٹی کلکتہ میں تشکیل دی گئی تھی اسکے چیرمین علقمہ شبلی ( مرحوم ) بنائے گئے تھے جبکہ کنوینر مختار عالم۔ ممبران میں سالک لکھنوی، ابراہیم ہوش، ظفر اوگانوی اور شا نتی رنجن بھٹاچاریہ وغیرہ تھے جن کے اسمائے گرامی آج بھی مجھے یاد ہیں ۔
پڑوسی ملک پاکستان میں 1969عیسوی میں علامہ اقبال کی صحیح تاریخ ولادت کی تحقیق کے لئےجو ایک کمیٹی بنائی گئی تھی اور جس کے سربراہ جسٹس ایس۔اے۔ رحمان بنائے گئے تھے ، نے تقریبا تین سال کی تگ و دو کے بعد بھی رپورٹ پیش کرنے سے معذوری پیش کی ۔ پھر ایک دوسری کمیٹی ( 1972ء) میں، جس کے ہیڈ پاکستان مرکزی سکریٹری تعلیم بنائے گئے تھے ، نےتحقیق کے بعد 9 فروری 1974 کو اپنی سفارشات حکومت پاکستان کو سونپ دی ( بحوالہ ۔ ” زندہ رود ” صفحہ 58 مرتبہ ڈاکٹر جاوید اقبال ) اور اسی کی بنیاد پہ پاکستان میں بھی ہندوستان کی طرح 9 نومبر 1877 کو ہی علامہ اقبال کا یوم ولادت تسلیم کر لیا گیا۔ اسکے بعد سے نہ صرف ہند و پاک بلکہ ساری ادبی دنیا میں اب صرف یہی تاریخ قابل اعتبار مانا جاتاہے۔
علامہ اقبال کے جد اعلی کا مذہب ۔
علامہ اقبال کے جد اعلی ” راجپوت ” تو ہرگز نہیں تھے۔ بلکہ ” برہمن ” پنڈت تھے اور ان کا ” گوتر ” سپرو ” تھا ۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے اپنی تصنیف "نقوش اقبال "صفحہ 43 پہ لکھا ہے کہ ” ان کا خاندان کشمیری برہمنوں کا خاندان تھا”۔ اپنی تصنیف” نیرنگ خیال ” مطبوعہ 1932ء میں منشی محمد الدین فوق نے لکھا ہے کہ ” شیخ صاحب کا کشمیری پنڈتوں
کے ایک قدیم خاندان سے تعلق ہے جس کی ایک شاخ
اب تک کشمیر میں موجود ہے ۔
نیز علامہ نے اپنے برہمن زادہ ہونےکا خود اعتراف مندرجہ ذیل دو مصرعوں میں کچھ یوں کیا ہے ۔۔۔۔۔
میرا بنگر کہ در ہندوستاں دیگر نمی بینی
برہمن زادہ رمز آشنائے روم و تبریز است
(ترجمہ ۔ مجھے دیکھو کہ مجھ جیسا کوئی دوسرا ہندوستان میں نہیں دیکھو گے ۔ ایک برہمن زادہ
روم و تبریز کے اسرار و رموز سے آشنا ہے)
محققین کی اکثریت کے مطابق پندرھویں صدی عیسوی میں ان کے مورث اعلی” بابا لول حاج ” جو ایک کشمیری پنڈت برہمن زادہ تھے ، نے شیخ نور الدین ولی عرف نندہ رشی (1377 ـ 1440 عیسوی ) کی صحبت اور اخلاق و کردار سے متاثر ہوکر ان سے کلمہ شہادت پڑھ لیا اور امن و سلامتی کے دین اسلام میں داخل ہو گئے۔ بابا لول حاج نے کئی حج پیدل چل کر کئے تھے ۔محطاط اندازے کے مطابق بابا لول حاج نے سن 1425 اور 1430 عیسوی کے درمیان اسلام قبول کیا ہوگا۔
علامہ اقبال ایک کامیاب بیرسٹر بھی تھے:
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ علامہ اقبال کی وکالت چلتی نہیں تھی حالانکہ ایسی بات نہ تھی ۔ وکالت
کے پیشے سے وہ صرف حلال رزق ہی کے طلبگار تھے۔
اتنی ماہانہ آمدنی ان کے لئے کافی تھی جس سے وہ اپنےکنبہ کے اخراجات کو ٹھیک سے پورا کر سکیں ۔۔
لہذا وہ کیس بھی اتنا ہی لیتے تھے جتنی ضرورت
تھی۔ اس کے بعد وہ اپنا زیادہ تر وقت ادبی کاموں، شاعری، فلسفہ ،اسلامی حکمت و فکر کو پڑھنے لکھنے اور سمجھنے میں صرف کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے وکالت ان کے لئے ثانوی درجہ رکھتی تھی ۔ ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ کئی کیس کی پیروی کے لیے ان کو لاہور سے باہر دور دراز علاقوں کا سفر بھی کرنا پڑا ہے ۔ مثال کے طور مارچ 1920 ء میں مشہور زمانہ "ڈمراؤں راج کیس” پٹنہ بہار میں ایک گتھی کو سلجھانے کے لیے حکومت کی اجازت سے علامہ کو "پٹنہ عدالت عالیہ ” کے سرکاری وکیل سی ۔آر۔ داس کی دعوت پر پٹنہ کا سفر کرنا پڑا ۔اس مقدمہ میں سی۔ آر ۔ داس حکومت کی طرف سے سرکاری وکیل تھے تو دوسرے فریق کی وکالت کے لئے مشہور زمانہ بیرسٹر موتی لال نہرو موجود تھے۔ ان دونوں کی مدد کے لئے ان کے معاون کے طور پر کئی دوسرے مشہور وکلاء بھی ان کے ساتھ تھے ۔
اس مقدمہ کی پیروی کے لیے عدالت نے علامہ اقبال کو یومیہ ایک ہزار روپیہ دینا منظور کیا تھا اور ان کے منشی کو روزانہ سو روپیہ ۔ ساتھ ہی عدالت نے دو ماہ تک پٹنہ میں رہ کر اس کیس کی ضروی تیاری اور پیروی کے لیے بھی اجازت دے دی تھی ۔ اب آگے کا تفصیلی واقعہ پروفیسر جگن ناتھ آزاد کی زبانی سنیے جو ان کے مضمون” اقبال کا سفرِ بہار ” سے ماخوذ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
” اقبال جب پٹنے پہنچے تو سی۔ آر ۔داس انہیں لینے کے لیے اسٹیشن پر آئے ۔دوسرے دن سی۔ آر ۔ داس کی اقبال سے ملاقات نہ ہو سکی ۔ اگلی صبح جب سی۔آر
داس کی ملاقات ہوئی تو اقبال نے انہیں بتایا کہ مقدمہ کے تمام کاغذات وہ تیار کرچکے ہیں اور فورا ہی اپنا نقطہ نگاہ عدالت کے سامنے پیش کرکے لاہور واپس جانا چاہتے ہیں ۔ سی۔ آر۔ داس نے انہیں بتایا کہ یہ حکومت کا مقدمہ ہے اور اس میں اس قدر جلد اپنی رائے دینے کی ضرورت نہیں ۔انہوں نے اقبال کو یہ مشورہ دیا کہ اپنے کاغذات اطمینان سے تیار کریں اور اس سلسلے میں دو ماہ تک یہاں قیام کرسکتے ہیں جس کے لیے انہیں ایک ہزار روپیہ روزانہ ملتا رہے گا۔
لیکن اقبال مصر تھے کہ میرے کاغذات تیار ہیں اور میں جلد از جلد اپنا بیان عدالت کے سامنے دینا چاہتا ہوں ۔ چنانچہ اگلے دن انہوں نے اپنے بیان کو قطعی صورت دی اور اسے عدالت کے سپرد کر دیا ” ۔
علامہ کی حیات و خدمات کے مطالعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بیرسٹر اقبال نےمختلف مقدمات کی پیروی کے لئے صرف پٹنہ ہی کا نہیں بلکہ لدھیانہ، گجرات، دہلی ، پٹیالہ اور بمبئی کے اسفار بھی کئے تھے۔
علامہ اقبال نے اپنے آبائی شہر سری نگر (کشمیر ) کا سفر منشی سراج الدین کے ایک مقدمے کی پیروی کے لئے جون 1921ء میں کیا تھا۔ اور نواب ارشاد علی خان کے کیس کی سماعت کے لئے 1922ء میں شملہ بھی تشریف لے گئے تھے۔
مزید بیرسٹر اقبال کی وکالت کی تفصیلی معلومات کے لیے مشہور وکیل محقق شاعر و ادیب ظفر علی راجا کی 560 صفحات کی تحقیقی کتاب ” قانون دان اقبال ” کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے جس میں سرکاری کاغذات اور تاریخی حوالوں سے تشفی بخش دلیلیں پیش کی گئی ہیں ۔
ہمارا یہ ہر دل عزیز ، عظیم شاعر و ادیب، محقق، فلسفی ، استاد ، سیاست دان اور "محرمِ راز درون میخانہ ” 21 اپریل 1938 کو اس دار فانی سے کوچ کر گیا اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
اللہ ان کی قبر کو اپنی رحمتوں کے نور سے بھر دےاور آخرت میں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ آمین ۔


Anwar Afaqi .
Hoda Manzil, Rajtoli Bhigo, P.o.Lalbagh,Dist. Darbhanga. 846004.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button