( افسانہ )اندھی محبت✍️ فوزیہ اختر شیخپوروی، کولکتہ
( افسانہ )
اندھی محبت
✍️ فوزیہ اختر شیخپوروی، کولکتہ
سلور آرکیڈ کے باہر لوگوں کا جم غفیر تھا۔آرکیڈ کے ٹاپ فلور سے کوئی نوجوان نیچے گرا تھا اور سفید ماربل کی چکنی فرش اس کے خون سے سرخ ہو گئی تھی تھوڑی دیر بعد پولیس کی پوری ٹیم بھی وہاں پہنچ گئی تھی۔ ہجوم منتشر ہونے لگا۔ اب وہاں پر خاکی وردی والوں کے علاوہ اکا دکا لوگ ہی موجود تھے ۔
سکینہ بی بی پر آج پھر پاگل پن کا دورہ پڑا تھا۔ آواز پر میں نے اپنے ہال روم کی گلاس وال سے نیچے جھانکا۔سڑک پر وہ خود سے بے نیاز آنے جانے والے ایک ایک شخص کو پکڑ کر اپنے بیٹے کا پتہ پوچھ رہی تھی۔ کبھی وہ ہنسنے لگتی تو کبھی چیخ چیخ کر رونے لگتی۔
مجھ سے یہ دلسوز منظر زیادہ دیر تک دیکھا نہ گیا اور میں نے واپس بیڈ پر بیٹھ کر آنکھیں موند لیں۔سکینہ بی بی کا غم جیسے میرے دل میں اتر آیا تھا تھا۔ذہن کے کینوس پر تین سال قبل کا واقعہ پوری جزئیات کے ساتھ روشن ہو گیا تھا۔
سکینہ بی بی اسی بلڈنگ کے گراؤنڈ فلور پر بنے ایک چھوٹے سے کمرے میں اپنے بیٹے مہران حسن کے ساتھ رہتی تھیں۔بیوہ تھیں مگر غضب کی باہمت عورت تھیں۔ اکلوتے بیٹے کو معاشرے میں نہ صرف سر اٹھا کر چلنے کے قابل بنایا بلکہ معاشرے کا ایک کامیاب اور نامور انسان بھی بنایا تھا۔ ان ساری کوششوں میں سکینہ بی بی کو نہ جانے کتنی صعوبتیں اٹھانی پڑیں، کتنی تکلیفیں جھیلنا پڑیں، بڑی کتنی راتوں کی نیندیں قربان کرنی پڑی تھیں۔ ہاں مگر یہ بھی سچ ہے کہ مہران نے ہمیشہ ان کی امیدوں پر پورا اتر کر ان کی زبردست حوصلہ افزائی کی۔ اسکول سے لے کر کالج یونیورسٹی تک میں ہمیشہ ٹاپ کرتا رہا۔
سکینہ بی بی نے دن بھر سلائی کڑھائی کر کے، دوسروں کے گھروں کے ضروری کام نپٹاکر، گھر کے دروازے پر پاپڑ بھون کر اور بیچ کر جس طرح مہران کو پڑھایا، مہران نےاس کا حق میڈیکل کے ایگزام میں ٹاپ کر کے ادا کر دیا تھا۔وہ اپنے علاقے کا "رول ماڈل” تھا۔ لڑکے اس جیسا بننے کی کوشش میں پڑھائی کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالتے۔
ڈاکٹر شروتی باسو سے اس کی ملاقات ایم ڈی کرنے کے دوران ہوئی تھی ڈاکٹر مہران حسن جس نے کبھی کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا تھا جسے اپنی کتابوں کے علاوہ کسی سے مطلب نہ تھا وہ سانولی سلونی مگر بے حد پرکشش شروتی باسو کی گہری جھیل سی آنکھوں میں ڈوبتا چلا گیا۔ اب اس کی نظریں شروتی کی سیاہ سلکی زلفوں اور سیاہ بھنورا سی آنکھوں سے ہٹتی ہی نا تھیں۔
کہتے ہیں نہ کہ محبت اندھی ہوتی ہے تبھی تو مہران کو نہ ہی آپ نے اور شروتی کے بیچ مذہب کی دیوار نظر آئی اور نہ ہی اس کا اسٹیٹس۔مہران لاکھ ڈاکٹر تھا مگر شروتی کے منسٹر پاپا نہ صرف صوبہ کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک جانا پہچانا نام تھے بھلا ایک ڈاکٹر کی ایک منسٹر کے سامنے کیا حیثیت۔ مگر محبت کرنے والے کسی مصلحت کو کہاں سمجھ پاتے ہیں دونوں بالغ تھے قابل ڈاکٹرز تھے۔ کورٹ میرج کے بعد جب انہوں نے میڈیا کے سامنے اقرار کیا تو پورے شہر میں زبردست ہلچل مچ گئی۔مہران شروتی کو سیدھا اپنے گھر لے گیا۔ بوڑھی بیوہ ماں شروتی کے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے دعائیں دیتی جا رہی تھی ۔ماں کا دل تھا جتنی بھی چوٹ پہنچی ہو مگر جگر کے ٹکڑے کو بددعا نہیں دے سکتی تھی۔ دعاؤں کے پھول دونوں پر نچھاور کر کے مٹھائی وغیرہ کا انتظام کرنے اندر چلی گئی تھی۔
ایک ہفتہ خاموشی سے گزرا ۔ایک دن اچانک شروتی کے منسٹر پاپا خود چل کر دروازے تک آ پہنچے۔ ڈھیر سارے تحفے تحائف کے ساتھ وہ ایک گزارش بھی لائے تھے۔
"بیٹے! شروتی میری اکلوتی بیٹی ہے، میرے دل میں اس کی شادی کے لیے نہ جانے کتنے ارمان تھے ۔خیر اوپر والے کو یہی منظور تھا تو یہیں سہی لیکن میں چاہتا ہوں کہ شروتی ابھی میرے ساتھ جائے ایک ہفتہ کے بعد ہم ایک شاندار دعوت کریں گے اور ہم اپنے عزیزواقارب کی موجودگی میں شروتی کو تمہارے سنگ رخصت کریں گے اس طرح لوگوں کو بھی باتیں بنانے کا موقع نہیں ملے گا۔
مہران متذبذب تھا،لیکن شروتی کے جوش و خروش کے آگے اسے ہار ماننی پڑی۔ اور اس نے اس کے پاپا کے سنگ اسے رخصت کر دیا۔ اس واقعہ کے تین دن بعد کی صبح بھی عام صبح جیسی ہی تھی۔ معمول کے مطابق مہران باتھ لے کر ناشتہ کے لئے بیٹھا تبھی موبائل کی بیپ ہوئی۔ اس نے کسی سے بات کیا اور ناشتہ دو منٹ میں ختم کر کے گھر سے نکل گیا۔ اور اب رات ہونے کو آئی تھی اس کا کچھ پتہ نہ تھا۔سکینہ بی بی نے ایک بجے رات میں ہمارے دروازے پر دستک دی۔
"بیٹی مہران صبح کا گیا اب تک نہیں لوٹا ہے ۔اپنے موبائل سے لگانا ذرا، میں بہت دیر سے کوشش کر رہی ہوں مگر اس سے لگتا ہی نہیں۔”
انہوں نے اپنا سیل فون آگے کیا جو مہران نے کچھ ماہ پہلے انہیں دیا تھا۔ میں نے اپنے فون سے کئی بار ٹرایٔ کیا ہر بار آف
رہا تھا تھک ہار کر میں نے انہیں مایوس لوٹا دیا۔
دوسرے دن کی صبح بہت اداس تھی۔ جب اخبار والے نے اخبار دیا تو پورے علاقے میں کہرام مچ گیا۔ ڈاکٹر مہران Silver Arcade کے ٹاپ فلور سے گر کر مالکِ حقیقی سے جا ملا تھا۔
اس کا وہی حال ہوا تھا جو ہر غریب عاشق کا ہوتا ہے۔ اسے وہی سزا ملی تھی جو اقلیت کو اکثریت کی لڑکی سے عشق کرنے پر ملتی ہے۔ پولیس اس واقعہ کو حادثہ کے سوا کچھ اور قرار دینے کو تیار ہی نہ تھی، مگر علاقے کے جوشیلے نوجوان بھڑک اٹھے تھے ۔شروتی کے منسٹر پاپا کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔ انہیں قاتل قرار دے رہے تھے۔اپوزیشن والے بھی اس واقعہ سے خوب فائدہ اٹھا کر مسلم ووٹ کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کر رہے تھے ۔میڈیا کو تو اپنے نیوز چینل اور اخبار کے لئے چپٹی اور نئی نئی خبریں مل ہی رہی تھیں پولیس والے بھی اس بہانے جیب گرم کررہے تھے۔
مگر اس سب میں نقصان کس کا ہوا تھا تھا۔ مہران کی بیوہ ماں کا۔ جس نے نہ جانے کتنی صعوبتیں جھیل کر مہران کو معاشرے کا عزت دار فرد بنایا تھا۔ جو اپنی بیوہ ماں کا اکلوتا سہارا تھا۔ جس ماں نے زندگی بھر ایک پودے کو ہر سرد و گرم سے بچا کر اس کی سیوا کر کے اسے ایک تناور درخت بن آیا تھا جب پھل کی باری آئی تھیں تو درخت جڑ سے کر چکا تھا۔
حسب معمول یہ واقعہ بھی کچھ دنوں کے بعد ٹٹھنڈا پڑگیا ۔ خانہ پری کے لیے کچھ افسران کے تبادلے ہوئے۔ میڈیا کو دوسری خبریں مل گئیں۔ جوشیلے نوجوان بھی ٹھنڈے پڑگئے۔ ہمیشہ کی طرح لوگ اس دلخراش واقعے کو بھی بھولنے لگ۔ کچھ پتھر دل اور بے حس لوگ سکینہ بی بی کے پاگل پر ہنسنے لگے۔
مگر ہوش و حواس سے بیگانہ سکینہ اب بھی ایک سوالیہ نشان بنی سڑکوں پر ماری ماری پھرتی ہے۔