اہم خبریںمضامین

اسلاف کے یہاں، اعتدال اور فقہی توسع

دین سراسر خیر خواہی کا نام ہے ایک مومن کی شان، خوبی اور صفت یہ ہونی چاہیے کہ وہ دین کے سارے معاملے میں فرد اور جماعت قوم اور ملت کے لئے حکومت اور ادارے کے لئے خیر خواہ اور مخلص ہو ،مواقع خیر کی نشان دہی کرے اور مواضع شر یعنی غلط جگہ اور غلط اقدام سے لوگوں کو آگاہ کرے ۔ اسی لئے پیارے آقا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الدین النصيحة قلنا لمن یارسول اللہ

قال للہ و لرسوله و لائمة المسلمین و عامتھم ۔
(بخاری شریف)

دین سراپا خیر خواہی کا نام ہے،ہم لوگوں نے (صحابہ کرام رضی اللہ عنھم) عرض کیا یہ خیر خواہی کن کے ساتھ کریں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ کے ساتھ، اللہ کے رسول کے ساتھ،مسلم حکمراں اور خلفاء کے ساتھ اور عام مخلوق کے ساتھ( مسلمانوں کے ساتھ) ۔

ایک دوسرے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مومن کو دوسرے مومن کے لئے آئینہ قرار دیا ہے، جو اس کی غلطیوں لغزشوں اور خامیوں اور خود کو نظر نہ آنے والے معائب کو پورے خلوص کے ساتھ ظاہر کر دیتا ہے ۔

اس حدیث سے اس بات کی جانب اشارہ ملتا ہے کہ انسان کبھی کبھی ایسا اقدام کرتا ہے اور ایسا قدم اٹھاتا ہے، جس کے بارے میں اس کا خیال ہوتا ہے کہ اس کا اقدام اور اس کا وہ عمل انتہائی درست،مفید اور نفع بخش ہے وہ موجب خیر اور نافع ہوگا ۔ لیکن اس کی نگاہ کوتاہ، خطا کرجاتی ہے اور وہ عمل اور اقدام مفید اور نفع بخش ہونے کے بجائے، مضر اور نقصان دہ ثابت ہو جاتا ہے ایسے وقت میں کوئی مخلص اور خیر خواہ بندہ، اس کو اس اقدام کے نتائج اور عواقب سے آگاہ کرتا ہے اور حقائق سے روشناس کراتا ہے ۔
قرآن مجید نے اسی جانب اشارہ کیا ہے کہ : ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند سمجھو حالانکہ (درحقیقت) وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ تم کسی چیز کو اچھی سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو اور باعثِ شر ہو ۔

آج معاشرے میں افراد و اشخاص جماعت اور ادارے کی ایک بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے نظریے اور اقدام و منصوبے کو سو فیصد درست اور صحیح سمجھتا ہے اور اس سے ذرا ہٹنے کو تیار نہیں، اگر چہ اس کا وہ طرز عمل نظریہ اصول اور اقدام شریعت،(قرآن و حدیث)، اجماع امت اور مسلک جمہور کے خلاف ہی کیوں نہ ہو ۔ وہ اپنی ضد، عناد اور سخت اور جارحانہ رویئے سے ہٹنے کے لئے زرا بھی تیار نہیں ۔ اس کی پوری کوشش یہی ہوتی ہے، اور اس کے لئے پوری طاقت اور حربے استعمال کرتا ہے کہ لوگ اس کے نظریے کے موئد ہوجائیں اور ان سے سو فیصد اتفاق کرلیں ۔ یہ سوچ اور نظریہ بالکل غیر شرعی غیر منطقی اور اور خلاف عقل و دانش ہے ۔ اقبال مرحوم نے کہا تھا ۔

ہر تہی مغز کو ہے غرہ علم و تحقیق
ہر مہاجن کو یہاں دعوئہ رزاقی ہے
تھے کبھی عرش کی دہلیز پہ جن کے سجدے

آج اپنے ہی مفادات ہیں ان کے مسجود جب ہم اسلاف کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں تو ان کی زندگیوں میں جہاں ایک طرف ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ تقوی و طہارت زہد و ورع عبادت و ریاضت اور علم و تحقیق کے اعلی مقام اور معیار پر ہیں، تو وہیں دوسری طرف ایک نمایاں خصوصیت یہ نظر آتی ہے کہ علم و تحقیق کے میدان میں اعتراف حق اور حقیقت و واقعیت کو ماننے اور تسلیم کرنے کی صفت اور خوبی ان کے اندر نمایاں تھی، سینکڑوں مسائل میں امام ابو حنیفہ رح کا صاحبین سے اختلاف ہے لیکن متعدد جگہ اور مواقع پر امام ابوحنیفہ رح کو جب یہ یقین ہوگیا کہ ان کے شاگردوں کی تحقیق آج کے حالات کی روشنی میں اور دلائل کی بنیاد پر زیادہ مضبوط ہے، تو انہوں نے صاحبین کے مسلک کی طرف رجوع کرلیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ اب تک میرا موقف یہ تھا، لیکن میں اب اپنے اس مسئلے میں اپنے شاگرد کے مسلک اور فتوے کی طرف طرف رجوع کرتا ہوں ۔ امام ابو حنیفہ رح کا یہ قول تو اہل علم کے زبان زد ہے کہ *اگر میرا کوئ فقہی مسئلہ حدیث سے متصادم ہو یعنی ٹکڑا رہا ہو، تو حدیث پر عمل کرلو اور میرے مسئلہ کو دیوار سے دے مارو ۔ امام شافعی رح کا یہ قول بھی معروف ہے : میری رائے صحیح ہے،جس میں غلطی کا امکان بہر حال موجود ہے، جب کے دوسرے کی رائے غلط ہے، مگر اس میں صحت کا امکان موجود ہے ۔ ایک اور جگہ وہ فرماتے ہیں :

جب کسی مسئلہ پر میری کسی سے بحث ہوتی ہے تو میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ اس کی زبان سے حق ظاہر کر دے ،تاکہ میں بھی اس حق کی اتباع کروں ۔ (ادب الاختلاف از ڈاکٹر جمال نصار)
امام مالک رح فرمایا کرتے تھے :

میں انسان ہوں ،میری رائے غلط بھی ہوسکتی ہے، لہذا میری رائے کو کتاب و سنت کی کسوٹی میں کسا کرو

امام شافعی رح سے بھی اسی طرح کا قول منقول ہے:
میری رائے کے خلاف اگر صحیح حدیث ہو تو میری رائے کو دیواد پر دے مارو۔ تمہیں راہ چلتے کسی شخص سے مل جائے تو اس پر عمل کرو اور یہ سمجھو یہ میری رائے ہے

امام ابو حنیفہ رح کا یہ حال تھا کہ وہ جب بھی فتویٰ دیتے تو کہتے یہ نعمان کی رائے ہے اور یہ میری جستجو کی حد تک بہتر ہے ،اگر کوئی شخص اس سے زیادہ بہتر رائے مستنبط کرے تو وہ زیادہ صحیح اور درست ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے اسلاف، اکابر اور فقہاء کرام کے اندر حد درجہ علمی و فقہی توسع پایا جاتا تھا اور وہ مسلکی شدت اور تنگ نظری سے کوسوں دور تھے ۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ صرف ان کی فقہی تحقیق و استنباط پر ہی لوگ اعتماد کریں، اسی کو لائق تقلید اور قابل عمل سمجھیں بلکہ اس سلسلے میں ان کے یہاں بے پناہ وسعت ظرفی پائ جاتی تھی وہ دوسرے کے آراء اور استنباط و تحقیق کے نہ صرف قائل اور معترف ہوتے، بلکہ اس سے استفادہ کرتے اور بعض اوقات اس فقہی مسلک پر خود بھی عمل کرتے اور اپنے شاگردوں کواور استفادہ کرنے والوں کو بھی اس کی تلقین کرتے۔
امام شافعی رح ایک بار بغداد آئے ،بغداد میں حضرت امام ابو حنیفہ رح کی قبر ہے ،امام شافعی رح فجر میں سال بھر قنوت نازلہ پڑھنےکے قائل ہیں اور امام ابو حنیفہ رح اس کے قائل نہیں، البتہ ایسے خصوصی مواقع پر قنوت نازلہ کی اجازت دیتے ہیں، جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئی ہو،امام شافعی رح نے آج فجر میں قنوت نازلہ نہیں پڑھی، لوگوں کو حیرت ہوئی اور عرض کیا : آج آپ نے دعاء قنوت نہیں پڑھی؟ فرمایا کہ مجھے اس صاحب قبر سے حیا آتی ہے کہ میں ان کے شہر میں بھی ان کی مخالفت کروں ۔ اختلاف آراء کے باوجود اعتراف و احترام کی یہ ایک انوکھی مثال ہے اور ایسی سینکڑوں اور ہزاروں مثالیں مسلمانوں کی تاریخ میں اور خاص طور پر فقہاء کے یہاں موجود ہیں ۔
خلیفئہ منصور نے ایک مرتبہ حج کے موقع پر امام مالک رح سے کہا کہ: میں چاہتا ہوں کہ مملکت کے تمام شہروں میں آپ کی کتاب (موطا امام مالک) کا ایک ایک نسخہ روانہ کردوں اور تمام لوگوں کو حکم دوں کہ اس پر عمل کریں ۔ اس پر امام مالک رح نے فرمایا کہ امیر المومنین ! خدا را ایسا نہ کیجئے، اس لئے کہ تمام لوگوں تک آثار و روایات (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور تقاریر) پہنچ چکی ہیں اور ہر قوم اور جماعت اپنی مرویات (احادیث و آثار) کے مطابق عمل پیرا ہے ،لوگوں کو اسی حال پر چھوڑ دیجئے۔ (دراسات فی الاختلاف الفقہیہ ص ۹۲/بحوالہ فقہ اسلامی اصول خدمات اور تقاضے ص ۳۲۳)
خلیفہ ہارون رشید کے بارے میں بھی یہ مشہور ہے کہ انہوں نے بھی امام مالک رح سے مشورہ کیا کہ : ،، موطا ،،کو کعبہ میں رکھا جائے اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا جائے۔ امام مالک رح نے کہا: لا تفعل فان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اختلفوا فی الفروع ،و تفرقوا فی البلدان ،و کل سنة مضت قال وفقک اللہ ۔( الانصاف فی بیان سبب الاختلاف ص: ۲۳)
یا ابا عبد اللہ (ہارون رشید کی کنیت) ایسا نہ کیجئے، اس لئے کہ مختلف فروعی مسائل میں اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے درمیان اختلاف ہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم مختلف شہروں میں پھیل گئے ہیں اور ان کے ساتھ تمام حدیثیں پھیل گئی ہیں تو ہارون رشید نے کہا اللہ تعالی نے آپکی صحیح رہنمائی کی ۔
عہد نبوی عہد صحابہ اور بعد کے زمانے میں بھی ہمیشہ آراء کا اختلاف ان کے درمیان رہا ، لیکن کبھی یہ اختلاف نزاع، باہمی کشمکش،کشاکش،فتنہ و فساد اور انتشار و خلفشار کا ذریعہ اور سبب نہ بنا ، بلکہ ایک دوسرے کی عظمت و توقیر مقام و منصب اور مرتبہ کا خیال رکھا اور یہ اختلاف امت کے لئے رحمت اور وسعت ثابت ہوئی،۔

اسی لئے علماء کرام نے لکھا ہے کہ اختلاف بھی زندہ قوم کی علامت ہے اختلاف اپنے دائرے میں اور شرعی حدود میں رہ کر ہو تو مفید، مستحسن اور باعث رحمت ہے ۔ اختلاف ایک ایسا عمل ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے اور شریعت میں یہ مطلوب بھی ہے ۔
ضرورت ہے کہ آداب اختلاف پر جو کتابیں لکھی گئ ہیں ہم ان کا مطالعہ کریں ۔ اسلاف کے یہاں جو فقہی توسع ہے، اس کو پڑھیں اور فروعی مسائل میں اپنے اندر وسعت و لچک پیدا کریں اور اس کو کبھی نزاع اور اختلاف و انتشار کا ذریعہ نہ بننے دیں ۔ اللہ تعالٰی ہمارے اندر فقہی مسائل میں وسعت و اعتدال سے کام لینے کی توفیق بخشے اور امت کو ہر طرح کے اختلاف و انتشار سے محفوظ رکھے ۔ آمین
ناشر / مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button