اہم خبریں

مختصر افسانہ (تم آج بھی بہت یاد آتی ہو…)

تم بہت یاد آتی ہو برسوں بیت گئے ہر شے سے دوری ہو گئی ہر چیز بھولی بسری کہانی بن گئی وقت کے ساتھ ساتھ گاؤں کی ہر گلی کوچے در و دیوار سب کچھ بدل گیے تصور کی دنیا کہتی ہیں کہ میں کبھی اس درمیان میں تھا ہی نہیں!

ہاں مگر وہ ساری باتیں وہ ساری یادیں وہ ساری محبتیں میرے دل کے دریچے میں اب بھی زندہ ہیں کوئی دن اور دن کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا ہے جس میں میرا قلب صرف تیری ایک توجہ کے لیے دھڑکتا نہ ہو!

میری عمر 18 سال کی تھی پہلی بار مدرسہ کی زندگی سے دوچار ہو کر تمہارے شہر میں تشریف لایا تھا مدرسہ والی ہر صفات اور ہر خوبی مجھ میں سمائی ہوئی تھی پاکیزہ زندگی صاف ستھری زندگی فطرتاً اولیاء اللہ کی زندگیوں سے میری زندگی بھی سوفیصد مزین تھی نہ کسی سے باتیں کرنا نہ کسی سے تعلق جوڑنا یہ ساری عادتیں مجھ میں پائی جاتی تھیں جو ایک طالب علم میں ہوتا ہے لیکن دھیرے دھیرے وقت گزرتا گیا اور وہ ساری صفتیں ہم سے ختم ہوتی چلی گئی اور جو نہیں ہونا تھا وہی ہوا زمانے کے حادثات مجھے اپنی لپیٹ میں لینے لگی لیکن پھر بھی میں اپنی عادت پر برقرار رہا

آخر ایک دن ایسا ہوا 26جنوری یا 15 اگست کا جشن اپنے شباب پر تھا گاؤں کے بچے اس خوشی میں شریک ہونے کے لیے بے تاب تھے اس خوشی میں مجھے بھی شریک کیا گیا میں شروع سے ہی لکھنےکا زیادہ شوقین ہوں مجھ سے فرمائش کی گئی کہ وطن عزیز کی آزادی کی خوشی میں شریک ہو کر اپنے اہل وطن ہونے کا ثبوت دیا جائے

چنانچہ مجھے ہندوستان کے نقشے کی ضرورت پڑی اور خدا نے کیا مقدر میں لکھا تھا کہ وہ نقشہ تمہاری کاپی میں چھپی ہوئی تھی میں تمہاری چھوٹی ہمشیرہ سے لانے کی فرمائش کی اور تو نے اس کے جواب میں I love my India لکھ کر بھیج دیا یہاں سے بات شروع ہوئی -لیکن تو نے انکار کر دیا میں نے سمجھا یونہی معصومیت میں فریب ہوا ہے لیکن چند ایام کے بعد تمہاری طرف سے اظہار عشق کا خطوط نمایاں ہوا اور یہاں سے ہم دونوں ایک دوسرے کی تعریفیں بیان کرنے لگے ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے لگےوہ وقت بھی کیا عجیب تھا ایسا لگا افق سے مہ جبیں زمین پر آکر ڈیرہ جمالیا قسمت کے دریچے کھلنے لگے دل کے نہاں خانوں میں ایک شادمانی اپنی لہر سے شعلہ بھڑکانے لگی میں اپنی دنیا تجھ میں تصور کرنے لگا۔

دو جسم ایک قلب ہو گئے جسم کے رگ و ریشے میں مودت و محبت ٹھاٹھیں مارنے لگی ہاں! مجھے یاد ہے تیرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہوگا ایک لمبا عرصہ اس کیفیت میں بسر ہوئی لیکن خدا کو منظور نہیں تھا حاسد کی نظر ہم دونوں پر پڑیں اور پھر وفاکےموتی تسبیح کے دانے کی طرح بکھر گئے شاید کم عمری کی وجہ سے ،اتنا مجھ میں شعور نہیں تھا بہت ساری غلطیاں ہوگئی لیکن اس کا مقصد ہرگز ہرگز یہ نہیں تھاکہ میں نے بے وفائی کی ۔ ہاں میں مانتا ہوں کہ بہت ساری غلطیاں اس لاشعوری میں ہوئی پر اس کا صلہ بے اعتباری سے نہیں دینا تھا

خیر میں نے بڑی ہمت و حوصلہ سے جو ہم دونوں کےوصل کا سبب تھا میں نے اس میں کوئی کسر نہ چھوڑیں جان کو ہتھیلی پر لے آیا ۔اے کاش میں اپنے قلب کو چاک کر کے تجھے اپنے دل کی کیفیت کو بتا سکتا لیکن ایسا کرنے میں، میں ناکام رہا
پھر عرصۂ دراز کے بعد میں نے بڑی دوڑ دھوپ کے بعد اپنی ماضی کو مستقبل سے جوڑنا چاہا مگر اللہ خیر کرے۔

میں جس زبان سے دعائیں سنتا رہا وہی زبان مجھ پر قیامت برپا کر گئی اتنی شدید تکلیف شاید کہ میں نے اپنے دشمنوں سے بھی نہیں پایا تھا۔
ب

الاخر ساری چیزیں بالائے طاق رکھ کر ایک زندان میں قید طوطا کی طرح رٹتا رہا کہ تم آج بھی بہت یاد آتی ہو…..

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button