اردو میں کیریر: چیلنجز اور امکانات :- کامران غنی صبا
کامران غنی صبا
اسسٹنٹ پروفیسر نتیشور کالج مظفرپور
سال2021 رخصت ہو چکا ہے۔ عالمی وبا کورونا کی وجہ سے گزرا ہوا سال جہاں معاشی بحران کا سال بن کر تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے وہیں تعلیمی اعتبار سے بھی سال گزشتہ بہت خسارے میں رہا۔ تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کا سلسلہ متاثر رہا۔ خدا کرے کہ نیا سال طلبہ کے لیے بہتر ثابت ہو۔ ہر چند کہ نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی مختلف ریاستوں میں تعلیمی ادارے ایک بار پھر بند کرنے کے سرکاری احکامات جاری ہونا شروع ہو چکے ہیں.
نئے سال میں داخل ہونے کے ساتھ ہی امتحانات کا سلسلہ بھی شروع ہو رہا ہے۔ فروری میں انٹرمیڈیٹ اور پھر میٹرک کے امتحانات ہونے ہیں۔ ابھی تک امتحانات ملتوی کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے
بورڈ امتحانات کے بعد طلبہ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اپنے کیریر کا انتخاب ہے۔ میرے پاس طالب علموں کے اکثر فون آتے ہیں اور وہ اپنے تعلیمی سفر کو جاری رکھنے کے سلسلہ میں رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے بہت سارے طلبہ اردو میں اپنا کیریر بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کے ذہن میں اس قدر خدشات بھرے ہوتے ہیں کہ وہ میدانِ عمل میں قدم رکھنے سے پہلے ہی شکست تسلیم کر لیتے ہیں۔
اردو کے تعلق سے ایک عام نظریہ یہ ہے کہ اردو پڑھنے والوں کو اچھی ملازمت نہیں مل پاتی ہے ۔میرا تجربہ و مشاہدہ اس کے بالکل برعکس ہے۔میں نے اردو سے تعلیم حاصل کرنے والے کسی باصلاحیت نوجوان کو کبھی بے روزگار نہیں دیکھا ہے۔ یہ بات قابلِ افسوس ضرور ہے لیکن مجھے کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ کالج اور یونیورسٹیوں میں اردو بطور لازمی مضمون پڑھنے والے طلبہ کی اکثریت بحالتِ مجبوری اردو کا انتخاب کرتی ہے۔ ان میں کچھ تو مدارس کے ویسے طلبہ ہوتے ہیں جن کے پاس اردو یا عربی پڑھنے کے سوا دوسرا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ طالبات میں اکثر کے والدین انہیں اس وجہ سے اردو دلواتے ہیں کہ ان کی بچیاں آسانی سے ڈگری حاصل کر لیں گی جس کے بعد رشتہ ڈھونڈنے میں آسانی ہوگی۔ ایسے طلبہ میں کتنے تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انہیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے نصاب میں کون کون سی کتابیں شامل ہیں یا اگر معلوم ہو بھی گیا تو نصابی کتابوں تک ان کی رسائی کورس کی تکمیل تک نہیں ہو پاتی۔ ایسے طلبہ بازار میں چھپے گیس پیپر پڑھ کر ڈگری تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن جب روزگار حاصل کرنے کے لیے انہیں مسابقاتی امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے تو وہ حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کو دیکھ کر یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ اردو پڑھنے والوں کو روزگار نہیں ملتا اور وہ یوں ہی بے کار بیٹھے رہ جاتے ہیں۔ میں نے کئی ایسے طالب علموں کو بھی دیکھا ہے جو امتحان سے ٹھیک ایک دن پہلے گیس پیپر لے کر آتے ہیں کہ اس میں کون کون سے سوالات اہم ہیں، بتا دیے جائیں۔ یعنی وہ گیس میں بھی گیس کروا کر اردو میں اپنا کیریر بنانا چاہتے ہیں۔
- جمعیت علماء اتردیناجپور کا انتخابی عمل
- تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ
- سکشمتا 2.0 میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات
- سکشمتا 2.0 میں پوچھے گئے سوالات
- سکشمتا پریکشا میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات جواب کے ساتھ دیکھیں
حالیہ چند برسوں میں اردو میں روزگار کے مواقع بڑھے ہیں۔ نجی شعبہ میں اخبارات، الکٹرانک میڈیا، اشاعتی اداروں، تعلیمی اداروں میں اردو جاننے والوں کی ضرورت میں اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری سطح پر بھی پہلے کی بہ نسبت اب زیادہ آسامیاں آتی ہیں۔ انٹرنیٹ اور جدید ٹکنالوجی آنے کے بعد اردو ٹائپ رائٹر، اردو ڈیزائنر، ویب ڈیزائنر، کمپیوٹر آپریٹر وغیرہ جیسے نئے روزگار پیدا ہوئے ہیں۔ کمپیوٹر کے ساتھ اردو جاننے والے آپریٹرز ابھی بھی بہت کم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے جانکار کمپیوٹر آپریٹر کے پاس دوردراز کے لوگ بھی اپنا کام لے کر آتے ہیں۔ اخبارات اور اشاعتی اداروں کے دفاتر میں بھی اردو کے جانکار اچھے کمپیوٹر آپریٹرز ہمیشہ تلاش کیے جاتے ہیں۔پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا میں اچھا کیریر بنانے کے لیے بہت سارے ادارے اردو میں صحافت کا کورس بھی کرواتے ہیں۔ صحافت کے شعبہ میں کیریر بنانے کے لیے انٹرمیڈیٹ کے بعد ڈپلوما ان جرنلزم یا گریجوئشن کے بعد ماس میڈیا کا کوئی کورس کیا جا سکتا ہے۔
درس و تدریس کے شعبہ میں بھی اردوکے اچھے اساتذہ کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔درس و تدریس کے شعبہ میں آنے کے لیے انٹرمیڈیٹ کے بعد ڈپلوما ان ایجوکیشن (ڈی ایل ایڈ) یا گریجوئیشن کے بعد بیچلر آف ایجوکیشن(بی ایڈ) کیا جا سکتا ہے۔ ڈی ایل ایڈ یا بی ایڈ کرنے کے بعد آپ کسی اچھے پرائیوٹ اسکول یا ویکنسی آنے پر سرکاری اسکول کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ ہندوستان سے باہر بھی بہت سارے ملکوں میں ’’انڈین اسکول‘‘ قائم ہیں۔ جہاں دوسرے مضامین کے ساتھ اردو کے اساتذہ بھی اچھی تنخواہ پر بحال کیے جاتے ہیں۔ باہر کے ملکوں میں قائم ہندوستانی اسکولوں میں اساتذہ کو قیام و طعام کے علاوہ اور بھی بہت ساری سہولتیں دی جاتی ہیں۔ان اسکولوں کے لیے انٹرویو ہندوستان میں ہی لیا جاتا ہے۔ کچھ اسکول آن لائن انٹرویو بھی لیتے ہیں۔
- جمعیت علماء اتردیناجپور کا انتخابی عمل
- تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ
- سکشمتا 2.0 میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات
- سکشمتا 2.0 میں پوچھے گئے سوالات
- سکشمتا پریکشا میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات جواب کے ساتھ دیکھیں
گریجوئیشن کے بعد اگر آپ نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کر لیا اور نیٹ امتحان میں کامیابی حاصل کرلی تو آپ کالج اور یونیورسٹی کے استاد بننے کے اہل ہو جاتے ہیں۔لیکن یہاں تک پہنچنے کے لیے بہت ہی صبر و ضبط اور جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔اس لیے میرا مشورہ عام طور سے یہی ہوتا ہے کہ گریجوئیشن کرنے کے بعد بی ایڈ کر کے اسکول کی ملازمت حاصل کر لینی چاہیے ۔ یہ راستہ محفوظ ہے اور آسان بھی۔ ورنہ بہت سارے لوگ گریجوئیشن کرنے کے بعد ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے میں کئی سال لگا دیتے ہیں اور اتنے برسوں تک ملازمت نہیں ملنے کی وجہ سے احساس کمتری اور ذہنی کشمکش کا شکار ہوتے ہیں۔
اردو پڑھ کر اچھی ملازمت حاصل کرنا پہلے کی بہ نسبت آسان ہوا ہے۔ اردو میں روزگار کے مواقع پہلے سے کہیں زیادہ بڑھے ہیں ۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم کامیابی کا ’’شارٹ کٹ‘‘نسخہ ڈھونڈنے کی بجائے محنت اور مطالعہ کی عادت ڈالیں۔ ہمیشہ اپنے سامنے بڑا ہدف رکھیں لیکن ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے اہداف بھی حاصل کرتے جائیں۔ ان شاء اللہ کامیابی مقدر ہوگی۔