سمستی پور

نفرت گناہ سے کرو گناہ گار سے نہیں:فلک حیدر



حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائ کو ایسے گناہ پر عار دلاۓ اور اس گناہ کا طعنہ دے جس گناہ سے وہ توبہ کر چکا ہے تو یہ طعنہ دینے والا شخص اس وقت تک نہی مرے گا جب تک وہ خود اس گناہ کے اندر مبتلا نہیں ہوجائے گا ۔مثلا ایک شخص کے بارے میں آپ کو پتہ چل گیا کہ یہ فلاں گناہ کے اندر مبتلا تھا یا مبتلاہواآپ کو یہ بھی پتا ہے کہ اس نے توبہ بھی کرلی ہے تو جس گناہ سے وہ توبہ کر چکا ہے اس گناہ کی وجہ سے اسکو حقیر سمجھنا یا اس کو شرم دلانا یا اسکو طعنہ دینا کہ تم فلاں شخص ہو اور فلاں حرکت کیا کرتے تھے ایسا طعنہ دینا خود گناہ کی بات ہے اسلیۓ کہ جب اس شخص نے توبہ کے ذریعہ اللہ سے اپنا معاملہ صاف کرایا اور توبہ کرنے سے گناہ صرف معاف نہیں ہوتا بلکہ نامہ اعمال سے وہ گناہ مٹا دیا جاتا ہے تو اب اللہ تعالی نے تو اس کا گناہ نامہ اعمال سے مٹادیا لیکن تم اسکو اس گناہ کی وجہ سے ح‍قیر اور ذلیل سمجھ رہے ہو یا اسکو طعنہ دے رہے ہو اور اس کو برا بھلا کہرہے ہو یہ عمل اللہ تعالی کو بہت سخت نا گوار ہے ۔یہ تو اس شخص کے بارے میں ہے جس کے بارے میں آپ کو معلوم ہے کہ اس نے گناہ سے توبہ کرلی اور اگر پتہ نہیں ہے کہ اس نے توبہ کرلی ہے یا نہیں لیکن ایک مؤمن کے بارے میں یقین تو ہے کہ اس نے توبہ کرلی ہوگی یا آئندہ توبہ کرلے گااس لیۓ اگر کسی نے گناہ کرلیا اور آپ کو توبہ کر نے کا علم بھی نہی ہے تب بھی اسکو حقیر سمجھنے کا کوئی حق نہیں ہے کیا پتہ کہ اس نے توبہ کرلی ہو یاد رکھیۓنفرت گناہ سے ہونی چاھیۓ گناہ گار سے نہیں نفرت معصیت اور نافرمانی سے ہے ،لیکن جس شخص نے گناہ اور نافرمانی کی ہے اس سے نفرت کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں سکھایا -بلکہ وہ گناہ گار ترس کھانے اور رحم کے قابل ہے کہ وہ بیچارہ ایک بیماری کے اندر مبتلا ہے جیسے کوئی شخص کوئی بیماری کے اندر مبتلاہو تو اب اس شخص کی بیماری سے تو نفرت ہوگی لیکن کیا اس بیمار سے نفرت کروگے کہ چونکہ یہ شخص بیمار ہے اسلیۓ نفرت کے قابل ہے ظاہر ہے بیمار کی ذات قابل نفرت نہیں بلکہ اس کی بیماری سے نفرت کرو اس کو اس گناہ سے دور کرنے کی فکر کرو اس کے لیۓ دعا کرو لیکن بیمار نفرت کے لائق نہیں وہ تو ترس کھانے کے لائق ہے کہ یہ بیچارہ اللہ کا بندہ کس مصیبت کے اندر مبتلا ہو گیا ۔حتی کہ اگر کوئ شخص کافر ہے تو اس کے کفر سے نفرت کرو اسکی ذات سے نفرت مت کرو بلکہ اس کے حق میں دعا کرو کہ اللہ تعالی اسکو ہدایت عطا فرماۓنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کتنی تکالیف پہنچایا کرتے تھے آپ پر تیر اندازی ہو رہی ہے پتھر بر ساۓ جارہے ہیں آپ کے جسم کے کئ حصے خون سے لہو لہان ہو رہے ہیں اسکے باوجود اس وقت زبان پر جو کلمات آۓ وہ یہ کہ اے اللہ میری قوم کو ہدایت عطا فرما کہ انکو حقیقت کا پتاہی نہی یہ دیکھیۓ کہ انھیں گناہ معصیت کفرشرک ظلم اور زیادتی کے باوجود ان سے نفرت کا اظہار نہیں فرمایا -بلکہ شفقت کا اظہار فرماتے ہوۓ یہ فرما یا کہ یا اللہ یہ نا واقف لوگ ہیں -انکو حقیقت حال کا پتہ ہی نہی ہے اسلیۓ یہ لوگ میرے ساتھ ایسا برتاؤ کر رہے ہیں اے اللہ ان کو ہدایت عطا فرما لہٰذا جب کسی کو گناہ میں مبتلا دیکھو تو اس پر ترس کھاؤ اور اس کے لیۓ دعا کرو کہ وہ اس گناہ سے بچ جاۓ اسکو دعوت وتبلیع کرو لیکن اسکو حقیر نہ جانو کیا پتہ اللہ تعالی اسکو توبہ کی توفیق دیدیں اور پھر وہ تم سے بھی آگے نکل جاٸے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب تم دیکھو کہ تمہارے بھائی سے کوئی گناہ صادر ہوگیا ہے تو اس کے خلاف شیطان کے مدد گار نہ بن جاﺅ یعنی یہ دعائیں کرنے لگو کہ اللہ اسے رسواء کر دے ، اے اللہ اس پر لعنت بھیج بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس کے لیئے اور اپنے لیئے عافیت مانگو گے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کسی شخص کے بارے میں اس وقت تک کوئی بات نہیں کہتے تھے جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہوجاتا کہ اس کی موت کس حالت پر ہوئی اگر اس کا خاتمہ باالخیر ہوتا تو ہم یقین کرلیتے کہ اس سے بڑی خیر حاصل ہوئی ہے اوراگراس کا خاتمہ برا ہوتا توہم اس کے بارے میں خوف زدہ رہتے تھے ۔ حضرت بریدہ اسلم رضی اللہ عنہ کے بیٹے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو برابھلا کہنا شروع کیا آپ نے فرمایا تم مجھے برابھلا کہتے ہو حالانکہ مجھ میں تین عمدہ صفات پائی جاتی ہیں پہلی یہ کہ جب میں قرآن پاک کی کسی آیت کی تلاوت کرتا ہوں تو میرا دل یہ چاہتا ہے کہ اس آیت کے بارے میں جو کچھ مجھے معلوم ہے وہ تمام لوگوں کو معلوم ہوجائے دوسری یہ کہ جب میں مسلمانوں کے کسی حاکم کے بارے میں سنتا ہوں کہ وہ برا انصاف فیصلے کرتا تو اس سے مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے حالانکہ ہوسکتا ہے کہ کبھی مجھے بھی اپنا مقدمہ فیصلے کے لیئے اس کے پاس لے جانا پڑے اورتیسری یہ کہ جب میں یہ سنتا ہوں کہ مسلمانوں کے فلاں علاقے میں بارانِ رحمت نازل ہوئی ہے تو مجھے اس سے بڑی خوشی ہوتی ہے حالانکہ اس علاقے میں میرا کوئی چرنے والا جانور نہیں ہوتا ۔
حدیث میں ہے ایک مؤمن دوسرے مؤمن کا آئنہ ہے ۔
اگر آدمی کے چہرے پر کوئی داغ دھبہ لگ جائے اور وہ آدمی جاکر آیئنے کے سامنے کھڑا ہوجائے تو وہ آئنہ بتادیتا ہے کہ تمہارے چہرے پر یہ داغ لگا ہوا ہے گویا آیئنہ انسان کے عیب بیان کردیتا ہے اسی طرح ایک مؤ من بھی دوسرے مؤمن کا آیئنہ ہے یعنی جب ایک مؤمن کے اندر کوئی عیب دیکھے تو اسکو پیار سے محبت سے بتا دے کہ یہ عیب تمہارے اندر موجود ہے اسکو دور کرلو جیسے اگر کسی انسان کے جسم پر کوئی کیڑا یا چینٹی چل رہی ہو اور آپ اس کے اور آپ اس کیڑے کو اس کے جسم پر چلتا ہوا دیکھ رہے ہوں تو تو محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ تم اس کو بتادو کہ دیکھو بھائی تمہارے جسم پر کیڑا چل رہا ہے ، اس کو دور کرلو – اسی طرح اگر کسی مسلمان بھائی کے اندر کوئی دینی خرابی ہے تو پیار ومحبت سے اس کو بتا دینا چاہیئے کہ تمہارے اندر یہ خرابی ہے اس لیئے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آیئنہ ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ھے فرما دیجئے اے میرے بندو جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھےھوتمہیں اللہ کی رحمت سے کسی حال میں مایوس نہیں ہونا ھے
،اس آیتہ کریمہ میں اللہ رب العزت نے فرمایا کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلّم میرا یہ پیغام میرے بندوں تک پہنچا دیجئے۔ یہ پیغام کیا ہے اور کن بندوں کے نام دیا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوا کہ آپ فرما دیجئے ۔اے میرے بندو جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں،غور کیجئے خطاب ان لوگوں سے نہیں جوپرہیزگارپارسا اور متقی ہیں بات ان کی نہیں ہو رہی جو تقوٰی ، صالحیت اور علم و عمل کی بناء پر بلند درجہ رکھتے ہیں بلکہ ان گنہگاروں اور خطا کاروں کی بات ہو رہی ہے جو نفس یا شیطان کے بہکاوے میں آ کر یا کسی بھی محبوری یا سبب سے اللہ کے حکم سے سرتابی اور نافرمانی کے مرتکب ہوگئے اور ان سے دانستہ یا نادانستہ غلطیاں اور خطائیں سرزد ہوگئیں۔ گویا اللہ کی نگاہ کرم ان لوگوں کی طرف اٹھی ہے جو مجرم ہیں اور ان کے شب و روز معصیت اور نافرمانی میں بسر ہوتے ہیں۔ اللہ سے ان کا تعلق ٹوٹ گیا یا کمزور پڑگیا ہے۔ کتنے لطف کا مقام ہے کہ اللہ تعالی کو اپنے وہ بندے یاد آرہے ہیں جو اسے بھول گئے اور اس کے راستے سے دور ہٹ گئے لیکن وہ اپنے ان گم کردہ راہ بندوں سے بے خبر نہیں ہے۔ اللہ اپنے محبوب کے توسط سے انہیں اپنا پیغام پہنچا رہا ہے اس لئے کہ جو نیکوکار اور پرہیزگار ہیں انہیں تو ہر وقت پیغام پہنچتا ہی رہتا ہے۔میرے گنہگار بندوکی بجائے صرف گنہگار بندو کہہ دیا جاتا تو کیا فرق پڑتااس کا فرق جاننے کے لئے یہ نکتہ سمجھ لیں کہ اگر صرف گنہگار بندوسے خطاب کا آغاز ہوتا تو وہ گنہگار بندے تو بارِگناہ سے پہلے ہی لرزہ بر اندام اور دبے ہوئے تھے، انہیں کیا خبر تھی کہ پروردگار کیا کہنا چاہتا ہے۔ ممکن تھا کہ وہ یہ بات سن کر ڈر جاتے اور اندیشہ ہائے دور دراز میں ہلکان ہو جاتے کہ ان کا رب انہیں کوئی ایسا حکم دینا چاہتا ہے جس میں کوئی سزا اور اس کی رحمت سے دوری کی وعید ہے۔ پریشان، مایوس اور شکستہ دل تو پہلے ہی سے تھے اور اب اگر یہ خطاب ان کے کانوں میں پڑ جاتا تو خدا جانے ان پر مزید کیا گزرتی۔ وہ اور بھی دل گرفتہ ہو جاتے اور اس سوچ میں پڑ جاتے کہ شاید کوتاہیوں اور خطاؤں پر ان کی گرفت ہونے والی ہے۔ لیکن اس خطاب میں جو اپنائیت اور چاہت کا انداز ہے اس نے ان ڈھارس بندھا دی ہے۔ اللہ کی ذات رحیم اپنے محبوب سے کہہ رہی ہے کہ میں اپنے بندوں کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنا اور ان دکھیاروں کو راحت اور آسودگی سے نوازنا چاہتا ہوں وہ جو گناہ کرکے مایوسی کے عالم میں میری بارگاہ سے دور بھاگے جا رہے ہیں میں انہیں مژدہ سناٶں,اے محبوب مکرم تو انہیں میرے بندے کہہ کر پکار اور میری طرف بلا۔ اس لئے کہ جب وہ یہ پکار اور بلاوا سنیں گے تو ان کی وحشت دل اسی وقت دور ہو جائے گی اور وہ کھچے ہوئے میری بارگاہ ناز میں چلے آئیں گے۔ محبوبِ حقیقی اپنی زبان سے کسی کو میراکہہ کر پکارے تو چاہے وہ کتنا ہی سیاہ کار اور خطا کوش کیوں نہ ہو اس کی مایوسیوں کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور پریشانیوں کی پرچھائیاں دور ہو جاتی ہیں۔ اللہ رب العزت ھم کوگوں کو قرآن واحادیث کی روشنی میں زندگی بسرکرنے کی توفیق عطافرماۓ

حافظہ فلک حیدر بنت محمد حیدر سمستی پور (بہار)

درج

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button