فکر و نظر / مضامین و مقالات

ہندوستان میں فرقہ وارانہ سیاست و فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں مولانا آزاد ؒ کی میراث

محمد عامل ذاکر مفتاحی متعلم : دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ و تحریک فلاح ملت ممبئی

امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ان نوابغ روزگار اور ستودہ صفات شخصیات میں سے ایک ہیں جو افق تاریخ پر آج بھی اپنے بے مثال کارناموں کی بدولت ضیابار ہیں ، جس کے جلوؤں کی شعاؤوں میں آج بھی گم گشتہ مسافروں کے لئے نشان منزل آشکار و نمایاں ہے ، خاک وطن آج بھی جسکی بے لوث قربانیوں کی خوشبو سے معمور ہے ۔

وہ ایک طرف اگر علم و فضل ، دین وافکار ،فلسفہ و حکمت ، شعر و نغمہ اور تصنیف و تالیف میں فرد فرید تھے تو دوسری طرف خطابت ، صحافت اور سیاست میں یکتائے زمانہ تھے ، جن کے انداز خطابت پر فن خطابت خود نازاں ، جن کی صحافت نے ”الہلال ” اور ”البلاغ” جیسے عظیم ادبی اخبارات کی اشاعت کے ذریعے اردو صحافت کو ایک نئی سمت عطاء کی اور سیاسی تدبر ایسا کہ پنڈٹ نہرو اور مہاتما گاندھی جیسے بڑے سیاسی رہنمائو ں نے بھی انھیں اپنا مشیر کار تسلیم کیا اور مختلف ملی و سماجی موقعوں پران کی سیاسی بصیرت سے مستفید بھی ہوتے رہے۔
مولانا آزاد کو رب کائنات نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا ، وہ بے باک خطیب تھے تو جرأت مند صحافی بھی ، ان کی زبان میں حلاوت و شیرینی تھی تو تحریروں میں دریا کی سی روانی ۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ جو شخص بلا کسی اسباب و مواد کے محض قلم و دوات لے کر ایک شب و روز میں پورا ایک رسالہ لکھدے اور جو جیل کی آہنی سلاخوں میں مقید ہو کر قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے ذخیرئہ کتب کی عدم فراہمی کے با وجود محض اپنی خدا داد صلاحیتوں اور حافظے کو قلم کے ذریعے صفحئہ قرطاس کی زینت بناتا جائے اور دنیائے ادب کو ”غبار خاطر”جیسی شاہکار تصنیف عطاء کردے ، جو خصوصا فن مکتوب نگاری اور اور عمومی طور پر پوری اردو آبادی کے لیے سرمایٔہ افتخار بن جائے ، جس کا تحریری معیار اس قدر بلند ہو کہ اس کی قلم برداشتہ تحریریں بھی دوسروںکی برسوں کی محنت و جاں کاہی کے عوض وجود میں آنے والی تحریروں پر بھاری پڑجائے ، ایسی شخصیتیں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

مولانا آزاد کی ولادت ١٣٠٥ھ مطابق١٨٨٨ء میں ہوئی ۔ مولانا آزاد کی تین بہنیں اور ایک بھائی تھے ، مولانا اپنے والدین کے آخری اولاد تھے ، انکے والد نہایت قدیم الخیال تھے ، مولانا آزاد سولہ سال کی عمر میں درس نظامی سے فارغ ہو گئے اور خود درس دینے لگے ۔١٩٠٣ میں چودہ پندرہ برس کی عمر میں زلیخا بیگم سے عقد ہو گیا ۔
مولانا آزاد کو صحافت سے بے پناہ شغف تھا ، ١٨٩٩ء میں ایک گل دستہ نیرنگِ عالم کا اجراء کیا ، وہ شعر بھی کہتے تھے ، انکی پہلی غزل ایک گل دستے ارمغانِ فرخ (ممبئی) میں چھپی تھی ، ١٩٠٢ میں احسن الاخبار (کلکتہ) مرقع عالم (ہردوئی) تحفہ احمدیہ (کلکتہ) میں شائع ہوئے ۔
نومبر ١٩٠٣ میں انہوں نے لسان الصدق کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا ، جو ١٩٠٥ میں بند ہوا ، اسی زمانہ میں انہوں نے سر سیّد کی کتابوں کا مطالعہ کیا اور ان سے بہت متاثر ہوئے۔
١٩٠٥ میں گورنر جنرل ہند لارڈ کرزن نے بنگال کی تقسیم کا اعلان کیا ، اس سے اس کا مقصد بنگال سے اٹھنے والی تحریک آزادی کو کچلنا تھا ، انگریزوں کی اس حکمت عملی نے ہندو مسلمانوں کے درمیان خلیج حائل کر دی ، مولانا آزاد اس خلیج کو پاٹنا چاہتے تھے ، اس مقصد کے انہوں نے بنگال کے ہندو انقلابیوں ، شیام سندر چکرورتی اور آربندوگوش سے رابطہ قائم کیا ، تاکہ ان کے دل میں مسلمانوں کے خلاف جو غلط فہمیاں تھیں اسے رفع کر سکیں ۔
جولائی ١٩١٢ء میں کلکتہ سے ہفتہ واری الہلال جاری کیا ، یہ مولانا کی زندگی میں ایک نئے دور کا آغاز ہے ، الہلال میں ایک طرف مولانا آزاد نے مسلمانوں کو صحیح تعلیماتِ اسلامی سے آشنا کیا تو دوسری طرف ان میں جزبہ حریت کی آبیاری کی ،
اس کا اہم مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنا تھا ۔ الہلال مسلمانوں کی ملی غیرت ، ایمانی حرارت اورمذہبی حمیت کا بڑا محاذ بن گیا ۔ الہلال میں ادبی ، علمی ، سیاسی اور تاریخی مضامین شائع ہوتے تھے ۔ سماجی و تہذیبی مسائل پر اظہار خیال ہوتا ۔ مختصراً یہ کہ الہلال نے اردو صحافت کو نیا راستہ دکھایا ۔ الہلال ہندوستان کا پہلا اخبار تھا جس نے ہندوستانی مسلمانوں کو ان کے سیاسی و غیر سیاسی مقاصد کی تکمیل اور اپنے اعمال میں اتباع شریعت کی تلقین کے ساتھ ساتھ ادبی ، علمی ، سیاسی اور تاریخی مضامین بھی شائع ہوتے تھے ۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ حکومت برطانیہ کے عتاب کا شکار بنا ، اور الہلال پریس کو بند ہوگیا ۔ ١٩١٥ میں مولانا آزاد نے کلکتہ میں دارلارشاد کی بنیاد رکھی اور قرآن کا درس شروع کیا، اسی سال نومبر میں کلکتہ سے مولانا نے ہفتہ وار البلاغ کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیا۔ جس میں ادب ، تاریخ ، مذہب اور معاشرت کے مسائل بیان کئے جاتے تھے ، یہ اخبار بھی مارچ ١٩١٦ میں بند ہوگیا ، اس کا رنگ مذہبی زیادہ تھا ، سیاسی کم ۔
مولانا آزاد کلکتہ سے اپریل ١٩١٦ء میں صوبہ بہار کے مقام رانچی کو منتقل ہوگئے ، وہاں انھیں مورابادی میں نظر بند کر دیا گیا ۔ کچھ مدت کے بعد وہ وہاں سے جامع مسجد کے قریب ایک مکان‌ میں منتقل ہو گئے ، وہاں کے دوران قیام انہوں نے ایک مدرسہ قائم کیا اور درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا ، اور ایک انجمن کی بنیاد بھی ڈالی اور اس کا نام انجمن اسلامیہ رانچی رکھا ۔

رانچی کی نظر بندی کے دوران مولانا آزاد نے اپنے اجداد بالخصوص مولانا جمال الدین کے حالات میں اپنی مشہور تصنیف تذکرہ لکھی ، جس کے آخرمیں مختصراً اپنے حالات کا اضافہ کیا ۔ یکم جنوری ١٩٢٠ میں مولانا آزاد کو رانچی سے رہائی ملی ، اسی سال دہلی میں گاندھی جی سے مولانا آزاد کی پہلی ملاقات ہوئی ،اسے کے بعد مولانا ملک کی تحریک آزادی میں گاندھی جی کی قیادت میں باقاعدہ شریک ہو گئے اور انڈین نیشنل کانگریس کی رکنیت قبول کر لی ۔

سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ مولانا آزاد کی صحافتی خدمات بھی جاری رہیں ، انہوں نے ١٩٢١ میں مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کی ادارت میں کلکتہ سے ایک ہفتہ وار اخبار پیغام جاری کیا ، یہ اخبار تین ماہ سے زیادہ جاری نہیں رہ سکا اور دسمبر میں بند ہوگیا‌ ۔ اس کے بند ہونے سے قبل مولانا آزاد اور مولانا ملیح آبادی دونوں کو گرفتار کر کے محبوس کر دیا گیا تھا ۔
1916ء سے 1942ء تک مولانا آزاد آزادیِ ہند کے مختلف تحریکوں کے سلسلے میں چھ مرتبہ گرفتار اور نظر بند یا محبوس ہوئے اور کل ملا کر ١٠ برس سات ماہ قید و بند میں رہے ۔

١٩٣٣ء میں مولانا آزاد کانگریس کے خصوصی اجلاس منعقدہ دہلی کے صدر منتخب ہوئے ، اس وقت کانگریس دو دھڑوں میں بٹ گئی تھی ، مولانا آزاد نے اپنے خطبہ صدارت میں تجویز پیش کی کہ دونوں دھڑوں کو اپنی اپنی صواب دید کے مطابق کام کرنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے ، بشرطیکہ دونوں کا مطمح نظر حصول آزادی ہو ، مولانا آزاد کی یہ تجویز مان لی گئی اور اس پر فیصلہ ہو گیا ، اپنے اس خطبہ صدارت میں انہوں نے ہندو مسلم اتحاد پر بھی نہایت بلیغ انداز میں زور دیا تھا ۔

١٩٣٠ء میں مولانا آزاد کچھ عرصے تک کانگریس کے قائم مقام صدر رہے ۔

1940ء میں مولانا آزاد کانگریس کے صدر منتخب ہوئے ۔
چنانچہ مولانا آزاد ہمیشہ قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا خواب دیکھتے رہتے تھے ، کانگریس کا ٥٣ واں اجلاس رام گڑھ میں ہوا تھا ، مولانا نے اسکی صدارت کی تھی اور اپنے خطبہ صدارت میں کہا تھا :
"ہماری گیارہ صدیوں کی مشترکہ تاریخ نے ہماری ہندستانی زندگی کے تمام گوشوں کو اپنی تعمیر سامانیوں سے بھر دیا ہے ۔ ہماری زبانیں ، ہماری شاعری ، ہمارا ادب ، ہماری معاشرت ، ہمارا ذوق ، ہمارا لباس ، ہمارے رسم و رواج ، ہماری روزآنہ کی زندگی کی بے شمار حقیقتیں ، کوئی بھی گوشہ ایسا‌ نہیں جس پر اس مشترک زندگی کی چھاپ نہ لگی ہو ، ہماری بولیاں الگ الگ تھی ، مگر ہم ایک زبان بولنے لگے ، ہمارے رسم و رواج ایک دوسرے سے بیگانہ تھے مگر انہوں نے مل جل کر ایک نیا سانچہ پیدا‌ کیا ، ہمارا پرانا لباس تاریخ کی پرانی تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے مگر اب وہ ہمارے جسموں پر نہیں مل سکتا ‌۔ یہ سب مشترک سرمایہ ہماری متحدہ قوم کی ایک دولت ہے اور ہم اسے چھوڑ کر اس زمانے کی طرف لوٹنا نہیں چاہتے جب ہماری یہ ملی جھلی زندگی شروع نہیں ہوئی تھی ۔ ہم‌ میں اگر ایسے ہندو ہیں جو چاہتے ہیں کہ ایک ہزار برس قبل کی ہندو زندگی واپس لائیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ایک خواب دیکھ رہے ہیں اور وہ کبھی پورا نہیں ہونے والا ۔ اسی طرح اگر ایسے مسلمان دماغ ہیں ، جو چاہتے ہیں کہ اپنی گزری ہوئی تہذیب و معاشرت کو پھر تازہ کریں جو وہ ایک ہزار برس قبل ایران اور وسط ایشیا سے لائے تھے تو میں ان سے کہوں گا کہ وہ اس خواب سے جلد بیدار ہو جائیں تو بہتر ہے کیونکہ یہ ایک غیر قدرتی تخیل ہے اور حقیقت کی سرزمین میں ایسے خیالات جنم لے نہیں سکتے ۔”
مولانا آزاد ؒ آزادی سے قبل و بعد ہمیشہ اپنے خطبہ میں ہندو اور مسلم فرقہ پرستی کی طاقتوں کو للکارا اور ہندستان کی متحدہ قومیت اور مشترکہ تہذیب کی تصدیق کی ۔ مولانا آزاد ایک مذہبی انسان تھے لیکن ان میں قدر مشترک تھی انسانی دوست اور سیکولرازم ۔ ان کے دل ہر قسم کے تعصب سے پاک تھے ، قومی ایکتا اور ہندستان کی مختلف مذہبی، نسلی، لسانی اور علاقائی فرقوں کے درمیان اتحاد و ہم آہنگی کو وہ ملک کے خوشحال مستقبل کے لئے ضروری سمجھتے تھے ۔ بعض فرقہ پرستوں نے مولانا آزاد کو اپنی گندی سازشوں کا نشانہ بنایا ، ان کو برا بھلا کہا لیکن مولانا نے فرقہ پرستوں اور ظلمت پسندوں کی مخالفت کا‌اثر کبھی قبول نہیں کیا ، منزل پر نظر جمائے رکھے اور اپنے راستے پر چلتے رہے ۔

ایک جگہ مولانا‌ نے لکھا‌ ہے : ہندوستان کے لئے قدرت کا "یہ فیصلہ ہو چکا‌ تھا کہ اس کی سر زمین انسان کے مختلف نسلوں، مختلف تہذیبوں اور مختلف مذہبوں کے قافلوں کی منزل بنے ” ۔
مولانا کو اس پر یقین کامل تھا کہ قدرت کے اس اٹل فیصلہ کو فرقہ پرست اور دوسری رجعت پسند طاقتیں بدل نہیں سکتی ۔ مولانا نے ہمیشہ سیکولرازم فرقہ وارانہ ہم آہنگ کی طاقتوں کا ساتھ دیا ۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایسے عناصر کی کمی اس وقت تھی نہ آج ہے جو مذہب اور کلچر کے نام‌ پر منافرت پیدا کرتے ہیں ، یہ تنگ نظری ہمارے دستور اساسی کی نفی کرتی ہے۔ مولانا آزاد نے ہمیشہ اس تنگ نظری کی مزمت کی اور‌ملک کے لئے اس کے خوف ناک نتائج کی طرف اپنی تحریروں اور تقریروں میں بار بار اشارہ کیے ۔

میں مسلمان ہوں کہ ور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں ۔ اسلام‌ کی تیرہ سو سال کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہے ۔ میں تیار نہیں کہ اس چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں ۔ اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں ۔ بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دایرے میں ایک خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کر سکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے ۔ لیکن‌ ان تمام احساسات کے ساتھ ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں ۔ اسلام کی روص مجھے اس سے روکتی نہیں ۔ وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے ۔ میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندستانی ہوں ۔ میں ہندستان کی ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا عنصر ہوں جس کے بغیر اسکی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے ۔ میں اس تکون کا ایک ناگزیر عامل ہوں ۔ میں اپنے اس دعوے سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتا ہوں ” ۔ اور یہ حقیقت ہے کہ وہ اپنے اس دعوے سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے ‌۔

مولانا کا خیال تھا کہ تقسیم سے ملک کو صدمہ پہنچنے کے علاوہ اس کے باشندوں کے سر پر ایسی قیامت آئے گی جس کا اس وقت کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ لاکھوں کروڑوں آدمیوں کے گھر اور جائیداد تباہ ہو جائے گی ، تجارت اور کاروبار تہس نہس ہوجائے گا ۔ اور وہی ہوا بھی ۔ تقسیم کے کڑوروں اشخاص بے گھر ہوئے ، جان و مال ، عزت و آبرو برباد ہوئی ، ہر طرف خوں ریزی ، سفاکی اور قتل و غارتگری کا بازار گرم ہوا ، علاقائیت ، رنگ و نسل اور زبان کے جو جھگڑے اٹھ کھڑے ہوئے وہ تقسیم در تقسیم کا باعث بنے ۔ مولانا کے نزدیک تقسیم ایک جانکاہ حادثہ تھا جس کے لئے وہ نہ کبھی راضی ہوئے اور نہ اس معاملے میں کوئی سمجھوتا کیا ، لیکن جب خود کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے بھی یہ تجویز منظور کر لی تو مولانا کو جو شدید اذیت پہنچی اس کا اظہار انہوں نے نہایت درد و کرب کی ساتھ انڈیا ونس فریڈم میں کیا ہے ۔

چنانچہ مولانا آزاد نے قومی مفادات کے لئے فرقہ وارانہ سیاست کرنے والوں کی مخالفت کی ، فرقہ وارانہ سیاست نہ ہو، تو بڑی بڑی انسانی آبادیاں امن وسکون کی دولت سے مالا مال رہتی ہیں، ملک کے اندر بھی خطرات کا ماحول ختم ہوجاتا ہے،اور بیرونی خطرات کے بادل بھی ہمیشہ سروں پر نہیں منڈلاتے ہیں۔
مولانا ہمیشہ اسی بات کہ قائل رہے ہیں کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہرملک اور ہر قوم، بلکہ ہرانسان کی بنیادی ضرورت ہے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بغیر کوئی ملک پرامن، اور پرسکون نہیں ہوسکتا، وہ خوش حال اور فارغ البال نہیں ہوسکتا، وہ صحیح معنوں میں ترقی وتمدن کی بلندیاں نہیں چھوسکتا۔
اور جو ملک کی حالت ہوگی ، وہی اس ملک کے باشندوں کی حالت ہوگی، اس لیے کہ ملک نام ہی ہے اس ملک میں رہنے والے افراد کا۔

فرقہ وارانہ ہم آہنگی نہ ہو تو ترقی کے تمام امکانات، اور تمدن کے تمام وسائل کے ہوتے ہوئے بھی ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے، اور سست رفتاری کے ساتھ جو ترقی ہوتی بھی ہے،اس میں پائیداری نہیں ہوتی۔اس لیے کہ اس ترقی میں پورے ملک کے ہاتھ، اور ان کے مشورے شامل نہیں ہوتے،اس ترقی سے تمام اہل ملک کی دلچسپیاں وابستہ نہیں ہوتیں!
ایسی صورت میں نہ صرف ترقی کی رفتار سست ہوتی ہے،بلکہ جو کچھ ترقی ہوئی ہوتی ہے،اس ترقی کے اونچے اونچے محل کب ڈھل جائیں،اور کب زمیں بوس ہوجائیں ، یہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا ۔

فرقہ وارانہ ہم آہنگی نہ ہو تو خوش حالی کا دائرہ انتہائی تنگ ہوتا ہے، سارے ملک کی دولت ، اور دولت کے تمام سرچشمے بس حکمراں قوم، یا حکمراں پارٹی کے ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جاتے ہیں، ملک کی بھاری تعداد ، بلکہ عظیم اکثریت اِک اِک نوالے کو ترستی ہے ۔ خوش حالی کی گنگا سے بس کچھ ہی لوگوں کے حوض بھر پاتے، اور کچھ ہی لوگوں کے کھیت سیراب ہوپاتے ہیں، عام لوگوں کو اس سے سیراب ہونا نصیب نہیں ہوتا ۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندو مسلم اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بارے میں مولانا کے ان احسانات کی معنویت آج بھی نہ صرف پوری طرح قائم و باقی ہے بلکہ پہلے سے زیادہ اہم‌ اور ضروری ہو گئی ہے ۔ ملک میں اختلاف و انتشار کا جو ماحول بن رہا ہے اور فرقہ واریت جو بال و پر نکال رہی ہے وہ ہمیں تفریق غلامی کی طرف لے جا رہا ہے اس کو ختم کرنے کے لئے مولانا کے بتائے ہوئے اصول و خطوط کی روشنی میں ملک کی تعمیر و ترقی کا نیا نقشہ بنانے کی ضرورت ہے ورنہ ملک تباہ ہو جائے گا اور اسکی سیاسی آزادی بھی باقی ہیں رہے گی ۔

افسوس صد افسوس کہ ملک کا‌ معیار و مزاق روزبروز پست ہوتا جا رہا ہے ، اخلاق و روحانیت کا‌ تصور ہی مٹ گیا‌ ہے ، عوام میں سیاسی شعور، پختگی ، بالغ نظری اور نفع و نقصان پہچان نہیں ہے اور سیاست دانوں اور لیڈروں کو ملک کی لوٹ کھسوٹ کا چسکا لگ گیا ہے ، وہ عہدہ، اقتدار اور وزارتوں کی لالچ میں ہر بے اصولی و بدعنوانی کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ‌۔ ان حالات میں خدا جانے آزاد ہندوستان کا وہ خواب کب‌ شرمندہ تعبیر ہوگا جسے مولانا آزاد نے دیکھا تھا ۔۔

مولانا آزاد کی روح اپنے ہم وطنوں اور خصوصاً ہم مذہبوں کو یہ پیام دے رہی ہے ۔ اٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button