ہارٹ اٹیک کے بڑھتے واقعات:معروضی ، پس معروضی مطالعہ
تحریر :- کامران غنی صبا، صدر شعبۂ اردو نتیشورکالج، مظفرپور
حالیہ چند برسوں میں ہارٹ اٹیک سے ہونے والی اموات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پوری دنیا میں ہر سال 17.3 ملین لوگ ہارٹ اٹیک کا شکار ہو رہے ہیں۔رواں ماہ (دسمبر 2022) کے پہلے ہفتہ میں "ہارٹ اٹیک” ٹیوئٹر پر ٹرینڈ کر رہا تھا۔ دنیا بھر کے ماہرین طب اور ماہرین نفسیات ہارٹ اٹیک کے تعلق سے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر سبرت اکھوری (کارڈیالوجسٹ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف میڈکل سائنسز، فریدآباد) اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ اگلے پانچ سے دس سال میں ہندوستان کے 20 فیصد لوگ ہارٹ اٹیک سے متاثر ہوں گے۔ ایک آر ٹی آئی سے جمع کی گئی معلومات کے مطابق ممبئی میں گزشتہ سال جنوری سے جون کے درمیان کورونا سے زیادہ اموات ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ مدت میں کورونا سے 10 ہزار 289 اموات ہوئیں جبکہ اسی مدت میں ہارٹ اٹیک سے مرنے والوں کی تعداد 17 ہزار 880 تھی۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 2019 میں دنیا بھر میں 1.79 کروڑ اموات دل سے جڑی بیماریوں سے ہوئی تھیں۔
ہارٹ اٹیک کے اثرات نوجوانوں یہاں تک کہ طالب علموں اور کم عمر نوجوانوں میں دیکھے جا رہے ہیں۔ حالیہ کچھ دنوں میں کئی ایسے واقعات مشاہدے میں آئے ہیں کہ کوئی گلوکار اسٹیج پرفارمنس کے دوران اچانک گرا اور اس کی روح پرواز کر گئی، کوئی طالب علم اسکول جاتے ہوئے اچانک لڑکھڑایا اور چشم زدن میں اس کی جان چلی گئی۔ہم میں سے کئی لوگ ایسی اموات کے شاہد ہیں جو انتہائی غیر متوقع تھیں۔
یہ واقعات ہمیں خوف زدہ کرتے ہیں۔ دنیا بھر کےڈاکٹرز اور ماہرین نفسیات ہارٹ اٹیک کی وجوہ اور اس کے خدشات کو کم کرنے کی تدابیر پر نہ صرف غور و فکر کر رہے ہیں بلکہ مشورے بھی دے رہے ہیں۔ ہارٹ اٹیک بعض اہم وجو ہ درج ذیل ہیں:
نشہ آور چیزوں کا استعمال،غیر متوازن غذا،نیند کی کمی،سستی، ذہنی تنائو، بلڈ پریشر وغیرہ
ماہرین کے مطابق نشہ آور چیزوں سے گریز کرنے، متوازن غذا لینے، وقت پر سونے اور اٹھنے، متحرک رہنے، ذہنی تنائو سے بچنے اور اصول حفظان صحت پر عمل کرنے سے ہارٹ اٹیک کے خدشات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
ہارٹ اٹیک کے اسباب اور اس سے محفوظ رہنے کے طریقہ کار کا معروضی مطالعہ ضرور ہونا چاہیے لیکن کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جو معروضیت سے پرے ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔
ماہرین صحت اس بات پر متفق ہیں کہ ہارٹ اٹیک کی سب سے بڑی وجہ ذہنی تنائو ہے۔اس کا سیدھا سا مطلب یہی ہے کہ دنیا میں جس تیزی سے ہارٹ اٹیک کے واقعات بڑھ رہے ہیں، اتنی ہی تیزی سے انسانی ذہن تنائو کا شکار ہو رہا ہے۔ ماہرین صحت اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ذہنی تنائو کم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے انسان کے پاس وسائل کی فراوانی ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں کی طرز رہائش پہلے سے زیادہ اچھی ہوئی ہے۔ہم پہلے کے مقابلے زیادہ اچھا کھانا کھاتے ہیں۔ رابطے آسان ہوئے ہیں۔آج ہم میں سے بیشتر لوگوں کے پاس اچھے موبائل فون ہیں۔ گھر ہے، گاڑیاں ہیں، تفریح کے مختلف ذرائع ہیں لیکن ان سب کے باوجود ہم میں سے اکثر لوگ کسی نہ کسی طور پر ذہنی تنائو کا شکار ہیں۔آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
اس سوال کا جواب ماہرین صحت کے پاس ملنا شاید مشکل ہے۔
شاید ہر سوال کا جواب سائنسی اصولوں کے مطابق بھی نہیں مل سکتا۔ اگر معروضیت سے پرے کچھ فطری اور روحانی اصولوں کو ہم سمجھ سکیں تو ممکن ہے کہ جواب تک ہماری رسائی ہو جائے۔ ماں سے بہت دور کوئی بچہ کسی خاص ساعت میں حادثہ کا شکار ہوتا ہے، ماں کو کسی مادی ذرائع سے حادثے کی اطلاع نہیں ملتی ہے لیکن اس کے باوجود جس وقت اس کا لخت جگر حادثے کا شکار ہوتا ہے، ماں کا دل تیز تیز دھڑکنے لگتا ہے۔ اب اس واقعہ کی کوئی معروضی وجہ نہیں بتائی جا سکتی۔
ذہنی تنائو کو کم کرنے کی فی زمانہ جتنی کوششیں ہو رہی ہیں وہ سب معروضی ہیں۔ مثلاً صبح چہل قدمی کی جائے، ورزش کی جائے، موبائل فون کا استعمال کم کیا جائے، مکمل نیند لی جائے، غذا متوازن ہو، وقت پر ہو وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ ساری تدابیر بھی اکثر دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
ذہنی تنائو کو کم کرنے اور زندگی کو پرسکون بنانے کے مختلف طریقے بہت ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے مفید اور کارآمد ہوں لیکن فطرت سے قریب ہوئے بغیر نہ تو ہم ذہنی تنائو کو کم کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی زندگی کو پرسکون بنا سکتے ہیں۔فطرت سے قربت کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہم وادیوں، جھرنوں، ندیوں اور سمندروں کا نظارہ کرنے لگ جائیں۔جب انسان کا ذہن اذیت میں ہوتا ہے تو اسے خوشگوار نظارے بھی بے لطف او ربے نور نظر آنے لگتے ہیں۔ فطرت سے قربت کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم زندگی کو اس کے اصل روپ میں قبول کریں۔ زندگی کا اصل روپ صرف خوشی نہیں ہے، غم بھی ہے۔ صرف خواب نہیں ہے، شکستِ خواب بھی ہے۔ زندگی صرف حاصل کا نام نہیں ہے، زندگی میں سعئی لاحاصل بھی ہے۔زندگی صرف تبسم سے مکمل نہیں ہوتی، اسے نالہ نیم شب بھی چاہیے۔
آج کا انسان صرف خوش رہنا چاہتا ہے۔ وہ خوشی کا تعاقب کرتا ہے۔ جب اسے اپنے آس پاس بلکہ اپنے اندرون میں خوشی نہیں ملتی تو وہ پارکوں، ہوٹلوں، بار اور نائٹ کلبوں کا رُخ کرتا ہے۔ اُسے وقتی طور پر خوشی مل بھی جاتی ہے لیکن واپس جب وہ اپنے اصل ماحول میں آتا ہے تو اسے وحشت سی محسوس ہوتی ہے، یہی وحشت اس کے ذہنی تنائو کا سبب بنتی ہے۔
آج کا انسان حقیقی مسرتوں سے محروم ہے۔ وہ اپنے رشتہ داروں کو نہیں پہچانتا، پہچانتا ہے تو بس اِس طور پر کہ ان سے گلے اور شکووں کا رشتہ ہے۔ اس نے اپنی مصروفیت کو کم کرنے کے لیے مشینیں خرید رکھی ہیں ، لیکن اس کی مصروفیات اور بھی بڑھ چکی ہیں۔ اس کے پاس اپنے بیوی بال بچوں کے لیے وقت نہیں ہے۔ دوستوں اور رشتہ داروں کے لیے وقت نہیں ہے بلکہ سچ پوچھیے تو اپنے لیے وقت نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی تمنا میں وہ اپنی اوقات بھول چکا ہے لیکن جیسے ہی اسے اپنی اوقات یاد آتی ہے، وہ ذہنی تنائو کا شکار ہونے لگتا ہے۔
آج کا انسان قناعت کی دولت سے محروم ہے۔ وہ دنیا میں جنت کے مزے لینا چاہتا ہے۔ وہ اپنے ماضی کو یاد کر کے حال کا شکر ادا نہیں کرتا، دوسروں کے حال کو دیکھ کر اپنے حال کی ناشکری کرتا ہے۔ یہ ناشکری اسے ذہنی طور پر منتشر کر دیتی ہے۔
ذہنی تنائو سے بچنے کی تمام سائنسی اور طبی تدابیر اپنی جگہ اہم ہو سکتی ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ خالق کے قرب کے بغیر ذہنی سکون کے حصول کی سبھی کاوشیں سعئی لاحاصل ہیں ۔ خالق کا قرب ہمیں اندیشہ سود و زیاں سے بے نیاز کرتا ہے۔ نمائش اور تصنع کو زندگی سے نکال دیا جائے تو زندگی پرسکون ہو سکتی ہے لیکن ہم انہیں نکالنے پر آمادہ ہی نہیں ہیں یہاں تک کہ نمائش اور تصنع سے ہمارا رشتہ منقطع تو ہوتا ہے لیکن تب تک کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
اپنے سے چھوٹے لوگوں میں وقت گزارنے سے سکون ملتا ہے۔ کسی کا سکون غارت نہ کیا جائے تو سکون مل سکتا ہے۔ سکون حاصل کرنے کی تمنا چھوڑ دی جائے تو سکون ملنے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔لیکن یہ سارے نکات معروضی نہیں ہیں اور ہم اتنے ترقی یافتہ ہو چکے ہیں کہ معروضیت کی عینک اتارے بغیر مطالعۂ کائنات ہمارے لیے مشکل ہے۔ اس مشکل کا حل تلاش کر لیا جائے تو ہارٹ اٹیک کے امکانات کو کم کیا جا سکتا ہے۔