انوار الحق قاسمی، ناظم نشر و اشاعت جمعیۃ علماء ضلع روتہٹ نیپال
چوں کہ یہ دور’ اتر پردیش الیکشن’ کی تیاری کا چل رہا ہے۔اس موقع سے تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران سیاسی دورے پر ہیں۔ہرایک کا کہیں نہ کہیں اتر پردیش کے عوام کے مابین خطاب ہورہاہے اور ہر ایک اپنی جیت کے لیے لوگوں کو اپنی طرف مائل کررہے ہیں۔
چند دنوں قبل ایم آئی ایم کے صدر ،ایم پی اسدالدین اویسی بھی اتر پردیش انتخاب کے پیش نظر سہارنپور،مظفر نگر کے سیاسی دورے پر تھے اور ان کا بھی دونوں جگہ عوام کے مابین سیاسی خطاب ہوا۔چوں کہ ضلع "سہارنپور”ہی میں ‘دیوبند’ واقع ہے اور یہیں ایشیا کا عظیم علمی ادارہ ‘دارالعلوم’بھی ہے؛اس لیے مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اسد الدین اویسی کی خواہش ہوئی کہ دارالعلوم دیوبند کے قرب و جوار میں پہنچ کر،دارالعلوم کی زیارت نہ کرنا،میرے لیے باعثِ حرماں نصیبی ہے؛اس لیے انہوں نے پانچ افراد پر مشتمل ایک وفد دارالعلوم بھیجا،جس میں اسدالدین کے ایک نمائندہ "مہتاب چوہان صدر مغربی یوپی مجلس اتحاد المسلمین”بھی تھے۔
یہ وفد دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا،اور مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر،بیرسٹر اسدالدین اویسی کی دارالعلوم آمد کے سلسلے میں گفتگو کیا اور اویسی کو دارالعلوم بلائے جانے کی درخواست کی؛مگر دارالعلوم دیوبند کے مہتمم وشیخ الحدیث مفتی ابو القاسم نعمانی نے کہا: کہ ابھی اتر پردیش الیکشن کو لے کر سیاسی سرگرمیاں زور وشور پر ہے،ہر پارٹی کے لیڈران ان دنوں اپنے پرچار اور تشہیر میں مصروف ہیں،اور دارالعلوم کا یہ ضابطہ اور دستور ہے کہ یہاں انتخابی موسم میں سیاسی لیڈروں کو آنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے اور نہ ہی یہاں کے ذمہ داران ان سے ملتے ہیں؛اس لیے اس ضابطے کی روشنی میں،میں ابھی انہیں دارالعلوم آنے کی اجازت نہیں دیتا ہوں۔
بس اتنی سی بات پر سوشل میڈیا پر اس قدر ہنگامہ کہ دارالعلوم کے مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی نے مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اسد الدین اویسی کو دارالعلوم آنے کی اجازت نہیں دی،اور بعض ناہنجاروں نے تو اپنی بات کو دارالعلوم کے مہتمم کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھا:کہ مفتی صاحب نے کہا :کہ ہم اویسی سے ملنا بھی گوارہ نہیں کرتے ہیں،یہ ایک محض جھوٹی بات ہے،جسے ان بد بختوں نے مہتمم صاحب کی جانب منسوب کیاہے، اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماچکے ہیں:کہ کاذبین پر اللہ کی لعنت ہے،جھوٹوں کے لیے اس سے بڑی وعید اور کیا ہوسکتی ہے؟
بعض قلم کاروں نے لکھا کہ عوام میں اب یہ بات بھی ہونے لگی ہے کہ مہتمم صاحب نے اسد الدین اویسی کو دارالعلوم آنے کی اجازت صرف اس لیے نہیں دی ہے،کہ اسدالدین اویسی کا تعلق بریلوی مکتب فکر سے ہے،اگر ان کا تعلق بریلوی مکتب فکر کے بجائے،دیوبندی مکتبہ فکر سے ہوتا،تو پھر مہتمم صاحب انہیں دارالعلوم دیوبند آنے کی اجازت ضرور دیتے؛بل کہ انہیں شوق سے دارالعلوم بلاتے۔
یہ بات مجھے اب تک سمجھ میں نہیں آرہی کہ اکثر لوگ ظاہری باتوں کے مقابلے میں ذہن میں مخفی اور پوشیدہ باتوں اور خیالوں کی طرف کیوں زیادہ دیکھتے ہیں؟مفتی صاحب نے تو بس اتنا ہی کہا ہے:کہ دارالعلوم دیوبند کا دستور ہے کہ دارالعلوم کے ذمہ داران انتخابی زمانے میں سیاسی لیڈروں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں،اس لیے میں انہیں فی الحال دارالعلوم آنے کی اجازت نہیں دیتاہوں۔
یہ مفتی صاحب کی ظاہری بات ہے،جس کی طرف دیکھتے ہوئے لوگوں کو یہ بات کہنی چاہئے تھی کہ مہتمم صاحب نے دارالعلوم کی پالیسی کے تحت فی الحال مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اسد الدین اویسی کو دارالعلوم آنے کی اجازت نہیں دی ہے؛پھر جب انتخابی زمانہ ختم ہو جائے گا،اور اسدالدین اویسی کو دارالعلوم آنے کی خواہش ہوگی،تو مہتمم صاحب انہیں ضرور بلائیں گے اور ان کا پرزور استقبال بھی کریں گے۔
ان باتوں کے بجائے ان باتوں کی طرف ذہن منتقل کرنا( کہ مہتمم صاحب نے اسدالدین اویسی کو دارالعلوم آنے کی اجازت صرف اس لیے نہیں دی ہے کہ وہ بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں،اور اس لیے بھی کہ مہتمم صاحب کو اسد الدین اویسی پسند نہیں ہیں)جن کی طرف مفتی مہتمم صاحب کا (جہاں تک میرا خیال ہے)خیال بھی نہیں گیاہوگا،کا قائل ہونا،اور انہیں چرچے میں لانا انتہائی غلط بات ہے۔
"الحکم یدار علی الظاہر”لوگوں کو چاہیے کہ ظاہری باتوں کی طرف دیکھیں !اور ظاہری باتوں ہی کے پیش نظر اپنی رائے قائم کریں اور ہرگز ذہنی اور خیالی باتوں کی طرف اپنا ذہن منتقل نہ کریں ؛کیوں کہ کیا ضروری ہے کہ جن چیزوں کی طرف آپ کا ذہن گیاہے،ان کی طرف متکلم کا بھی ذہن گیاہو؟ہوسکتاہے کہ ان کی طرف متکلم کا معمولی بھی ذہن نہ گیا ہواور وہ چیزیں متکلم کے حاشیہ خیال میں بھی نہ آئی ہوں؛اس لیے ان سب چیزوں سے لوگوں کو بہت بچنے کی ضرورت ہے۔
اور کیاکسی ادارہ کے ذمہ داران کا اپنی پالیسی کے تحت آنے کی اجازت نہ دیناجرم ہے؟ اپنی پالیسی پر عمل کرنااور اس کے مطابق کسی کو آنے کی اجازت نہ دینا قطعی جرم نہیں ہے؛اس لیے لوگوں کو چاہئے کہ مہتمم صاحب کے حوالے سے بدگمان نہ ہوں،حسن ظن رکھیں!اسی میں بھلائی ہے۔
مہتمم صاحب نے تو اپنا وضاحتی بیان بھی دے دیا ہےکہ ہم نے اپنی پالیسی کے مطابق مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اسد الدین اویسی کو دارالعلوم آنے کی اجازت نہیں دی ہے اور یہی بات ہم نے ان کے نمائندوں سے بھی کہا ہے،اس کے علاوہ اور کوئی دوسری بات نہیں ہوئی ہے۔اب اگر کوئی اپنی طرف سے کچھ کہہ رہا ہے،تو یہ ان کا ذاتی فعل ہے،اس میں میرا کیا قصور ہے؟
میرا خیال ہے کہ حضرت مہتمم صاحب کی طرف سے وضاحتی بیان آجانے کے بعد اب سوائے فتین اور شرانگیز کے کوئی بھی غلط تبصرہ نہیں کرسکتا ہے۔
یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اسد الدین اویسی مسلمانوں کے ایک اچھے قائد ہیں،اور وہ مسلمانوں کی صحیح ترجمانی بھی کرتے ہیں،ان کی عزت اور حوصلہ افزائی ہر ایک مسلمان کو کرنی چاہئے۔میرا خیال ہے کہ یہ نوجوان قائد ،مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی اکثر مسلمانوں کے قلوب میں نمایاں خدمات کی وجہ سے اپنی جگہ بناچکے ہیں۔
ایسی بات نہیں ہے کہ مہتمم صاحب کو اسد الدین اویسی سے کوئی عناد اور دشمنی ہے،جس کی بنا مہتمم صاحب نے انہیں دارالعلوم آنے کی اجازت نہیں دی،بل کہ مہتمم صاحب کو بھی ان سے محبت ہےاور ان کی عظمت ان کے دل میں بھی ہے،مہتمم صاحب نے انہیں صرف اپنی پالیسی کی بنا منع کیا ہے۔
مہتمم صاحب اگر پالیسی کے خلاف عمل کرتے ہوئے اسد الدین اویسی کو دارالعلوم دیوبند آنے کی اجازت دیتے ،تو پھر آئندہ کےلیے یہ پالیسی کی مخالفت کا عمل مہتمم صاحب کے لیے باعث مصیبت ہوتا۔کیوں کہ آئندہ جوں ہی دیگر سیاسی لیڈران کے سامنے پالیسی کی بات آتی،تو وہ فوراً کہہ دیتے کہ آپ کی پالیسی کیسی ہے ،جو صرف ہم لوگوں کے لیے ہے،یعنی غیر مسلم لیڈروں کےلیے،ابھی اسد الدین اویسی دارالعلوم آئے،تو کیوں آئے؟کیاان کے لیے یہ پالیسی نہیں تھی؟الغرض ہندو، مسلم کی بحث جاری ہوجاتی۔اس لیے مفتی صاحب نے جو کیا ہے،بہت ہی اچھا کیا ہے،پالیسی پر عمل کرنا یہ اچھی بات ہے۔