اہم خبریںمضامین

کاش ایسا دل ہم سب کو نصیب ہوجائے

محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

قرآن مجید ،،تفاسیر اور تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لقمان حکیم مشہور بزرگ اور حکمت و دانائی کے حامل انسان تھے،ان کا تذکرہ خود قرآن کریم میں موجود ہے بلکہ ایک سورہ ہی ان کے نام سے موسوم ہے، اس لئے بعض لوگ ان کو پیغبر اور رسول بھی سمجھتے ہیں ۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ بھی مرقوم ہے کہ وہ حبشی غلام تھے

مشہور ہے کہ ایک مرتبہ ان کے آقا نے حکم دیا کہ میرے لئے ایک بکرا ذبح کرو اور دو پاکیزہ اور بہترین بوٹیاں میرے لئے نکال کر لاو ۔ لقمان حکیم نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بکرا ذبح کیا اور زبان و دل نکال کر آقا کی خدمت میں پیش کر دیا ۔ ایک موقع پر پھر مالک نے حکم دیا کہ بکرا زبح کرو اور جو سب سے خراب اور گھٹیا بوٹیاں ہوں نکال کر لاو ۔ چنانچہ لقمان حکیم نے دوسری مرتبہ بھی بکرا ذبح کیا اور پھر وہی زبان و دل نکال کر آقا کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آقا نے حیرت سے پوچھا ارے لقمان ! میں نے تم سے دو پاکیزہ بوٹیاں نکالنے کو کہا تو تم نے زبان و دل نکال کر حاضر کر دیا اور جب میں نے بدترین اور گھٹیا بوٹیاں نکالنے کو کہا تو تم نے وہی زبان و دل نکال کر پیش کر دیا ۔ آخر اس کی وجہ اور حقیقت کیا ہے؟
حکیم لقمان نے جواب دیا ۔۔ زبان و دل اگر پاک ہوں تو اس سے زیادہ پاکیزہ اور خوبصورت کوئی چیز نہیں اور جب یہ دونوں گندے اور ناپاک ہوں تو ان سے بدتر کوئی چیز نہیں ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر جلد سوم صفحہ ۴۴۳)
یہ حقیقت ہے کہ زبان و دل انسانی وجود کا حاصل اور ترجمان ہے، ایک عربی شاعر نے اسی حقیقت کو بڑے خوبصورت اور دلنشیں پیرایہ میں بیان کرتے ہوئے کہا ہے ۔

لسان الفتی نصف و نصف فوائدہ
و لم یبق الا صورة اللحم والدم

کہ انسان کا آدھا وجود اس کا دل اور آدھا وجود زبان ہے، اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ گوشت اور خون کی صورت ہے ۔
سند احمد کی ایک روایت ہے کہ کسی شخص کا ایمان درست اور صحیح و سالم نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل اور دل کا قبلہ درست نہ ہو اور کسی شخص کا دل درست نہیں ہوسکتا جب تک اس کی زبان درست نہ ہو ۔
لیکن ان دونوں میں یعنی زبان و دل میں مرکزیت دل کو حاصل ہے، کیونکہ یہی تمام احساسات، و وجدان ،ضمیر ،جذب و کیف ،وارفتگی اور آشفتگی کا سرچشمہ ہے، یہ صرف خون اور لہو ہی کی گردش نہیں کرتا، بلکہ افکار و نظریات خیالات و اعمال میں بھی ربط باہم کا ذریعہ ہے ۔ اس کی طہارت اور اس کی پاکیزگی میں پورے وجود کی پاکیزگی مضمر اور پوشیدہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : و ان فی الجسد مضغة اذا صلحت صلح الجسد کله و اذا فسدت فسد الجسد کله الا و ھی القلب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بخاری/مسلم
سن لو ! جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہوتا ہے، جب وہ ٹھیک ہوا تو پورا جسم ٹھیک ہوگیا اور جب وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑ گیا سن لو ! وہ گوشت کا لوتھڑا دل ہے ۔

قلب سلیم تمام بھلائیوں کا مخزن اور سرچشمہ ہے اور بذات خود بڑی نعمت ہے ۔ قرآن مجید میں ہے :
,,یوم لا ینفع مال ولا بنون الا من اتی اللہ بقلب سلیم,,(سورہ الشعراء ۸۸/۸۹)
جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد بجز اس کی کہ کوئی صحیح سالم دل لے کر خدا کے پاس آیا ہو ۔
اس دل کی حیثیت یہ ہے کہ یہ پورے جسم و جاں کا حکمراں ہے، اس کی حیثیت اور مرتبہ بادشاہ کی ہے وہ ظاہر و باطن سب پر اثر انداز ہوتا ہے ،کوئی شخص کسی کام کے لئے آپ کو کتنا امادہ کرے اور اکسائے مگر آپ کا دل آمادہ نہ ہو اس کی طرف راغب نہ ہو تو وہ کام انجام نہیں پاسکتا اور دل مطمئن ہوجائے تو ہر کام آسان ہوجاتا ہے ۔ اعضاء و جوارح سب اس کی آمادگی کے ساتھ ہی حرکت کرنے لگتے ہیں ۔

آنکھ سے دیکھنا بصارت ہے جب کہ دل سے دیکھنا بصیرت ہے ۔ بصیرت نہ ہو تو بصارت کا کوئی فائدہ ،آدمی دل کی نگاہ سے نہ دیکھے ، تو آنکھ رکھتے ہوئے بھی اندھا ہوجائے گا قرآن کہتا ہے :
آنکھیں اندھی نہیں ہوتی سینوں میں دل اندھے ہوجاتے ہیں ۔ (الحج ۴۶)
اس دل کی حفاظت کرنا ،اسے تابندہ ،درخشاں رکھنا اور اس کا تزکیہ کرنا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم نے کیا خوب کہا کہا ہے :

دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے ملتوں کے مرض کہن کا چارہ

علامہ روم رح نے ایسے ہی دل کی طلب اور تڑپ رکھنے کا مشورہ دیا ہے وہ کہتے ہیں :
طالب دل باش تا باشی چو مل
تا شوی شاداں و خنداں ہم چوگل

دل کے طلبگار ہو تاکہ شراب کی طرح تازہ اور پھولوں کی طرح خوش و خرم رہو ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اپنے دل کو تین مواقع پر تلاش کیا کرو ۔
۱ قرآن کریم سننے کے وقت۔
۲ ذکر کی مجلس میں ۔
۳ تنہائی کے اوقات میں ۔

اگر تم ان مواقع پر اپنے دل کو حاضر نہ پاو تو اللہ تعالی سے دعا کرو کہ وہ تمہیں ایک دل عطا کرکے احسان کرے ۔(ابن کثیر)
دل پر محنت کی، اور کی حفاظت کی بڑی ضرورت ہے، کیونکہ انسانی اعضاء میں سے سب سے اہم اور مرکزی عضو ہے، اس لیے دوسروں کی طرف سے اپنے سینے کو صاف رکھنا مطلوب و محمود ہے، سلامتی صدر کے لیے ضروری ہے کہ کسی کے متعلق غیر ضروری باتوں کے سننے سے پرہیز کیا جائے۔ دل کی ساری نظافتوں اور پاکیزگیوں کے باوجود اس کے متاثر ہونے کا خدشہ باقی رہتا ہے۔ دوسروں کے بارے میں ایسی باتوں کے جاننے کا شوق انتہائی ناپسندیدہ ہے، جس سے دل میں بدگمانی یا کدورت کے پیدا ہونے کا امکان پایا جاتا ہو۔ البتہ وہ مواقع اس سے مستثنیٰ ہیں، جہاں شرعی ضرورت اور اپنی مصلحت متقاضی ہوکہ کسی کے بارے میں کچھ کہا یا سنا جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاف سینہ اور پاکیزہ دل رکھنے پر خاص زور دیتے تھے، اور شکوہ و شکایت سننے سے پرہیز کرتے تھے ، تاکہ دل میں کسی سے بدظنی پیدا نہ ہو۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا،، میرے ساتھیوں میں سے کوئی شخص مجھ تک کسی کی کوئی بات نہ پہنچائے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جب میں تمہارے پاس آوں تو میرا دل صاف ہو۔۔ ابو داود۔۔(ناشر /مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button