مضامین

ڈپریشن کی حالت میں سیرت رسول ﷺ کا مطالعہ کیجیے

نفیس خاں ندوی

ہر صبح و ہر شام موت کا پیغام، رونے بلکنے کا منظر اور تڑپنے و ٹوٹنے کی خبریں.
کیا آپ ایسے ماحول میں افسردہ ہیں؟ کیا آپ کی ہمتیں ٹوٹ رہی ہیں؟ کیا آپ تناؤ کا شکار ہیں.؟
یہ آپ کے مزاج اور آپ کی طبیعت کا تقاضا تو ہوسکتا ہے لیکن ایمان کا تقاضا بالکل نہیں…
آپ اس نبی کے امتی ہیں جس کو اس سے بھی سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا…

یاد کیجیے اس وقت کو جب آپ ﷺ کے پورے خاندان کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا تھا، پورا خاندان تین سال تک شعب ابی طالب میں پناہ لینے پر مجبور تھا، نہ کوئی ان سے مل سکتا تھا، نہ خرید و فروخت کر سکتا تھا، نہ کھانے پینے کا سامان پہنچ سکتا تھا، بچے بھوک سے بلکتے تھے، بڑے بوڑھے بے بس ولاچار تھے، بھوک لگتی تو طلح کی کڑوی پتیاں کھائی جاتی تھیں… یقیناً آج کے لاک ڈاؤن میں بھی ہم بہت بہتر حالت میں ہیں..

مکہ مکرمہ کا وہ منظر یاد کیجیے جب آپ ﷺ کی راہ میں کانٹے بچھائے جاتے، جسم مبارک پر نجاست ڈال دی جاتی، گردن میں چادر سے لپیٹ کر کھینچا جاتا، سجدہ کی حالت میں جسم اطہر پر اوجھڑیاں ڈال دی جاتیں، کون سا ستم نہیں تھا جو آپ ﷺ پر نہ آزمایا گیا ہو، کوئی شاعر کہتا کوئی مجنوں و دیوانہ کہتا، کوئی ساحر کہتا تو کوئی نجومی کہتا، جتنے منھ اتنی باتیں، ایسے نازک اور سنگین حالات میں ابوطالب ہی آپ کے ظاہری پشت پناہ تھے، لیکن خدا کی مرضی جلد ہی یہ سہارا بھی چھوٹ گیا اور ابو طالب اس دنیا سے رخصت ہوگئے…
یقیناً ہمارے حالات مکہ کے حالات سے ابھی بہت بہتر ہیں، اور ہم ابھی بھی بہت پر سکون ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں.

جب مشرکین مکہ کی جانب سے طرح طرح کی ایذاؤں، تکلیفوں، اور بدکلامیوں پر آپ ﷺ کا دل ٹوٹتا اور طبیعت اداس ہوتی حضرت خدیجہ ہی آپ کے درد کا درماں اور آپ کا حوصلہ تھیں، اس خاتون جنت نے اپنا سارا مال وزر آپ کے قدموں میں نچھاور کردیا تھا، وہ ہر ہر قدم پر آپ کا مضبوط سہارا تھی، آپ کو مشورے دینا، ہمت اور حوصلہ کو بلند کرنا، ذہنی وجسمانی تکلیف میں آپ کو سنبھالا دینا، کتنی خوبیوں کی آپ ملکہ تھیں، یقیناً آپ ﷺ کے لیے حضرت خدیجہ بہت بڑا سہارا تھیں، لیکن تقدیر الٰہی کے سامنے انسان کی مرضی کچھ کام نہیں دیتی، ابوطالب کے انتقال کے چند ہی دن بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھی اس دنیا کو الوداع کہہ دیا…
غور کیجیے کیا ہم آپ ﷺ سے زیادہ بے سہارا وبے یار و مددگار ہیں؟ یقیناً نہیں.. تو پھر یہ تناؤ کیوں.. ؟ یہ پست ہمتی اور یہ حوصلہ شکنی چہ معنی دارد..؟؟

کچھ قدم آگے بڑھیے اور حضور ﷺ کی اس کیفیت کو محسوس کیجیے کہ مکہ مکرمہ میں آپ کی زندگی اجیرن کی جارہی ہے، اب نہ ابو طالب ہیں اور نہ خدیجہ ہیں، بس طعنے ہیں، دھکے ہیں، گالیاں ہیں، اپنوں کی اور غیروں کی ترشیاں ہیں، کوئی سہارا دکھائی نہیں دیتا، کوئی آسرا سجھائی نہیں ہوتا، ایسے میں امید بھری نگاہیں طائف کی جانب اٹھتی ہیں اور آپ ﷺ وہاں جا پہنچتے ہیں، لیکن وقت کی ستم ظریفی دیکھیے، اہل جاہ و اہل اقتدار آپ ﷺ کا ٹھٹھا کرتے ہیں اور شہر کے اوباشوں اور آوارہ لونڈوں کو پیچھے لگادیتے ہیں وہ آپ کو دھکیلتے، ہڑگوم مچاتے، گلیوں میں بھگاتے اور پتھروں سے مارتے، آپ اس قدر لہولہان ہوئے کہ سر سے بہتا ہوا خون جوتیوں میں آکر جم جم گیا، فرشتوں کو بھی ترس آگیا، حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ آپ حکم دیں تو ان پہاڑوں کے بیچ اس پورے شہر کو کچل دیں، لیکن قربان جائیے کہ اس نبی رحمت نے بس اتنا کہا کہ یہ نہیں تو ان کی آنے والی نسلیں مسلمان ہوں گی۔۔۔۔

یقین مانیے اس سے سخت حالات کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے، ایک عام انسان کی زندگی جن جن پہلؤوں سے بکھر سکتی ہے اور ایک انسان پر ذہنی وجسمانی طور پر جتنا ٹوٹ سکتا ہے وہ سارے حالات ہمارے نبی پر گذر چکے ہیں لیکن نہ آپﷺ نے ہمت ہاری، نہ حوصلہ ٹوٹا، نہ مقصد سے ایک لمحہ کے لیے منھ پھیرا، بس اپنے رب کی طرف رجوع کیا اور بس اتنا ہی کہا کہ اگر یہ تیرا غضب نہیں ہے تو میں ہر حال میں خوش ہوں۔۔۔

آپﷺ کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لیے اسوہ ہے، اگر آپ اپنی زندگی سے مایوس ہو رہے ہیں یا آپ تناؤ کا شکار ہیں تو رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کیجیے، ان ناگفتہ بہ حالات میں یہی ایک تریاق ہے جس کی تاثیر سے انکار ناممکن ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button