ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی تازہ تالیف ”علم وفن کے نیرتاباں“ کا ملی کونسل کے دفترمیں اجرا۔ اسلاف کے کارناموں کو آنے والی نسلوں تک پہنچانا اہل قلم کی ذمہ داری: انیس الرحمن قاسمی /امتیاز احمدکریمی
ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی تازہ تالیف ”علم وفن کے نیرتاباں“ کا ملی کونسل کے دفترمیں اجرا۔ اسلاف کے کارناموں کو آنے والی نسلوں تک پہنچانا اہل قلم کی ذمہ داری: انیس الرحمن قاسمی /امتیاز احمدکریمی
پٹنک 23؍ اکتوبر 2022ء (پریس ریلیز) ملک کے ممتاز عالم دین، مدرسہ رحمانیہ سوپول دربھنگہ کے سابق صدر مدرس اورجامع اسلامیہ انکلیشور گجرات کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا ہارون الرشید ؒ کی حیات وخدمات پر مشتمل معروف اہل قلم ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی تازہ تالیف ”علم وفن کے نیرتاباں“کا اجراء آج آل انڈیا ملی کونسل بہار کے ریاستی دفتر پھلواری شریف،پٹنہ میں ہوا۔ اس پر وقارعلمی تقریب کی صدارت آل انڈیاملی کونسل کے قومی نائب صدرحضرت مولاناانیس الرحمن قاسمی نے کی۔تقریب کے مہمان خصوصی بہار پبلک سروس کمیشن کے رکن اورصف اول کے افسر جناب امتیاز احمد کریمی صاحب اورمہمان اعزازی کے طورپرڈاکٹر پروفیسر سرورعالم ندوی صدر شعبہ عربی پٹنہ یونیور سٹی،ڈاکٹر مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل بہار اورمولاناڈاکٹر شکیل احمد قاسمی اورینٹل کالج،پٹنہ نے شرکت کی۔اس پر وقارعلمی،ادبی تقریب کا آغاز مولانا جمال الدین قاسمی کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔
اپنے صدارتی کلمات میں مولانا انیس الرحمن قاسمی نے کتاب کے مؤلف ڈاکٹرنورالسلام ندوی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ مولاناہارون الرشید قاسمی ؒ ریاست کے گنے چنے علمامیں تھے،جنہوں نے گوشہ گمنامی رہ کر علم وادب اوررجال سازی کی قابل قدر خدمت انجام دی، میرا مولاناسے پیتیس چالیس سالوں کا گہرا ربط وتعلق رہا،وہ علم وعمل اورعمرمیں مجھ سے بڑے تھے، لیکن جب ملاقات ہوتی تو انتہائی محبت وشفقت اورحترام کا سلوک فرمایاکرتے،وہ اچھا لکھتے تھے اورخوبصورت ودل کش اندازمیں تقریربھی کیاکرتے تھے۔انہوں نے تعلیم نسواں پر خاص توجہ دی اورلڑکیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے مدرسہ رحمانیہ نسواں جمال پور میں قائم کیا۔ یہ ادارہ آج بھی خد مت انجام دے رہا ہے۔مولاناقاسمی نے مؤلف کتاب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ پورے علاقہ اورحضرت مولاناکے شاگردوں پر ایک قرض تھا،جو مولانانورالسلام ندوی کی کوششوں سے اداہوگیا۔ مولانا ندوی صالح فکرکے حامل نوجوان عالم دین اورمصنف ہیں۔میں امید کرتاہوں کہ ان کا قلم ہمیشہ تازہ دم رہے گااوراسی طرح کی چیزیں ان کے قلم سے آتی رہیں گے۔اللہ سے دعاہے کہ یہ کتاب ہر خواص وعام تک پہنچے اورنئی نسل کے لیے مشعل راہ بنے۔
تقریب کے مہمان خصوصی امتیازاحمد کریمی نے کتاب کی تالیف اوراشاعت پر ڈاکٹر نورالسلام ندوی کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر نورالسلام ندوی کا قلم زندہ اورتابندہ ہے، ان کی یہ تیسری باضابطہ تصنیف ہے،ویسے تو ان کے سینکڑوں مضامین ومقالات اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں، لیکن مضمون لکھنا اورمستقل کتاب لکھنا دونوں میں بڑا فرق ہے۔ایک مصنف میں جو خوبیاں اصولی طورپر ہونی چاہئے وہ تمام اوصاف وکمالات مولانا نورالسلا م ندوی نے کم عمری میں حاصل کر لیے ہیں۔میں ان سے اکثر کہتا ہوں کہ اپنے قلم کو کبھی آرام نہ دیں۔ ضرورت ہے کہ ایسے مصنفین پیدا ہوں جو اسلاف کے کارناموں کو اگلی نسل کے لیے محفوظ کر دیں۔
مولاناڈاکٹرابوالکلام قاسمی شمسی نے کہا کہ اسلاف کے کارناموں کو جمع کر کے اگلی نسلوں تک پہونچاناہماری ملی ذمہ دار ی ہے۔قابل مبارک باد ہیں ہمارے عزیر مولاناڈاکٹرنورالسلام ندوی جہنوں نے حضرت مولاناہارون الرشدی قاسمی ؒ کی سوانح مرتب کر کے علمی دنیا کو بیش قیمت تحفہ دیا ہے۔ کتابوں کی تالیف کتنی دشوار ہے،اس کا احساس ہر اس شخص کو ہے جس نے اس راہ کی آبلا پائی کی ہے۔ مولانا نورالسلام ندوی ابھی نوجوان ہیں،سنجیدہ فکر کے حامل ہیں، ان کی اس کاوش میں ان کی فکر جھلکتی ہے۔پروفیسر ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی نے کہا کہ کتاب پر صحیح تبصرہ توکتاب کے مطالعہ کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے، ابھی جب کہ یہ کتاب ریلیز ہوئی ہے،اس کی فہرست کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مؤلف نے صاحب سوانح کی شخصیت کا پورے طورپر ان کی زندگی کے ہر گوشہ پر کتاب روشنی ڈالتی ہے، میں دل کی گہرائیوں سے مؤلف کتاب ڈاکٹر نورالسلام ندوی کو ان کی اس گراں قدر علمی خدمت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔رسم اجراء کے اس تقریب سے اظہار خیال کرتے ہوئے پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے صدر ڈاکٹر سرور عالم ندوی نے کہا کہ مولانا ہارون الرشید جیسی شخصیت اگر یوروپ میں پیدا ہوتی تو ان کا نام علم وفن کے آسمان پر چاند وسورج کی طرح چمکتا نظرآتا،بزرگوں اوراسلاف کی خدمات کو یادکرنے اوران کو سراہنے کا حکم خود اللہ کے رسول ؐ نے دیا۔ یہ کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے،ہمارے برادر عزیزڈاکٹر نورالسلام ندوی نے بڑی عرق ریزی اورجانفشانی کے ساتھ اس کتاب کو مرتب کیا ہے۔ اس کتاب کی تالیف پر میں انہیں اورآل انڈیا ملی کونسل کو جس نے یہ تقریب منعقد کی دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں۔
آل انڈیا ملی کونسل اس لیے بھی مبارک باد کے لائق ہے کہ وہ ہر علمی،ادبی کاموں کونہ صرف یہ کہ سراہتی ہے، بلکہ علم کی اشاعت میں اہم رول اداکررہی ہے۔ مصنف کی حوصلہ افزائی کے لیے اس طرح کی تقریبات منعقد کرتی رہتی ہے۔ آل انڈیا ملی کونسل بہارکے کارگزارجنرل سکریٹری مفتی محمدنافع عارفی نے نظامت کرتے ہوئے اپنی ابتدائی گفتگومیں کہا کہ صاحب سوانح حضرت مولاناہارون الرشید قاسمیؒ میرے بچپن کے استاذ تھے،وہ میرے والد کے گہرے دوست تھے،اس وجہ سے وہ مجھے بہت عزیزرکھتے رتھے اورہمیشہ محبت وشفقت فرمایاکرتے تھے اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلندکرے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے عزیزدوست ڈاکٹر نورالسلام ندوی ذاتی طورپرمیرے شکریہ کے مستحق اورقابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے استاذمحترم کی سوانح مرتب فرمائی۔ان کا قلم بڑا سیال اوررواں ہے،اللہ ان کے قلم کی طاقت کمال فن عطا کرے۔ تقریب میں شریک دیگر مہمانوں نے بھی کتاب کی تالیف اوراشاعت پر ڈاکٹر نورالسلام ندوی کو اپنے اپنے الفاظ میں دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دی۔ اس موقع پر مولانا صدرعالم ندوی نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ کتاب کے مؤلف ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی علمی خدمات پر مستقبل قریب میں کوئی باذوق قلم اٹھائے گا۔مولانا ہارون الرشید کے صاحبزادے جناب مولاناسفیان احمدنے اس موقع پر والد گرامی کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ ابا نے ہمارے بڑے بھائی ڈاکٹر نورالسلام ندوی کی تربیت کی تھی اورانہوں نے اپنے استاذ کا حق اداکیا،وہ ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔مولانا مرحوم کے نواسے جناب مولاناامیر معاویہ قاسمی نے اپنے ناناجان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کتاب کے مؤلف مولاناڈاکٹر نورالسلام کا شکریہ اداکیا اورانہیں مبارک باد پیش کی۔جناب نجم الحسن نجمی ڈائرکٹرنجم فاؤنڈیشن پھلواری شریف نے ڈاکٹر نورالسلام ندوی کوکتاب کی تالیف پر مبارک باد دی۔اس موقع پرجناب عقیل احمد ہاشمی،جناب خالدعبادی، جناب جاوید احمد جمال پوری،جناب مسرور عالم دربھنگہ،جناب ریحان احمد،جناب محمد توفیق ندوی،جناب اثرفریدی،جناب محمد نورعالم رحمانی ارریہ،جناب جاویداختر،جناب حافظ محمد عارف،جناب نعمت اللہ ندوی،مولاناجاویدجمالی،جناب رضاء اللہ قاسمی،جناب نسیم احمد قاسمی،جناب محمد جمال الدین قاسمی اورابونصرہاشم وغیرہ کے علاوہ کثیر تعداد میں لوگ موجود تھے۔