(تحریر :-مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ)
صحافت ، میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی حیثیت جموریت میں چوتھے ستون کی رہی ہے ، عدلیہ ،مقننہ ، انتظامیہ اور میڈیا پر جمہوریت کی عمارت کھڑی ہوتی ہے، قائم رہتی ہے اور چاروں ستون اسے مل کرمضبوطی فراہم کرتے ہیں، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مقننہ (پارلیامنٹ ، راجیہ سبھا)اور انتظامیہ پر ایک خاص ذہنیت کے لوگوں کا قبضہ ہے اور ماضی کے تجربات اور تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ جمہوری قدروں کو پروان چڑھانے کے حوالہ سے ان سے کوئی توقع رکھنا فضول ہے، ملک تیزی سے فاشزم کی طرف بڑھ رہا ہے، کثیر جماعتی نظام سیاست کے بجائے ایک نظریاتی نظام کو پروان چڑھانے کے مقصد سے ملک کے سماجی ڈھانچہ کوتوڑا جا رہا ہے، گنگا جمنی تہذیب جسے کبھی ہندوستان کا امتیاز سمجھا جاتا تھا، موت کے د ہانے پر کھڑی ہے، حق اور حب الوطنی کا مطلب آر ایس ایس اور گروگوالکر کے مقرر کردہ طریقوں کو سمجھا جا رہا ہے، دنیا جو کہتی رہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، ان ڈی ٹی وی پر جاری ایک مباحثہ میں نریندروا بھولکر کے صاحب زادہ حمید وا بھولکر نے بہت صاف اور سچی بات کہی کہ ’’بی جے پی سوچے سمجھے طریقے سے فرقہ واریت پر قائم ہے، کانگریس مصلحت اندیشانہ طریقے سے فرقہ واریت کا حصہ ہے، بایاں بازو بے اثر ہو چکا ہے اور ملک کا متوسط طبقہ خود میں گم رہتا ہے‘‘۔
ایسے میں اب صرف دوستون پر ہماری جمہوریت قائم تھی ، ایک عدلیہ اور دوسرے میڈیا، میڈیا والے بکنے لگے اوراپنی قیمت لے کر وہ کہنے لگے جو ان کا خریدار کہلوانا چاہتا ہے، اسے ہجومی تشدد ، بے گناہوں کے قتل، پھیلتی ہوئی بد عنوانی ، ظلم وستم کی گرم بازاری اور ملک کی سیاسی، تہذیبی اور مذہبی ثقافت واقدار سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، اسے وہی کچھ دکھانا ہے، لکھنا ہے ، سنانا ہے، چھاپنا ہے ، چھپوانا ہے جو اس کا مالک چاہ رہا ہے اور جس کی قیمت اس نے وصول لی ہے، اس طرح جمہوریت کے اس چوتھے ستون کا بھی انہدام ہو گیا ، جو لوگوں تک صحیح اور سچی بات پہونچا سکتا تھا، اس نے اپنی آنکھیں، کان اور منہ گاندھی جی کے بندروں کی طرح بند کر لیا ہے، گاندھی جی کے یہ بندر غلط نہ بولنے، نہ سننے اور غلط نہ دیکھنے کی علامت سمجھے جا تے تھے، لیکن موجودہ دورمیں کان ، آنکھ ، منہ حق نہ بولنے ، نہ سننے اور نہ دیکھنے کے لیے بند کر لیے گیے ہیں،زی نیوز، انڈیا ٹی وی ، ٹائمس ناؤ جیسے نیوز چینل ، ٹامز آف انڈیا ، ڈی این اے جیسے اخبارات ، اکنامک اینڈ پولیٹکل ای کلی (ای پی ڈبلو) جیسی معتبر اقتصادی ، سیاسی اور تحقیقی میگزین بھی اس ستون کو منہدم کرنے میں اپنی مضبوط حصہ داری ادا کر رہی ہیں، امید کی کرن اے، ایل ٹی نیوز جیسے اخبارات، روش کمار اور ونود راجیسے بے خوف اینکر اور بہت سارے فری لانسر ہرش مندر، تیستا سیتلوار، رام پینانی، اجیت ساہی جیسے صحافی ہیں، جن کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک ابھی نا مرد ، بانجھ، بزدل اور ڈرپوک پوری طرح نہیں ہوا ہے، ان کے قلم سے نکلنے والی روشنی تاریکی کے سینہ کو چیر کر رکھ دے رہی ہے، یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ جمہوریت کا چوتھا ستون جرائم پیشوں کے نشانے پر ہے۔ لے دے کر عدلیہ بچی ہوئی ہے، لیکن ایک پیلر پر جمہوریت کی عمارت کب تک کھڑی رہ پائے گی، یہ سمجھنا بہت مشکل نہیں ہے، خصوصا اس صورت میں جب مختلف عہدوں پر بحالی کا معیار بھی آر ایس ایس کی وفاداری کو قرار دیا جا رہا ہو۔
مجھے ان سطروں کے لکھتے وقت نریندوا بھولکر ، گووند پاکسرے اور کل برگی کی یاد آ رہی ہے، جنہیں حق سوچنے ، حق بولنے اور حق کی اشاعت کرنے کے جرم میں موت کی نیند سلا دیا گیا ، ہمیں گوری لنکیش یاد آ رہی ہے ، جسے آر ایس ایس کی فیک نیوز مہم پر لکھنے کی وجہ سے ان کے گھر کے باہر گولی ماردی گئی ، الکٹرونک میڈیا ان کے قتل کو ہلکا ثابت کرنے کے لیے ڈھونڈھ ڈھونڈ کر تاویلات وتوجیہات لا تارہا، پرنٹ میڈیا میںچند کچھ ہلچل رہی، لیکن جس طرح دوسرے صحافیوں کے قتل کے معاملے میں لوگ احتجاج ، مظاہرے اور مضامین چھپوا کر انہیں بھول گیے ، یہی حال چند دنوں بعد گوری لنکیش کا بھی ہو گیا لوگ دھیرے دھیرے انہیں بھول گئے، پھر کسی صحافی پر کوئی طوفان آئے گا اور جان جائے گی تو واویلا مچے گا ، بھولے ہوئے مقتولوں کی یاد آئے گی ، ان کے خون کا تذکرہ کیا جائے گا اور پھر ہلچل ختم ہو جائے گی ، ہندوستانی سماج میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے، انصاف ملنے تک ہم تحریک چلانے کے عادی نہیں رہے، ہمارا غم وغصہ سوڈے کے ابال جیسا ہوتا ہے، پوری طرح جوش میں آتا ہے اور جلد ہی بیٹھ جاتا ہے، گوری لنکیش کانہ صرف قتل ہوا؛ بلکہ قتل کے بعد اس کے جواز کے جو حیلے تراشے گئے وہ ’’عذر گناہ بد تر از گناہ‘‘کے قبیل سے تھے، اس سے ان کی شخصیت کا بھی قتل ہو ا، مغلظات بکے گئے، کردار پر انگلیاں اٹھائی گئیں، اس طرح ایک دوسرے قتل کا بھی میڈیا مرتکب ہو رہا ہے، مثل مشہور ہے کہ ایک جھوٹ کو درست ثابت کرنے کے لیے کئی جھوٹ مسلسل بولنے پڑتے ہیں اور الکٹرونک میڈیا دو ایک چینل کو چھوڑ کر اتنے جھوٹ بولنے میں لگا ہوا ہے جس کا شمار نہیں کیا جا سکتا ، مقصد یہ ہے کہ لوگ جھوٹ کو سچ سمجھنے لگیں۔
بی جے پی کے ایک لیڈر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر وہ آر ایس ایس کے خلاف نہیں لکھتیں تو آج زندہ ہوتیں ، کیا یہ جملہ نہیں بتا رہا کہ ان کے قتل میں کس کا ہاتھ ہے، لیکن گاندھی جی کے بندر کی طرح آنکھ بند کر لیا جائے تو صحیح اور سچی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی دکھائی نہیں دیتی ، عمر فاروق عاصم دیو بندی کا یہ شعر اچانک ذہن میں آگیا ؎
اس دور ستم گر میں سچ بات کے لکھنے کو
جو ہاتھ بھی اٹھیں گے وہ ہاتھ قلم ہوں گے
ہاتھ ہی نہیں اب توجمہوریت کے چوتھے ستون کے محافظ کا سر قلم ہو رہا ہے، ملک میں جمہوریت کی بقا کے لیے اس چوتھے ستون کی حفاظت کی ضرورت ہے، اور اس بات کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ چند لوگوں کو قتل کردینے سے حق نہیںمرجاتا ہے اور حق بات کہنے والے گونگے نہیں ہوجاتے ، اگر ایسا ہوتا تو ہم تک جو جمہوریت پہونچی ہے وہ کب کی ختم ہو گئی ہوتی، کیوں کہ داد ورسن کی یہ آزمائش کم وبیش ہر دور میں رہی ہے، لیکن بڑھنے والے یہ کہہ کر بڑھتے رہے ہیں کہ چلے چلو کہ ابھی وہ منزل نہیں آئی۔ یہ چلنا طوق وسلاسل کے ساتھ ہر دورمیںجاری رہا ہے اور پابجولاں چلنے والے کی تاریخ رقم ہوتی رہی ہے۔