اللّٰہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سب سے قیمتی نعمت ایمان ہے۔مگر ایک اعتبار سے وقت کی اہمیت ایمان سے زیادہ ہے اس لیے کہ وقت نہ ہوتا تو زندگی بھی نہ ہوتی اور زندگی نہ ہوتی تو ہمارا وجود بھی نہ ہوتا اور بغیر وجود کے ہم ایمان کی سعادت سے محروم رہتے،یہ وقت کا ہی کرشمہ ہے کہ ہمیں دنیا و آخرت کی بے شمار نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا،جو شخص اپنے وقت کی قدر کرتا ہے اور تخریبی کام کے بجائے اسے تعمیری کام میں لگاتا ہے،وہ شخص دنیا و آخرت کے عظیم منافع حاصل کرلیتا ہے۔کیوں کہ وقت ہی تبدیلی کا سرمایہ ہے اور وقت کا ایک لمحہ سونے کے کروڑ سکے دینے پر بھی حاصل نہیں ہوتا ۔اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے لمحات کو ضائع کرنے کے بجائے قیمتی بنانے کا حکم دیا آپ نے فرمایا پانچ چیزوں کے آنے سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو،بڑھاپے سے پہلے جوانی کو،بیماری سے پہلے صحت کو،فقر سے پہلے خوش حالی کو،مشاغل سے پہلے فارغ وقت کواور موت سے پہلے زندگی کو۔
جس نے وقت کی قدر کی اس نے دنیا کے ہر میدان میں کامیابی کا جھنڈا گاڑا اور دنیا کو اپنی مٹھی میں کیا؛ لیکن جن لوگوں نے وقت کو یوں ہی برباد کر دیا وقت نے اسے بھی برباد کر دیا اور وہ ہر جگہ ناکام و نامراد رہا۔حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں نظام الاوقات کا کس قدر اہتمام تھا اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے،ایک مرتبہ آپ کے استاد،حضرت شیخ الہند آپ کے یہاں مہمان ہوئے،آپ حضرت کی خدمت میں تھے کہ تصنیف کا وقت آگیا،استاد مکرم کی خدمت میں عرض کیا کہ حضرت،میرا اس وقت کچھ لکھنے کا معمول ہے،اگر اجازت ہو تو اپنا معمول پورا کرلوں؟ حضرت شیخ الہند نے آپ کو اجازت مرحمت فرمادی،استاد مکرم کی تشریف آوری کی وجہ سے اس روز آپ کا دل لکھنے میں نہ لگا لیکن پھر بھی ناغہ نہیں ہونے دیا،تھوڑا سا لکھ کر حاضر خدمت ہوگۓ
یحیی ابن معین اپنے وقت کے بڑے محدث گذرے ہیں ،انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے ہاتھوں سے دس لاکھ حدیثیں لکھیں۔ظاہر ہے یہ وقت کی قدر کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا
اس لیے اگر ہم اپنے آپ کو کامیاب و کامران دیکھنا چاہتے ہیں تو وقت کی قدر کرنی ہوگی کیونکہ دانش مند وقت کی قدر اس کی موجودگی میں کرتے ہیں اور نادان اسے کھوکر بیدار ہوتے ہیں اور عقل مندی تو یہی ہے کہ وقت کا خیال رکھا جائے، اس کے لیے ہمیں اپنا نظام الاوقات بنانا ہوگا اور اس پر سختی سے عمل کرنا ہوگا جس کام کے لیے جو وقت متعین ہو اس وقت میں اسی کام کو کریں
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اپنے آپ کو ضروری اور مفید کاموں کے انجام دینے میں،آج کل،کرنے سے بچو ،کسی بھی کام کو کل یا آئندہ پر مت ٹالو اس لیے کہ،کل،محض ایک دھوکہ اور بہلاوا ہے،یہ انسان کی ناکامیوں کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے اتفاقاً کوئی دو کام بیک وقت ٹکرا جائے تو اس کام کو کرنا چاہیے جو زیادہ ضروری ہو اور انجام کے اعتبار سے زیادہ فائدہ مند۔
لایعنی اور فضول باتوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔اپنے وقت کو غیر مفید کاموں میں خرچ کرنا یہ بھی ضیاع وقت ہی ہے۔ لوگوں سے زیادہ اختلاط بھی ضیاع وقت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے آج کے دور میں موبائل فون اور انٹر نیٹ کا بیجا استعمال بھی اسی صف میں شامل ہوگیا ہے،کیوں کہ آج انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں کی آخرت بھی برباد ہورہی ہے اور دنیوی زندگی بھی تباہ ہورہی۔
وقت کو صحیح جگہ استعمال کرنے کے لیے ہمیں اپنے اوقات کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ وقت کہاں گذر رہا ہے کیا کھویا جارہا ہے اور کیا پایا جارہا ہے اگر ہمارا وقت اچھے کاموں میں گذر رہا ہے تو اللّٰہ کا شکر ادا کریں اگر غلط کاموں میں گذر رہا ہے تو آئندہ اس سے بچنے کا عزم مصمم کریں ان تدابیر کو اختیار کرکے آپ اپنا وقت ضائع ہونے سے بچا سکیں گے اور خود کو کامیاب انسان کی فہرست میں شامل کر سکیں گے۔۔۔۔