سمستی پورمضامین

نبی رحمت کی بکھرتی امت

محمد امام الدین ندوی

مدرسہ حفظ القرآن منجیا ویشالی

مسلمانوں کو آپ صلعم نے ایک جسم کی مانند بتایا ہے۔ایک عمارت سے تعبیر فرما یا ہے۔اس کی بھلائی اور کامیابی متحد ہونے میں ہی ہے۔اس کی بربادی اس کے آپسی انتشار میں مضمر ہے۔اس کی کمزوری آپسی ٹوٹ کا نتیجہ ہے۔ اس کی بے حیثیتی اس کی آپسی کدورت ہے۔
اس کی زندگی اجیرن بن گئی ہے اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہورہی ہے۔اقوام عالم اس پر چہار جانب سے شب خوں مار رہی ہیں اور نرم چارہ سمجھ کر جس طرح چاہتی ہیں اپنا لقمۂ تر بنا رہی ہیں ۔نہ اس کی عزت محفوظ ہے نہ ہی جان ومال اور نہ ہی گھربار نہ ہی عبادت گاہیں اور نہ ہی اسلامی شعار ۔
کبھی پیغمبر کی توہین کی جاتی ہے تو کبھی قرآنی آیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔اس کے بدلے ہم اس شخص کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں ۔سرکار سے اس کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔سرکار کی جانب سےاس پر کوئی مضبوط قانون جاری نہیں ہوتا ہے۔
ہم مسلمان ہیں ۔اسلام ہماری زندگی میں کتنا ہے اسوۂ رسول مسلم معاشرے میں کتنا ہے؟اس پر ایمانداری سے ہم محاسبہ کریں تو ہم اپنے کو صفر پائیں گے ۔ہماری ہر تقریب نفسانی خواہشات پر سجتی ہیں ۔ہماری ہر خوشی رسم ورواج پر قائم ہوتی ہے۔ہمارا معاشرہ اللہ و رسول صلعم کی نافرمانی کا خوگر ہے۔آنکھ کھلنے سے لیکرآنکھ بند ہونے تک ہم اللہ و رسول کو ناراض کرتے ہیں ۔ہمارے معاشرے کے مرد وزن سن بلوغیت سے لےکر قبر میں جانے تک سارے رشتے دار دوست احباب اپنے بےگانے کو راضی کرنے میں پوری عمر گنوائے ہیں پر اللہ و رسول کو راضی نہیں کر پاتے ہیں۔جبکہ ہماری زندگی کا مقصد ہی اللہ و رسول کو خوش کرنا تھا۔
جب ہم اللہ و رسول کے نافرمان ہوگئے تو اللہ نے ہمارے دلوں کو بدل دیا اور ہم آپس میں منتشر ہو گئے ۔نفرت محبت پر غالب آگئی۔دشمنی دوستی کو نگل گئ۔انیکتاایکتا کوبھسم کردیا۔ہم چھوٹے چھوٹے مسائل میں آپس میں دست و گریباں ہوگئے۔
غیروں نے اس خوب کا فائدہ اٹھایا ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو خوب ہوا دیا۔آپس میں ہم بہت دور ہوگئے ۔غیر مسلم کو تو ہم آداب کرتے ہیں پر مسلمان کو سلام نہیں کرتے۔غیر مسلموں کے تقریبات میں شرکت کرتے ہیں اور کھاتے پیتے ہیں پر مسلمان کے یہاں نہیں جاتے۔کیونکہ کہیں ہم ذات کے نام پر الگ ہیں تو کہیں مسلک کے نام پر۔
ہمارا یہ رویہ ہمیں کھوکھلا کردے گا۔ہم اپنے وجود کو نہیں بچا پائیں مذہب کو بچاناتودور کی بات ہے۔اللہ کی رحمت اجتماعیت میں ہے انتشار میں نہیں۔آج سینکڑوں خدا کے پرستار مجتمع ہے پر خدائے واحد کے بندے منتشر ہیں ۔نبی آخر الزماں کی امت چند خانوں میں منقسم ہے۔
اللہ و رسول سے دوری ہی ہمارے انتشار کا راز اور ہماری تباہی کا سبب ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button