میرےمحسنوں، خدارامجھےرسوا نہ کرو
محمد امام الدین ندوی
مدرسہ حفظ القرآن منجیا ویشالی
میں اردو ہوں. بہت میٹھی ہوں۔میری لذتوں سے لوگ آشنا ہیں۔نہ چاہتے ہوئے بھی لوگ مجھے اپناتے ہیں۔میری محبت لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئی ہے ۔
میری ماضی بہت شاندار اور تابناک رہی ہے۔میں نے بڑے بڑے سپوتوں کو جنم دیا ہے۔بڑے بڑے قلم کار،افسانہ نگار، ڈرامہ نگار،شعراء،ادباء، خطوط نویس،فلم ساز،نغمہ پرداز،میری کوکھ سے جنم لئے اور اعلی سے اعلی مقام و منصب پر متمکن ہوئے۔ مفسرین ومحدثین، فقہا نے بھی اپنی آغوش میں محبت سے پالا اور پروان چڑھایا۔بادشاہوں نے اپنے محلوں میں مجھے جگہ دی۔صوفیائے کرام نے اپنی خانقاہوں میں مجھے عزت بخشی اور میری قدر کی۔میں خانقاہوں کی زبان بنی۔ عدالتوں میں منصفوں نے مجھے سراہااورمیری پزیرائی کی ۔دفتروں کے سارے کام کاج میں مجھے استعمال کیاگیا۔دستاویز میں بھی مجھے ترجیح دی گئی۔حکماء نے اپنے نسخے میری زبان میں لکھے۔غرض چھوٹے بڑے تمام مسائل میں میرا سہارا لیا گیا۔
ماضی میں میری بہت پزیرائی ہوئی۔انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔لوگوں نے مجھے دل سے چاہا۔میری ترویج و اشاعت میں کوئی کسر نہ چھوڑا۔میں خوب پھلی،پھولی۔ان پاکیزہ نفوس کو میرا تہ دل سے سلام۔انہوں نے میری ترقی کو اپنی اور اپنے نسلوں کی ترقی تصور کی ۔میری بقا کو اپنی بقا سمجھا۔اپنی آنے والی نسلوں کو مجھ سے مکمل طورپر متعارف کرایا۔اور ان کی روزمرہ کی زبان میں بنی۔
میں کسی خاص قوم،خاص مذہب،ومسلک،کی زبان نہیں ہوں۔میں ملکی سطح پر بولی جانے والی زبان ہوں۔کیا ہندو،کیا مسلمان،کیاسکھ،اور کیا عیسائی،میں سب کی زبان بنی۔سبھوں نے مجھے اختیار کیا۔تمام مذاہب نے مجھے گلے لگایا۔میں سب کی چہیتی بنی۔
ماضی پر مجھے فخر ہے۔کیونکہ اس وقت کے میرے مداحین،وفدائین،نے اپنی تہذیب،وثقافت،اور شناخت،کا محور مجھے تصور کیا۔میں ہی ان کی کل کائنات تھی۔میری عزت،وعفت،کی حفاظت انہوں نے خوب کی۔میں بلا امتیاز سب کی منظور نظر ،اور محبوب تھی۔اس لئے سب نے اپنے اپنے حلقے میں مجھے یکساں جگہ دی۔کسی نے میرا استحصال نہیں کیا۔سب کے سب بے لوث خادم تھے۔سب نے افراد سازی کی۔اپنی نسلوں، اور پیڑھیوں،کو مجھ سے جوڑ دیااور میں ان کی زبان بن گئی۔
ماضی میں میری نشرو اشاعت،اور بقا کے لئے نہ کسی طرح کی کوئی تنظیم بنی،اور نہ کوئی کمیٹی۔بس مجھے پڑھنے لکھنے، بول چال کرنے والوں کے کھیپ کے کھیپ تیار کئے گئے۔یہ عمل نسل در نسل چلتا رہا اور میں لہلاتی رہی۔
میں کالج،یونی ورسٹی،مدرسہ ومکتب،اور اسکول کی بھی زینت بنی۔اور خوب خوب ترقی کی۔ہر طرف میرا ہی چرچہ ۔ہر طرف میری ہی ثناخوانی۔ان لوگوں نے میرا سودہ نہیں کیا۔مجھے پیشہ نہیں بنایا۔میری آڑ میں اپنی خواہشات کی تکمیل نہیں کی۔
میری زندگی طویل ہے۔میری ماضی کی آپ بیتی بہت پر لطف ہے۔میرے جگر پاروں کی فہرست طویل تر ہے۔اس کا احاطہ ممکن نہیں۔
زمانہ گذرتا گیا۔لوگ آتے گئے۔مشرقیت ان کے دل ودماغ پر غالب ہوتی گئ ۔نئی نسلوں کا مزاج بدلتا گیا۔ہم سے کنارہ کشی اختیار کی جانے لگی۔دھیرے دھیرے میرا دائرہ سمٹتا گیا۔اپنوں نے ساتھ چھوڑنا شروع گیا۔ایک وقت آیا کہ میں ایک خاص طبقہ کی زبان بن گئ۔دفتروں ،محلوں،عدالتوں،درباروں،
رجسٹری آفسوں،سے بے دخل کردی گئی۔نہ تو میرے خلاف کوئی احتجاج ہوا، اور نہ کوئی مظاہرہ، مجھ پردوسری زبان کو فوقیت ملی۔میں اپنوں سے ناامید ہوگئی۔
میرا حال،تو بہت ہی بدحال ہے۔میں کسم پرسی کے عالم میں ہوں۔اپنوں نے مجھے گہرا زخم دیا ہے۔میرے پڑھنے والے ناپید ہوتے جارہے ہیں۔اسکول،کالج،یونی ورسٹی، سے تو میرا ایک طرح سے جنازہ نکلتا جارہا ہے۔میرے بچے مجھے چھوڑ کر دوسری زبانوں کو گلے لگا رہے ہیں۔اسکول میں تو کچھ رمق باقی ہے۔پر تشفی بخش نہیں ہے۔ کالج،ویونی ورسٹی کا معاملہ بہت سنگین ہے۔بعض اسکولوں میں پڑھے لکھے اساتذہ بحال تھے۔ ان کی تنخواہ بھی اچھی تھی پر انہوں نے اردو داں طبقہ تیار نہ گیا۔بس مضمون لکھنا ہی ان کا مقصد رہا۔میں ذبح ہوگئ۔کالج،ویونی ورسٹی،میں میرے نام سے شعبے ہیں ۔پروفیسر اور لیکچرر، ہیں پر طلبہ نہیں ہیں ۔ان حضرات کی تنخواہ بہت ہیں۔انہیں بروقت اجرت ملتی ہے۔یہ سو کر اپنی تنخواہ لیتے ہیں۔ان کا تنخواہ لینا کیسا ہے یہ الگ مسئلہ ہے ۔کاش یہ حضرات ایسی ٹیم کو تیار کرتے جو مجھے سمجھتی اور قدر کرتی۔انہوں نے اسے لائق اعتنا نہیں سمجھا۔اور میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان دنوں میرے نام پر بہت سی لائبریری،تنظیم،کمیٹی،وجود میں آرہی ہیں۔مجھے فروغ دینے کے لئے،ملکی،صوبائی،ضلعی،اور بلاک سطح پر مختلف حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔میرے نام پر سرکاری مراعات کی بھیک مانگ کر لوگ خوب کھا رہے ہیں اور اپنی اپنی دوکان چمکا رہے ہیں۔میری دہائی دیکر اپنےشکم کی آگ بجھا رہے ہیں۔سستی شہرت پانے کے لئےلوگ میرا استحصال کررہے ہیں۔میری عزت کو پلید کررہے ہیں۔بڑے بڑے اشتہار چھپوائے جاتے ہیں۔پھر مجلس سجتی ہے میرے نام کی خوب دہائی دی جاتی ہے۔مانو ہر رنگ کے سیار خوب بھونکتے ہیں۔وقت مقررہ پر مجلس برخاست ہوتی ہے ۔کھاتے،پیتے،ہیں پیچھے ہاتھ پونچھ کر چل دیتے ہیں۔کل ہوکر مختلف اخبار میں باتصویر جلی حروف میں خبر لگتی ہے کہ فلاں جگہ،فلاں،فلاں حضرات نے شرکت کی اور فروغ اردو پر خوب چرچا ہوا۔واٹس ایپ اور فیس بک کی دنیا میں ہلچل سی مچ جاتی ہے۔مجھے بہت صدمہ ہوتا ہے گویا میری اولاد مجھ سے چھن گئی ہو۔یا کسی نے میری فوت شدہ ماں کو بھدی بھدی گالیاں دی ہو۔
کاش میرے نام نہاد قائدین جلسہ جلوس،کی بجائے نئی نسلوں کو میری طرف مائل کرتے۔فروغ اردو،اردوتحریک،احیائےاردو،اردوبچاؤ،تحفظ اردو زبان جیسےمختلف تنظیم سازی کے بجائے اسکول،کانونٹ،مکاتب،کوچنگ سینٹر، تعلیمی مرکزوغیرہ کا دورہ کرتے اور نہیں اپنے نصاب تعلیم میں مجھے شامل کرنے پر زور دیتے نیز گارجین حضرات کو میری افادیت سے روشناس کراتے تو میں زندہ رہتی۔ہمارے قائدین سرکار سے بھی مطالبہ کرتے کہ ہر شعبے میں مجھے بھی جگہ دی جائے تو میری بقا ممکن تھی۔پر سوائے شہرت،مادیت،میری تجارت کے نہ کچھ بچا ہے اور نہ کوئی مطلب ہے۔ان کی جھولی میں لائبریری کے نام پر اردو تنظیم کے نام پر سالانہ چند سکے آجاتے ہیں ۔پیٹ پالنے کے لئے یہی کافی ہے۔
انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی شناخت مجھ سے ہے۔ان کی تہذیب ،وثقافت مجھ سے وابستہ ہے ۔ان کی ترقی کا مدار مجھ پر موقوف ہے جس دن میں مرگئ ان کا وجود خاک میں مل جائے گا۔صفحۂ ہستی سے یہ مٹ جائیں گے۔ان کی داستان مٹ جائے گی۔قبل اس کے کہ میری نماز جنازہ ادا کی جائے آنے والی نسلوں کو اردو پڑھنے،لکھنے،سمجھنے،کے لائق بنا دیجئے،ایسی ٹیم تیار کر دیجئے جو مجھے صحیح طور پر سمجھے۔اور بے لوث میری خدمت کرے۔
بھلا ہو اہل مدارس کا،اہل مکاتب کا،ان خرقہ پوشوں،بوریا نشینوں،نے شروع سے آج تک مجھ سے رشتہ مضبوط بنائے رکھا۔معمولی اور حقیر تنخواہ کے باوجود اپنے ناتواں کندھوں پر مجھے اٹھائے رکھا۔آج میں زندہ ہوں تو انہیں کے بہ دولت۔
میرے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوئی کہ مجھے ایک خاص طبقے سے جوڑ دیا گیا اور میں دوسروں کی نگاہ میں مسلمانوں کی زبان سمجھی جانے لگی۔مختلف تنظیم کے ذمے داروں کو چاہئے تھا کہ وہ غیروں کے پاس جاکر اس غلط فہمی کا ازالہ کرتے اور کہتے کہ میں یہاں کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان رہی ہوں۔میرے ساتھ ایسا نہ کرو۔اپنے پروجوں کو دیکھو کہ انہوں نے مجھ سے کیسے اپنا رشتہ بناۓ رکھا۔تب میں بچوں گی ورنہ میرامستقبل مجھے خاکستر کردےگا۔میری تجہیزوتدفین کے بعد تم بھی زندہ رہوگے پر مردہ لاش کی طرح۔