فکر و نظر / مضامین و مقالات

مسلمانوں کے اختلافات کے نتائج برآمد ہونے لگے!!

تحریر۔۔‌۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتی

دنیا کے ایک عظیم ترین شاعر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے کہا کہ

 منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک،

ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک،

حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک،

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک،

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں،،

قرآن کا اعلان ہے کہ ان الدین عنداللہ الاسلام،، اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ دین اسلام ہے اور اسلام کے شامیانے میں رہنے والوں کے لئے بھی قرآن کا اعلان ہے کہ کنتم خیر امۃ اخرجت لناس تم بہترین امت میں سے ہو،، کسی فرقے کی پسندیدگی کا نہ اظہار ہے نہ کوئی اعلان ہے لیکن پھر بھی فرقہ بندی کو دن رات فروغ دیا جاتا ہے، مکتب فکر کو دن رات فروغ دیا جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوا کہ آج مدارس کے نام پر اختلاف، مساجد کے نام پر اختلاف، خانقاہوں کے نام پر اختلاف، خود علماء کے گروپ میں اختلاف،

اب تو ایک ایک مکتب فکر کے علماء میں بھی اختلاف، نماز کے طریقوں میں اختلاف یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مختلف گوشوں پر اختلاف سب ملاکر دیکھا جاتا ہے تو ماحول ناساز گار ہو تو سب مسلمان اور ماحول سازگار ہو تو ایک فرقہ دوسرے فرقے کے لوگوں کو مسلمان ماننے کے تیار ہی نہیں،، اشتہار پر لکھا رہے گا جلسہ عید میلاد النبی، جلسہ سیرۃ النبی پھر بھی چاہے مقررین کا خطاب ہو یا شعراء کے کلام ہوں اس میں اشتہار کے مطابق اور پروگرام کے انعقاد کے اعلان کے مطابق جو اصل مقاصد ہیں اس کی جھلک برائے نام ہی ہوتی ہے پھر بھی کہا جاتا ہے کہ اختلافات باعثِ رحمت ہیں،،

جب اختلافات باعثِ رحمت ہیں تو ایک دوسرے پر لعن و طعن کیوں کیا جاتا ہے، ایک دوسرے پر کفر و شرک کے گولے کیوں داغے جاتے ہیں، رشتہ داریوں میں دراڑ کیوں پڑتی ہے، بعض اوقات ماحول انتہائی کشیدگی کا شکار کیوں ہوتا ہے ان تمام حالات کی روشنی میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ آج کے مسلمانوں کے اندر جو فرقہ بندی کی بنیاد پر اختلافات ہیں وہ باعثِ رحمت نہیں بلکہ مکمل طور پر باعث زحمت ہیں کیونکہ زحمت نام ہی ہے تکلیف کا اور زحمت سے دشواری پیش آتی ہے، رشتہ داریوں میں دراڑ پیدا ہوتی ہے، قربت ختم ہوتی ہے، بغض و حسد کو تقویت ملتی ہے اور یہ ساری چیزیں آج آنکھوں کے سامنے ہیں۔

آج کے مسلمانوں کے اندر جو اختلافات ہیں وہ اگر باعث رحمت ہوتے تو ایک مکتب فکر کے جلسے میں دوسرے مکتب فکر کے علماء کو بھی اور ایک مکتب فکر کے مدرسے کے سالانہ پروگرام میں دوسرے مکتب فکر کے علماء و ذمہ داران کو بھی پرخلوص انداز میں مدعو کیا جاتا اور لوگ شریک بھی ہوتے مگر دور دور تک ایسی بات نہیں ہے بعض مساجد کی دیواروں پر لکھا ہے کہ دوسرے مکتب فکر کے لوگوں کا داخلہ ممنوع ہے یہ مسلکی شدت پسندی ہی تو ہے کہ کانوں میں انگلیاں ڈال کر صدا بلند کی جاتی ہے کہ حی علی الصلوٰۃ و حی علی الفلاح اور مسجد کی دیواروں کی عبارت پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ آؤ فلاں بن فلاں،،

معاشرے کے اندر بگاڑ کا یہ حال ہے کہ اب علماء بھی ڈرتے ہیں سچ بیان کرنے میں کہ کہیں خود اپنی ہی قوم دوسرے مکتب فکر کا لیبل نہ چپکا دے دوسرے فرقے کا ٹائٹل نہ لگا دے اور بعض علماء و مقررین تو اتنی بے سر پیر کی بات بیان کرتے ہیں اور اولیاء کرام و بزرگانِ دین کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ اس سے ہرحال میں اختلاف ہونا ہی ہونا ہے یہی وجہ ہے کہ دوسرے مذہب کے بہت سے لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں کہ ان کی مذہبی تعلیمات کچھ ہے اور ان کا عمل کچھ اور ہے ،، دنیا بھر میں بہت سے لوگ مذہب اسلام میں داخل ہورہے ہیں اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ وہ ہمیں دیکھ کر مسلمان ہو رہے ہیں بلکہ وہ مذہب اسلام کی تعلیمات کو پڑھ کر، سمجھ کر مذہب اسلام کی شیتل چھایا میں داخل ہو رہے ہیں-

افسوس کہ آج ملک کے حالات ایسے ہیں کہ دانشوروں کا طبقہ انتہائی فکر مند ہے لیکن آج بھی کچھ مقررین کی شعلہ بیانی کا یہ حال ہے کہ وہ مقرر آتش فشاں کا کردار ادا کرتے ہیں اور کچھ شعراء ایسے ہیں کہ جو دینی اجلاس کے اسٹیج کو منبر رسول بھی کہتے ہیں اور اسی منبر رسول کی توہین بھی کرتے ہیں اور عوام بھی خوب داد دیتی ہے،، ابھی حال ہی میں ایک شاعر نے ایسا کلام پڑھا ہے کہ اسے شاعر اور نعت خواں کہنا بھی نا مناسب ہے بلکہ اسے تو ایک گویا ہی کہا جانا چاہئے اور ایسے لوگوں سے نقص امن کا خطرہ ہے-

 آج مسلمانوں میں نوجوانوں کا بہت بڑا طبقہ ایسا ہے کہ وہ خلفاء راشدین تک کو نہیں جانتا، عبادت کے طور طریقے کو نہیں جانتا مگر یہ جانتا ہے کہ میرا کون سا فرقہ ہے اور میرے فرقے اور مکتب فکر کے کیا اصول و ضوابط ہیں اس پر وہ عمل پیرا ہے،، حالات پر غور فکر کرنے اور اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اختلافات سے اب تک کتنا نقصان ہوا ہے اور کس کا نقصان ہوا ہے کوئی ضد پر اڑا رہا کہ تین طلاق ایک مجلس میں دینے سے ایک ہی واقع ہوگی تو کوئی کہتا رہا کہ تین طلاق جب بھی دی جائے گی وہ فوری واقع ہوجائے گی دونوں اپنے اپنے دلائل پیش کرتے رہے اور حکومت نے طلاق ثلاثہ بل پاس کر دیا، خود مسلمانوں نے مسجد احناف، مسجد اہلحدیث، مسجد اہلسنت والجماعت جیسا بورڈ اور ٹائٹل مساجد کی دیواروں اور دروازوں پر لگاتے رہے اور بابری مسجد مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئ اور مسلمان بابری مسجد سے محروم ہوگیا، اس کے پیچھے نماز نہیں ہوگی تو اس کے پیچھے نماز نہیں ہوگی تقریر و تحریر اور اسٹیج و اشتہارات سے یہ پیغام دیتے رہے اور اب عوامی مقامات پر نماز کی ادائیگی پر پابندی عائد کردی گئی ورنہ بس اسٹیشن ہو یا ریلوے اسٹیشن چاہے ایرپورٹ ہی کیوں نہ ہو وقت ہو جانے پر نماز پڑھ لیا کرتے تھے یہاں تک کہ ملک کے مختلف علاقوں شہروں میں کتنی ایسی مسجدیں تھیں جو پر ہو جایا کرتی تھیں تو باہر بھی صفیں لگا کرتی تھیں مگر اب ایسا نہیں ہے ،،اور موجودہ دور میں یونیفارم سول کوڈ کے نام پر ماحول گرم ہے تو پھر مسلمانوں کی بات کی جانے لگی یونیفارم سول کوڈ کے بارے میں مزید کچھ کہنا نہیں ہے بلکہ یہ کہنا ہے کہ کب ہم اپنے حالات اور کردار پر غور کریں گے کب تک ہم پیدا شدہ مسائل کو لے کر عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہیں گے آخر وہ دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے بیدار اور تیار کیوں نہیں ہوتے جہاں قانون بنتا ہے-

 ہمارے علماء کرام مدارس اسلامیہ جب یوگا کے نام پر متحد و متفق ہوگئے تو مسلمان کے نام پر کب متحد و متفق ہوں گے اور عوام کو کب سیدھا پیغام دیں گے کہ عوام ساری باتوں کو آسانی سے سمجھ سکے تاکہ امت میں مزید انتشار پیدا نہ ہو اور مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے اور تفرقہ بازی سے باز آجائے شیشہ پلائی دیوار کی طرح نظر آئے پھر قوم اغیار جو قرآن وحدیث کی تعلیمات سے اکثر وبیشتر متاثر ہوجایا کرتی ہیں وہ ہمارے اخلاق و کردار سے بھی متاثر ہونے لگیں-

جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button