فکر و نظر / مضامین و مقالات

مدارسِ اسلامیہ پر سرکار کی نظر : مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

آسام اور اترپردیش سے یہ خبر مسلسل آرہی ہے کہ مدارس اسلامیہ کی عمارت پر بلڈوزر چلایا جا رہا ہے۔ آسام میں چارمدارس کی عمارت منہدم کی جاچکی ہے۔ وہاں کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کی مسلم دشمنی جگ ظاہر ہے۔اترپردیش سرکار نے تمام مدارس کے سروے کا حکم جاری کردیا ہے اور بہار میں بھی بھاجپا کے مرکزی وزیرگری راج سنگھ نے سروے کا مطالبہ شروع کردیاہے، ٹی وی والے بہار کے مدارس اسلامیہ میں جاکر اساتذہ و طلبہ سے سوالات کرکے وہاں کے معیار تعلیم کو نشانہ بنانے رہے ہیں،ٹی وی اینکر عربی، فارسی اور اردو سے عموماً ناواقف ہوتے ہیں، انہیں انگلش اور ہندی کی شدبُد ہوتی ہے، اس لئے وہ طلبہ سے انگریزی کے سوالات پوچھتے ہیں اور بچے غلطیاں کرتے ہیں، پھر ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اس عمل سے مدارس اسلامیہ کی تعلیم سے عوام کا اعتمادبھی اٹھ رہا ہے اور سرکار کو مدارس اسلامیہ پر شکنجہ کسنے کا جواز فراہم ہورہا ہے۔

04ستمبر2022 کو آسام کی مختلف ملی تنظیموں کے سربراہ جن میں جمعیت علماء آسام، جمعیت اہل حدیث،جماعت اسلامی، ندوۃ التعمیر وغیرہ شامل ہیں، نے آسام کے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرکے مدارس کے سلسلے میں اپنی بات رکھی اور غور و فکر بحث و تمحیص کے بعدملت ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ طے پایاکہ کوئی بھی مدرسہ آزاد نہیں رہے گا، ان چھ تنظیموں میں سے کسی کے بینر تلے اسے آنا پڑے گا اور اگر دہشت گردی کاکوئی واقعہ کسی مدرسہ میں سامنے آتا ہے تو وہ تنظیم اس کی ذمہ دار ہوگی اور دار و گیر کے مرحلہ سے اس تنظیم کو گزرنا ہوگا، یہ بات بھی طے پائی کہ ان تمام مدرسوں کا جوان تنظیموں کے ذریعہ چلائے جائیں گے ان کا ایک پورٹل ہوگا جس میں اساتذہ و طلبہ کی تفصیل، آمد کی تفصیلات وغیرہ فراہم کرنی ضروری ہوگی، تنظیموں کے ذمہ داران مدرسوں کا جائزہ لے کر چھ مہینوں میں اس کام کو مکمل کرلیں گے، ان تنظیموں نے سرکار کی طرف سے پیش کردہ ان شرائط کو مان لیا۔ وزیر اعلیٰ نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ جن مدارس کی عمارت منہدم کرائی گئی ہے، سرکار اپنے صرفہ سے اسے تعمیر کرائے گی، آسام میں جو سرکاری مدرسے چل رہے تھے اسے پہلے ہی اسکول میں تبدیل کیا جاچکا ہے۔اگر یہ رپورٹ صحیح ہے تو سرکار اس معاہدہ سے مکر گئی ہے، اس لیے کہ ایک مدرسہ کاانہدام اس معاہد ہ کے بعد ہوا ہے۔

اترپردیش حکومت نے جو سروے فارم جاری کیا ہے اس میں بھی اساتذہ و طلبہ کی تفصیل، آمد و خرچ کا گوشوارہ وغیرہ طلب کیا گیا ہے، اور تمام ضلع مجسٹریٹوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ غیر سرکاری مدرسوں کا سروے کرکے حکومت کو رپورٹ پیش کریں،جن پرائیوٹ مدرسوں کی بات کی جارہی ہے ان میں دار العلوم دیوبند، جامعہ اشرفیہ مبارک پور، دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ، مظاہر علوم سہارن پور، مدرسۃ الاصلاح سرائے میر، جامعۃ الفلاح بلیریا گنج، جامعہ سلفیہ بنارس، مدرسۃ الواعظین لکھنؤ، جیسے بڑے مدارس بھی شامل ہیں، جن کی علوم و فنون کی ترویج اور رجال کار کی تیاری کی اپنی تاریخ رہی ہے، انہوں نے غریب بچوں کو علم کی دولت سے آراستہ کرکے باخلاق،باکردار اور دین و دنیا کے کام کا بنایا، اب یہی مدارس بھاجپا حکومت کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں اور انہیں بند کرنے یا سرکاری شکنجے میں لینے کی تیاری ہورہی ہے، اس وقت اترپردیش میں ایک سروے کے مطابق سولہ ہزار چار سو اکسٹھ (16461)مدارس ہیں ان میں سے صرف پانچ سو ساٹھ کو سرکاری گرانٹ ملتی ہے، گذشتہ چھ برسوں کی بات کریں تو کسی نئے مدرسہ کو کسی قسم کی کوئی سرکاری گرانٹ نہیں ملی ہے، سرکار نے امروہہ میں ایک مدرسہ کو بلڈوزر سے منہدم کرادیا تھا، اور دعویٰ یہ تھا کہ یہ سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا تھا، سوال یہ ہے کہ اس غیرقانونی تعمیر کے وقت متعلقہ افسران کہاں تھے؟

ان معاملات کو دیکھتے ہوئے جمعیت علماء ہند نے مدارس کے ذمہ داروں کی ایک میٹنگ میں اسٹرنگ کمیٹی تشکیل دی ہے ہیلپ لائن جاری کرنے کی تجویز پاس کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ مدارس اسلامیہ کے سلسلے میں کوئی سرکاری زور زبردستی کبھی قبول نہیں ہے، دار العلوم دیوبند نے بھی اس صورت حال سے نمٹنے اور لائحہ عمل تیار کرنے کی غرض سے ایک میٹنگ بلائی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کے ذمہ داروں نے اسے سنجیدگی سے لیا ہے۔

بہار میں اس قسم کا ماحول نہیں ہے اور نتیش سرکار سے مسلمانوں کو یہ توقع ہے کہ وہ مدارس کے سلسلے میں اپنے قدیم موقف کو جاری رکھے گی، کمی کوتاہیاں مدرسوں میں بھی ہیں اور عصری درسگاہوں میں بھی؛لیکن ہمارا کوئی مدرسہ دہشت گردی کے کاموں میں نہ پہلے کبھی ملوث رہا ہے اور نہ اب ہے،یہ سرکاری ایجنسیاں اور بھاجپا کے نفرت پھیلانے والے کارکنان ہیں جو اس کو ہوا دے رہے ہیں،ارجن سنگھ کے دور وزارت میں جب بھاجپا والوں نے مدارس کو دہشت گردی کے اڈے کہا تو امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے ناموس مدارس کنونشن مونگیر میں بلا کر ان جھوٹے لوگوں کے پروپیگنڈے کی ہوا نکال دی تھی اور ارجن سنگھ نے تسلیم کیا تھا کہ مدارس میں ایسا کچھ نہیں ہے پھر یہ پروپیگنڈہ ٹھنڈا پڑا تھا۔

آج ایک بار پھر مدارس سرکار کے نرغے میں ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام ملی تنظیموں کے ذمہ دار سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی ایسا لائحہ عمل طے کریں کہ مدارس اسلامیہ علم و فن کی ترویج و اشاعت، تعلیم و تربیت کی تاریخی و مثالی خدمات کو باقی رکھ سکیں، یہ ملک و ملت دونوں کے لیے ضروری ہے،اس سلسلہ میں حضرت امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم فکر مند ہیں اور ارباب مدارس کے رابطہ میں ہیں، جلد ہی اس سلسلہ میں کوئی مضبوط لائحہ عمل طے کیا جائے گا،اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ صرف دستور میں اقلیتوں کو دیے گئے حقوق کا ذکر کرکے مسائل کو حل کرلیا جائے،دستور، ضوابط اور قانون کی روشنی میں ان مدارس اسلامیہ کے تحفظ کے لیے کوئی خاکہ، کوئی منصوبہ، کوئی ہدف ہونا چاہیے یہ کام کسی ایک تنظیم کے کرنے کا نہیں، مل جل کر کرنے کا ہے، جو آواز متحد ہوتی ہے اس کا وزن ہوتا ہے اور اس گونگی بہری سرکار کو سنانے کے لیے ایسے ہی متحدہ آواز کی ضرورت ہے،الگ الگ میٹنگ کرنا اس مسئلہ کا حل نہیں ہے، ییَالَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْن اے کا ش میری قوم اسے سمجھ پاتی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button