اہم خبریںمضامین

متاع ذکر وفکر

مطالعہ نگار: سید محمد ریاض ندوی کھجناوری
رئیس: جامعة الحسنین صبری پور ، سہارنپور

لکھنؤ کے قریبی سفر میں باغ وبہار طبیعت کے مالک ایک ملی وسماجی اور ادبی شخصیت مولانا طارق شفیق ندوی زید مجدہ صدر آل انڈیا ملی کونسل مشرقی اترپردیش نے اپنا ترتیب کردہ "متاع ذکر و فکر”اور اپنی تصنیف کردہ”اور میری شادی ہوگئی” کا ایک ایک نسخہ بطور ہدیہ نوازا،جب کہ طارق شفیق ندوی صاحب سے ملاقات نہ ہونے کے احساس کو ان کے داماد حافظ محمود الحسن صاحب کے اخلاق نے مسرت کن لمحات میں تبدیل کردیا، اول الذکر کتاب ان کے والد ماجد، نازشِ ملک و ملت دار العلوم ندوة العلماء کے قابل فخر استاذ، علمی ذوق کے حامل،فقیہِ ممتازحضرت مولانا شفیق الرحمٰن صاحب ندویؒ کے قلم اشہب سے نکلے عالم اسلام کی دینی،علمی، سیاسی وثقافتی سر گرمیوں کا تجزیاتی تذکرہ ہے(جب کہ ثانی الذکر تصنیف کے حاصل مطالعہ کو میں ابھی قلمی رنگ نہیں دے سکتا،کیونکہ طارق شفیق صاحب جس خوشگوار ازدواجی دور سے گزرچکے میں نے اس کوچہ جاناں میں ابھی قدم نہیں رکھا،ہاں اتناضرور لکھوں گا،اس تصنیف میں ان کا طرز تحریر دیکھ کر ان کی ادیبانہ شان وسحر انگیز طرز نگارش کامعترف ہوں کہ انہوں نے”سارے خیالات وجذبات شیر و شکر ہوکر ایک ہی ساغر میں ڈھل گئے”لکھ کر اپنی داستانِ سرفروشی کو خانگی ادب ہی نہیں بلکہ لسانی ادب کی جیتی جاگتی تصویر بناکر اور قلم کی نوک پر لاکر ادب وتاریخ کے حوالہ کردیا )

اس مجموعہ میں نومبر 1986ء سے مارچ 1991ء تک لکھے گئے وقیع علمی ودینی، سیاسی وسماجی،فکری وثقافتی مضامین کوکتابی شکل میں لایا گیا ہے تاکہ اس عالی دماغ،بلند ہمت وحوصلہ کے مالک،علمی صلاحیت کے ساتھ ساتھ سیاسی بصیرت کے حامل،مردِ بلندصفات کے فکر و خیالات کو سامنے لایا جائے، تاکہ پس آئندگان ان کی فکر، اور ان کے مطمح نظر کو سامنے رکھ کر ملک میں ترقی کی راہیں،آنے والے فتنوں کا تدارک اور اپنے ماضی کا مطالعہ کرکے صحیح رخ اور درست سمت تلاش کر سکیں۔مرشد الامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتھم ناظم ندوة العلماء وصدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ رقم طراز ہیں:

"عزیز سعید مولوی شفیق الرحمٰن ندویؒ ندوہ کے عالم با عمل اور جید الاستعداد فرزند تھے،ان کی صلاحیت ادب اور فقہ میں زیادہ ممتاز تھی، موصوف کو اردو ادب میں بھی دستگاہ تھی،اردو میں کام ہوتا تو اس میں ان کی پختہ کاری سامنے آتی،اور عربی میں تو ان کی علمی وفنی لحاظ سے پختہ کاری حاصل ہی تھی ،وہ اردو عربی دونوں ہی کے ادب شناس فاضل تھے” ملاحظہ ہو 24ہم نے آج تک مولانا شفیق الرحمٰن صاحب ندویؒ کو ایک تدریسی انسان،باکمال استاد، مربی واتالیق جانا تھا، بلکہ الفقہ المیسر کے آئینہ میں دیکھا تھا،جس سے ان کی فقہ میں بصیرت اور علوم حدیث و فقہ پر گہری نظر اوردستگاہ کا یقین ہوتا تھا، لیکن ان کے قلم کا شاہکار اور راست عقل وفہم کا آبشار یہ تحریروں کامجموعہ جب مطالعہ میں آیا، تو یہ حقیقت آشکارا ہو گئی، کہ وہ تدریس وکتب کے ساتھ ساتھ قلم کے بھی دھنی تھے، عالم اسلام اور خصوصا مسلمانوں پر اٹھنے والے مسائل پر نگاہ رکھتے تھے،ان کے سدباب کے لئے ان کا قلم تفنگ کا کام کرتا تھا،مرغ بسمل کی طرح پھڑک اٹھتا تھا،نئے فتنوں کو بھانپنا اور بر وقت ملت اسلامیہ کی رہنمائی کرنا اس کو وہ تدریس وافادہ کے ساتھ ساتھ اپنا ایک فریضہ قرار دیتے تھے، مسلمانوں کی دینی وتہذیبی احیاء کو اپنا موضوع سخن بناتے،مفید اور مثبت کام کو ظاہر کرتے۔

فاضل قلم کار اور صاحب اسلوب مولانا علاءالدین ندوی صاحب دامت برکاتھم کتاب کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں،جن کی قلمی شہادت اہل نظر کے لئے کافی ہو:
” ایک تو یہ کہ ان تحریروں کی ماہیت میں ادبی رنگ وروغن کی خوشبو رچی بسی ہے، مجھے پہلے اندازہ نہ تھا کہ مولانا کا ادبی ذوق اتنا صاف ستھرا اور معیاری ہے، مولانا کو ان قلم کاروں میں جگہ دینی چاہئے جو کم لکھتے تھے، کم لکھنے والے چاہے شہرت کے بام عروج کو نہ چھو پاتے ہوں مگر جو کچھ وہ لکھتے ہیں وہ پخته، وقیع ، معیاری ، قابل قدر، فکر انگیز اور متاع گراں مایہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔

مولا نا کی زبان خاصی شگفتہ، شستہ، سلیس، رواں، واضح مستحکم اور مقصدیت سے لبریز ہوتی ہے ، اس کتاب کے مندرجات کو پڑھ کر کوئی بھی اس کی شہادت دے گا کہ مولانا کا قلم ایک کہنہ مشق صحافی کا قلم تھا، جوموزوں اور مطلوبہ صحافت کے اقدار کا حامل تھا۔ مجھے تو آپ کے قلم میں کہیں بھی ژولید گی کا شائبہ نظر نہ آیا اگر اہل ادب برا نہ مانیں تو میں مولانا کی زبان کو’’ اردوئےمبین‘‘ کہنے کی جسارت کروں گا، جس میں دبستان شبلی کے علاوہ کچھ دوسرے اصحاب طرزمفکروں کے رنگ کا رچاؤ ہے۔
ملاحظہ ہو 21مضامین کے مطالعہ سے آپ کی ملت کے مسائل پر گہری نگاہ، اور حالات پر عمیق نظر کا اندازہ ہوتا ہے کہ نئے فتنوں کو بھانپ کر متنبہ کرنا،تدبیر بتلانا،سوچ میں غرق ہوجا نا ان کو آتا تھا،اور یہی فکر دامن گیر ہو تو ایک مرد بلند اقبال بن جاتا ہے،اور تاریخ اس کو ایک مرد آہن کہہ کر اپنے سینہ میں محفوظ رکھ لیتی ہے،یہ تحریریں شائستہ وسادہ، سلاست وروانی سے بھرپور ہیں،برجستگی کا مظہر ہیں، ایمان ویقین کی آمیزش سے ان کو سامنے لایا گیا ہے، یہ اُس تڑپ،سوزِدروں سے لکھی گئی صدا ہے،جو چٹانے چور کرنے کا عزم پیدا کرتی ہے، ان تحریروں کی گونج اس وقت بھی سنی گئی جس کی گواہی مشاہیر علم وقلم دیتے ہیں اور آج بھی یہ فکر ونظر کو پروان چڑھانے، حالات کو سمجھنے، فتنوں کو بھانپنے اور قوتِ عمل میں اضافہ کا کام کرتی ہیں۔مرتب کتاب مولانا طارق شفیق صاحب ندوی لکھتے ہیں:

آئندہ نسل کے لئے ضروری تھا کہ وہ اس سے آشنا ہو،ورنہ وہ بھول جائیں گے کہ "تھے کن ڈالیوں کے ہم ثمر” ویسے بھی اس قدر شستہ وشگفتہ اسلوب نگارش کو روپوش رکھنا میرے نزدیک کفران نعمت ہے۔طارق شفیق ندوی صاحب روبرو نہیں،بلکہ بہت دور ہیں،ورنہ گلے لگ جاتا اور تہنیت پیش کرتا کہ انہوں نے ایک چھپے ہوئے خزانے کو فائل اور رسائل سے نکال کر مطالعہ واستفادہ کے قابل بنایا اور اپنے والد کی محبت کا حق ادا کیا، اور ان کے شاگردگان ومتعلقین نیز اصحاب نظر کے سامنے ان کی بکھری ہوئی تحریروں کو جمع کردیا جس سے قارئین ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔
تحریروں کا یہ مجموعہ 352 صفحات پر مشتمل،دیدہ زیب ٹائٹل،سفید کاغذ پر مشتمل مشہود انٹرپرائزر،ندوہ روڈ لکھنؤ پر دستیاب ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button