عالمی سطح پر ہوا کے معیار کے لئے نئی ہدایات جاری
سال 2005 کے بعد پہلی مرتبہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اپنے ہوائی معیار کی راہنما ہدایات میں ترمیم کرتے ہوئے نئی ہدایات جاری کی ہیں۔ ہوا کے معیار کی یہ ہدایات فضائی آلودگی کے صحت پر واقع اثرات کا تجزیہ فراہم کرتی ہیں نیز ان فضاء کو آلودہ کرنے والوں کے لئے حد مقرر کرتی ہیں جو آگے چل کر صحت کے لئے مشکل پیدا کرتے ہیں،کئی حکومتیں ان ہدایات کو اپنے ملک کے ہوائی معیار کی بنیاد بناتی ہیں اگرچہ ممالک قانونی طور پر ان ہدایات کے پابند نہیں ہیں لیکن ہوائی معیار کی یہ سفارشات عالمی سطح پر فضائی آلودگی کے سدباب میں ایک نئے نقطہ نظر کے ساتھ اہم موڑ لاسکتی ہے
واضح رہے کہ فضائی آلودگی ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا ماحولیاتی خطرہ ہے۔اسی سلسلے میں ڈبلیو ایچ او کی گلوبل ایئر کوالٹی گائیڈ لائنز (اے کیو جی) انسانی صحت پر فضائی آلودگی کے ہونے والے نقصانات کے واضح ثبوت فراہم کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ یہ نقصان پہلے سے سمجھی گئی حراستی سطح سے بھی کم سطح پر ہوجاتا ہے، یہ ہدایات فضائی آلودگی کے اہم عوامل، جنمیں سے کچھ ماحولیاتی تبدیلی میں بھی کردار ادا کرتے ہیں، کی سطح کو کم کرکے انسانی صحت کی حفاظت کے لئے ائیر کوالٹی کی نئی سطح تجویز کرتی ہیں
2005 میں ڈبلیو ایچ او کی گزشتہ اپ ڈیٹ کے بعد سے ان ثبوتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو ظاہر کرتے ہیں کہ فضائی آلودگی صحت کے مختلف پہلوؤں کو کس طرح متاثر کرتی ہے ،اس وجہ سے اور اکھٹا ہوئے شواھد کے ایک منظم جائزہ کے بعد ڈیبلو ایچ او نے یہ انتباہ دیتے ہوئے کہ نئی ایئر کوالٹی گائیڈ لائن کو کراس کرنا صحت کے اہم خطرات سے وابستہ ہے، تقریبا تمام ائیر کوالٹی لیولز کو نیچے کی طرف ایڈجسٹ کیا ہے۔ ان نئی ہدایات پر عمل آوری لاکھوں جانیں بچاسکتی ہے
اندازے کے مطابق ہر سال فضائی آلودگی کی وجہ سے 7 ملین قبل از وقت اموات ہوتی ہیں اور زندگی کے لاکھوں صحت مند سالوں کا نقصان ہوتا ہے ، بچوں میں اسکی وجہ سے ہونے والی بیماریوں میں پھیپھڑوں کا بڑھنا اور کام میں کمی ، سانس کے انفیکشن (سانس کی بیماریاں) اور بڑھتی ہوئی دمہ شامل ہو سکتے ہیں جبکہ بالغوں میں اسکیمک دل کی بیماری اور فالج فضائی آلودگی کی وجہ سے قبل از وقت موت کی سب سے عام وجوہات ہیں نیز ذیابیطس اور نیوروڈیجینریٹو حالات جیسے اثرات کے ثبوت بھی سامنے آرہے ہیں، یہ فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماری کو غیر صحت بخش غذا اور تمباکو نوشی جیسے عالمی سطح پر صحت کے بڑے خطرات کے برابر بنادیتا ہے
ہندوستان کی صورتحال
انڈیا کے نیشنل کلین ائیر پروگرام (NCAP) کا مقصد 2024 تک PM2.5 اور PM10 کی سطح میں سال 2017 کو بنیاد بناتے ہوئے 20-30 فیصد کمی کرنا ہے، ڈبلیو ایچ او کی جانب سے سب سے زیادہ آلودہ قرار دئیے گئے شہروں کی فہرست میں موجود ملک کے 10 آلودہ شہروں کو شامل کرتے ہوئے این سی اے پی کے لیے 122 شہروں کی نشاندہی کی گئی جو 2011/15 کی مدت کے لئے ملک کے نیشنل ائیر کوالٹی معیارات پر پورا نہیں اترتے تھے۔ اس معیار کو سینٹرل آلودگی کنٹرول بورڈ (سی پی سی بی) نے دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ "صحت کے تحفظ” کو یقینی بنانے کے لیے قائم کیا تھا،
گرین پیس انڈیا کے ایک تجزیہ کار کے مطابق دنیا کے 100 میں سے 92 شہروں نے ڈبلیو ایچ او کی ترمیم شدہ ہوائی معیار کی ہدایات سے تجاوز کر لیا ہے، 2020 میں دہلی کا سالانہ PM2.5 ٹرینڈ ڈبلیو ایچ او کے 2021 کے 5 ug/m3 کے رہنما خطوط سے 16.8 گنا زیادہ تھا، جبکہ ممبئی کا 8 گنا ، کولکتہ کا 9.4 ، چنئی کا 5.4 ، حیدرآباد کا 7 گنا اور احمد آباد کا 9.8 گنا سے زیادہ تھا
دنیا بھر کے 10 شہروں میں فضائی آلودگی کی وجہ سے قبل از وقت اموات اور مالی نقصانات کا تجزیہ کیا جائے تو دہلی میں 2020 میں سب سے زیادہ 57 ہزار اموات ہوئیں۔ اس کے علاوہ فضائی آلودگی کی وجہ سے جی ڈی پی میں 14 فیصد کا نقصان ہوا۔
فضائی آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلی
فضائی آلودگی موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا ماحولیاتی خطرہ ہے، ہوا کے معیار کو بہتر بنانے سے موسمیاتی تبدیلی کو کم کرنے کی کوششوں کو فروغ مل سکتا ہے نیز اخراج کو کم کرنے سے ائیر کوالٹی میں بہتری آئیگی، راہنماء ہدایات پر عمل آوری کی کوشش کرکے ممالک انسانی صحت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ عالمی کلائمیٹ چینج کو بھی بے اثر کرسکیں گے
ماہرین کی آراء
اپنے تبصرے میں ڈاکٹر ارون شرما ، ڈائریکٹر نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار امپلیمنٹ ریسرچ آف نان کمیونیکیبل ڈیزیزز آئی سی ایم آر کہتے ہیں کہ ایک سادہ سی بات ہے کہ جتنا ہم فضائی آلودگی سے دور رہیں گے ،اتنے ہی ہم صحت مند ہوں گے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے نئے اے کیو جی کے تحت پی ایم 2.5 اور پی ایم 10 کی نمائش کی سطح کو کم کرکے ہوا میں ذرات کی موجودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے مزید کوششیں کرنے کی ضرورت پر دوبارہ زور دیا ہے۔لیکن ہندوستان جیسے ملک کے لیے ذرات سے متعلق ان سخت ہدایات پر عمل کرنا ایک بڑا چیلنج ہے مگر مجھے امید ہے کہ تمام متعلقین کی جانب سے کوششوں کو مزید تیز کیا جائے گا تاکہ ذراتی آلودگی کے نئے مقرر کردہ اہداف کے حصول کے لیے مخلصانہ کوششیں کی جا سکیں۔ "
ڈاکٹر رویندر کھیوال ، پروفیسر شعبہ ماحولیاتی صحت ، پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ چندی گڑھ کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے فضائی آلودگی کے اہم اجزاء کے لئے اور بھی سخت معیارات کی سفارش کی ہے جیسا کہ 24 گھنٹوں میں PM2.5 کی محفوظ کمپیکشن اوسط 25ug گھن میٹر کے بجائے اب 15ug گھن میٹر طے کی گئی ہے۔یہ اہم ہے اور اس سے ہوا کے بہتر معیار کو یقینی بنانے کے لیے سخت اور فوری اقدامات کرنے پر توجہ دی جائے گی فضائی آلودگی قبل از وقت موت اور بیماریوں کا ایک خطرناک سبب بن گئی ہے عالمی ادارہ صحت کی نئی گلوبل ایئر کوالٹی گائیڈ لائنز پر عمل کرنا بہت مشکل لگتا ہے ، لیکن نیشنل کلین ایئر پروگرام کے تحت ہندوستان اپنے شہروں میں فضائی آلودگی کو 20 سے 30 فیصد تک کم کرنے کے لیے پرعزم ہے،فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ ہمیں بہتر آب و ہوا اور اچھی صحت میسر ہو سکے
لنک کیئر فاؤنڈیشن کے بانی اور چیسٹ آرکنو سرجری اینڈ لنگ ٹرانسپلانٹیشن کے چیسٹ سرجری انسٹیٹیوٹ کے صدر ڈاکٹر اروند کمار کہتے ہیں کہ ایک ڈاکٹر کے طور پر ہم نے اپنے مریضوں پر فضائی آلودگی کے اثرات کو قریب سے دیکھا ہے ، یہ عالمی صحت سے متعلق ایمرجنسی صورتحال ہے جس سے پوری دنیا کے لوگوں کی زندگی پر اثر پڑرہا ہے نیز سب سے برا اثر جنوبی ایشیا پر ہورہا ہے، جیواشم ایندھن کا استعمال موسمیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی دونوں کا ہی اہم سبب ہے، جنوبی ایشیائی ممالک کی حکومتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی نیشنل ائیر کوالٹی کو عالمی ادارہ صحت کی تازہ ترین ہدایات کے مطابق ڈھالیں اور ایک علاقائی نقطہ نظر اختیار کریں جس میں فضائی آلودگی کے بحران سے نمٹنے اور اس کے حل کے لئے تجویز کردہ اقدامات میں صحت کو مرکزیت دی جائے، ہمیں اس تعلق سے پہلے ہی کام کرلینا چاہئے تھا لیکن ہمنے موقع گنوا دیا اب ہمیں آنے والی نسلوں کے لیے سب کچھ کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ اس بحران کو جلد از جلد حل کیا جا سکے۔ اگر آج ہم نے ٹھوس اقدامات نہیں کئے تو ہماری آنے والی نسل کو اس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا،
اپنے تبصرے میں آئی آئی ٹی کانپور کے پروفیسر اور نیشنل کلین ایئر پروگرام کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے رکن پروفیسر ایس این ترپاٹھی نے کہا یہ ثابت کرنے کے لیے بہت سارے سائنسی شواہد موجود ہیں کہ فضائی آلودگی کی وجہ سے صحت پر سنگین اثرات پڑرہے ہیں اور دنیا کی 90 فیصد آلودہ ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہے ،فضائی آلودگی صحت کے لیے انتہائی سنگین خطرہ ہے اور عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ائیر کوالٹی کی نئی گائیڈلائن نے اس مسئلے کو دوبارہ توجہ کا مرکز بنادیا ہے آج حالت یہ ہے کہ بھارت میں PM2.5 کی موجودہ سطح 40ug گھن میٹر ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت نے سال 2005 میں اسکی سالانہ حد 10ug گھن میٹر مقرر کی تھی، صورتحال یہ ہے کہ ہندوستانی شہر سابقہ سطح کے حصول میں بھی ناکام ثابت ہوئے ہیں، ہمیں اپنے ہیلتھ ڈیٹا کو مزید بہتر کرکے اس کے مطابق نیشنل کلین ائیر پروگرام بنانا ہوگا
ڈبلیو ایچ او کے نئی گائیڈلائن 6 آلودگیوں کے لیے ائیر کوالٹی کی سطح کی سفارش کرتی ہے ، جہاں صحت پر اثرات کے ثبوت انتہائی زیادہ ہے ،جب ان نام نہاد آلودگی کے عوامل پارٹیکولیٹ مادہ (PM) ، اوزون (O₃) ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ (NO₂) ، سلفر ڈائی آکسائیڈ (SO₂) اور کاربن مونو آکسائیڈ (CO) پر کاروائی کی جاتی ہے تو ان کا دیگر نقصان دہ آلودگیوں پر بھی اثر پڑتا ہے
10 اور 2.5 مائکرون کے برابر یا اس سے چھوٹے پارٹیکولیٹ میٹر سے جڑی مشکلات صحت خاص طور پر صحت عامہ سے متعلق ہے ، PM₂.₅ اور PM₁₀ دونوں پھیپھڑوں میں گہرائی سے داخل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، لیکن PM₂ خون کے دھارے میں بھی داخل ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں یہ بنیادی طور پر قلبی اور سانس کے اثرات کا باعث بنتا ہے ، اور دوسرے اعضاء کو بھی متاثر کرتا ہے، PM بنیادی طور پر مختلف شعبوں بشمول نقل و حمل ، توانائی ، گھروں ، صنعت اور زراعت میں ایندھن کے جلانے سے پیدا ہوتا ہے 2013 میں ، بیرونی فضائی آلودگی اور ذرات کو ڈبلیو ایچ او کی بین الاقوامی ایجنسی برائے تحقیق برائے کینسر (IARC) نے کارسنجینک کے طور پر درجہ بند کیا تھا۔
گائیڈ لائن بعض قسم کے ذرات کے انتظام کے لیے اچھے طریقوں کو بھی اجاگر کرتی ہیں (مثال کے طور پر ، کالا کاربن/بنیادی کاربن ، الٹرافائن ذرات ، ریت اور دھول کی آندھی سے پیدا شدہ ذرات) جس کے لیے فی الحال ائیر کوالٹی گائیڈ لائن کی سطح کا تعین کرنے کے لیے ناکافی مقدار میں ثبوت ہیں، وہ عالمی سطح پر اندرونی اور بیرونی دونوں ماحول میں نافذ ہوتے ہیں اور سبھی سیٹنگز کو کور کرتے ہیں
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ادھانوم گیبریئس نے کہا کہ فضائی آلودگی تمام ممالک میں صحت کے لیے خطرہ ہے ، لیکن یہ کم اور اوسط آمدنی والے ممالک کے لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے ڈبلیو ایچ او کی نئی ایئر کوالٹی گائیڈلائنز ہوائی معیار جس پر تمام زندگی کا انحصار ہے، کو بہتر بنانے کے لیے ایک ثبوت پر مبنی اور عملی ٹول ہے ، میں تمام ممالک اور ان تمام لوگوں سے اپیل کرتا ہوں جو ہمارے ماحول کے تحفظ کے لیے برسرپیکار ہیں کہ تکلیف کو کم کرنے اور زندگی بچانے کے لیے اسکو استعمال کریں۔
بیماریوں کا ایک بڑا بوجھ
کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں سب سے زیادہ بیماریوں کے بوجھ کے ساتھ صحت مند زندگی کے کروڑوں سال ضائع ہوگئے ہیں۔ وہ جتنا زیادہ فضائی آلودگی کا شکار ہوتے ہیں ، اتنا ہی بوڑھے لوگ ، بچے اور حاملہ خواتین کے ساتھ ساتھ خاص طور پر وہ لوگ جو طویل مدتی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں (جیسے دمہ ، دائمی رکاوٹ پلمونری بیماری اور دل کی بیماری والے افراد) کی صحت پر زیادہ اثر پڑتا ہے
یوروپ کے لئے ڈبلیو ایچ او کے ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر ہنس ہینری پی کلوج نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او کا اندازہ ہے کہ سالانہ لاکھوں اموات فضائی آلودگی کے اثرات سے ہوتی ہیں بنیادی طور پر غیر متعدی بیماریاں، ایک صحت مند سماج اور معاشرے کے لیے صاف ہوا بنیادی انسانی حق اور ضروری شرط ہونی چاہیے، لیکن گزشتہ تین دہائیوں میں ائیر کوالٹی تھوڑا بہتر ہونے کے باوجود لاکھوں لوگ قبل الوقت موت کا شکار ہیں، اور اس سے اکثر انتہائی کمزور اور پسماندہ آبادی متاثر ہوتی ہے۔ یہ گائیڈلائن پالیسی سازوں کو اس طویل مدتی صحت کے بوجھ سے نمٹنے کے لیے ٹھوس ثبوت اور درکار ٹولز فراہم کرتی ہیں۔
گائیڈ لائن کا ہدف تمام ممالک کے لیے تجویز کردہ ہوا کے معیار کو حاصل کرنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کئے گئے ایک ریپڈ سنیریو اینلائسز کے مطابق اگر موجودہ فضائی آلودگی کی سطح کو نئی گائڈلائین میں تجویز کردہ سطح تک کم کر دیا گیا تو دنیا میں PM₂.₅ سے متعلقہ تقریبا 80 فیصد اموات سے بچا جاسکتا ہے۔