سلطان محمودغزنویؒ کی رحم دلی
✍️محمدافضل حسین پورنوی
سلطان محمودؒکومخالفین اورمعاندینِ اسلام نےانتہاءسےزیادہ بدنام کررکھاہےمفاد پرستی اورخبزِسیاست سیکنےمیں ان پرطرح طرح کےبےبنیادالزامات کَسےہیں،چنانچہ ان کےمتعلق کہاجاتاہےکہ انہوں نےاپنےزمانئِہ سلطنت میں اسلام کی اشاعت کےلئےتلوارکااستعمال کیا،بہت سےمندروں کومنھدم کیااوراپنےدورِاقتدارمیں اقلیتوں پرظلم وزیادتی کوروارکھااورنہ جانے اس طرح کےکتنےالزامات ایسےہیں جن کاسرہےنہ پیرسوائےاقتدارکی کرسی حاصل کرنےکےاورکچھ نہیں،حقیقت وسچائی یہی ہے۔لیکن مقامِ تاسف یہ ہےکہ تاریخِ ماضی کےمتحرّف ومتبدّل ماہرین نےاس چابک دستی سےحقیقی تاریخ میں الٹ پھیرکرنےکی کوشش کی ہےکہ جس کےنتیجےمیں غیرتوغیرہماری قوم کےبھی وہ افراد جوظاہرپرست اوراپنوں کی تحقیق سےمنہ چراتےہیں اورغیروں کی کذب پرمبنی ریسرچ کوہاتھوں ہاتھ لیتےہیں وہ بھی متاثررہےبغیرنہیں رہتے اورپھرشکوک وشبہات کی دلدل میں دھنسےچلےجاتےہیں،آئیے! اسی تاریخی جھوٹ کاپوسٹ ماٹم سلطان محمودؒ کی رحم دلی،شفقت اورغیرکےساتھ حسنِ سلوک سےمتعلق ایک واقعہ سےکرتےہیں۔
مجدّدالملت حضرت تھانویؒ اپنی کتاب”اشرف الجوب”میں رقم طرازہیں کہ:
ایک بارسلطان محمودؒنےہندوستان پرحملہ کیااوربہت سےہندوجنگ میں قیدہوۓجن کووہ اپنےساتھ غزنی لےگئےان میں ایک غلام بہت ہونہاروہوشیارتھااس کوآزادکرکےسلطانؒ نےہرقسم کےعلوم وفنون کی تعلیم دی جب وہ تعلیم سےفارغ ہواتواس کوحکومت کےعہدےدےدئےگئےحتیٰ کہ رفتہ رفتہ اس کوایک بڑےملک کاصوبہ داربنادیا۔صوبہ دارکی حیثیت اس وقت وہ تھی جوآجکل کےبڑےوالئیِ ریاست کی ہوتی ہےجس وقت اس کوسلطانؒ نےتخت پربٹھلایااورتاجِ حکومت سرپرسجایاتووہ غلام رونےلگا،سلطانؒ نےفرمایاکہ یہ وقت خوشی کاہے،یاکہ غم کا،اس نےعرض کیاکہ جہاں پناہ! اس وقت مجھےاپنےبچپن کاایک واقعہ یادآکرپھراپنی یہ قدرومنزلت دیکھ کرروناآگیا،حضورجس وقت میں ہندوستان میں بچّہ ساتھاتوآپ کےجملوں کی خبریں سن سن کرہندوکانپتےتھےاوران کی عورتیں اپنےبچّوں کوآپ کانام لےکرڈرایاکرتی تھیں جیساہوّاسےڈرایاکرتی ہیں میری ماں بھی مجھےاس طرح آپ کےنام سےڈرایاکرتی تھی میں سمجھتاتھاکہ محمودنہ معلوم کیساجابروظالم ہوگا،حتیٰ کہ آپ نےخودہمارےملک پرحملہ کیااوراس فوج سےآپ کامقابلہ ہواجس میں یہ غلام موجودتھااس وقت تک میں آپ کےنام سےبھی ڈرتاتھاپھرمیں آپ کےہاتھوں قیدی ہواتومیری جان ہی نکل گئی کہ بس اب خیرنہیں مگرحضورنےدشمنوں کی روایات کےخلاف میرےساتھ ایسابرتاؤفرمایاکہ آج میرےسرپرتاجِ سلطنت رکھاجارہاہےتواس وقت مجھےیہ خیال کرکےروناآگیا کہ کاش! آج میری ماں ہوتی تومیں اس سےکہتاکہ دیکھ! یہ وہی محمودہےجس کوتوہوّابتلایاکرتی تھی۔ تنتہی قصّہ "
(اشرف الجواب)
تبصرہ ازخاکسار:
ویسےبیرسٹراسد الدین اویسی صاحب کوسلطان محمودغزنویؒ کےبرابرکادرجہ توہرگزنہیں دیاجاسکتالیکن آج وہ تمام سیکولرپارٹیاں جومسلم ووٹوں کااستعمال صرف حصولِ اقتدارکےلئےکرتی ہیں ان کی طرف سےاویسی صاحب کےمتعلق تمام کمیونٹی میں خواہ مسلم ہویاہندوایسےہی ایک ہوّاکھڑاکیاجارہاہےجیسےسلطان محمودؒ کےبارےمیں کیاگیاتھا،مسلمانوں کواس بات سےڈرایاجاتاہےکہ اگراویسی کوسپورٹ کروگےتوبرسرِ اقتدارپارٹی کوفائدہ پہنچےگااورپھرسےوہ اقتدارپرقابض ہوجائےگی اورادھرہندوکویہ کہکرخوف ودہشت میں مبتلاکیاجاتاہےکہ دیکھو!اویسی آجائےگاتوتم محفوظ نہیں رہ پاؤگےیہ اوربات ہےکہ ان کےاقتدارمیں یہ کتنےمحفوظ اورسرکشت ہیں جگ ظاہرہےبہرحال!
خلاصہ یہ کہ اویسی صاحب کولیکرایک خوف کاماحول بنایاجارہاہےلیکن ہم زندہ اورباشعورقوم ہیں،تاریخ ہمارےسامنےہےماضی کےدردناک واقعات ہماری نگاہوں سےروپوش نہیں ہیں لہٰذاکسی ہوّاوخوف کاشکارہوئےبغیربیدارمغزی اورروشن ضمیری کاثبوت دیں اورانقلابِ تاریخ کی نیت کےساتھ اپنی اپنی رائےکابجااوردرست استعمال کرکےایسی منصف مزاج پارٹی کوتختِ حکومت سونپیں کہ بعدمیں ان کی نمایاں کارکردگی کودیکھ کرمخالفین خودیہ کہنےپرمجبورہوجائےکہ دیکھو!یہ وہی پارٹی ہےجس کوتم ہوّا بتلایاکرتےتھے،
ورنہ بصورتِ دیگرہوّااورخوف ودہشت میں مبتلاءکرکےایسےہی ہمارااستحصال اوراستعمال ہوتارہےگا۔