خطاب جمعہ ….. نکاح کو آسان بنائیے اور رسم و رواج سے پاک رکھئے
تحریر :محمد قمر الزماں ندوی
دوستو، بزرگو اور بھائیو!
اسلام نے شادی بیاہ میں ہر اعتبار سے سادگی کی رعایت برقرار رکھی ہے۔ شادی کو آسان بنایا، اور سب سے بابرکت نکاح اس نکاح کو قرار دیا جو خرچ اور لوازمات کے اعتبار سے ہلکا اور آسان ہو۔نکاح کی سادگی کی مثال دیکھئے کہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا مدینہ منورہ میں نکاح اور عقد ہوتا ہے اور حضورﷺ کو اس کی اطلاع اور خبر بھی نہیں ہوتی، شادی کے بعد ملاقات ہوتی ہے، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے کپڑے پر عطر کا رنگ اور نشان پیلے رنگ کا نظر آتا ہے، حضورﷺ دریافت فرماتے ہیں کہ عبد الرحمٰن یہ پیلا رنگ کیا ہے؟ جواب دیا: حضورﷺ کو کہ یا رسول اللہ! ایک دو روز قبل شادی کی سنت ادا کی ہے، کپڑے پر اسی عطر کا نشان اور اثر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ ناراضگی کا اظہار فرمایا اور نہ یہ سوال کیا کہ مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟ صرف اتنا فرمایا کہ ولیمہ کرو چاہے ایک بکرا ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔ کیا حضورﷺ سے بڑھ کر دنیا میں کسی کا رتبہ ہے اور کیا ان سے بڑھ کر کسی کا مقام ہے۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ نکاح سادگی کیساتھ ہو اور اس کے لوازمات مختصر ہوں۔۔۔۔۔
آج شادی کو سب سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ بنادیا ہے ہم نے، اور اس میں عوام و خواص اور خواندہ اور ناخواندہ سب یکساں ہیں چند خاندان اور چند علاقے ہیں جن کے یہاں سنت کی رعایت کیساتھ شادی ہوتی ہے اور نکاح سادگی کے ساتھ کرتے ہیں۔۔ بارات کی کثرت اور شادی کی فضولیات نے تو لڑکی والوں کی کمر کو توڑ کر رکھ دی ہے۔۔۔۔ جب کہ شریعت نے اس کو بہت آسان اور سادہ بنایا ہے۔
نکاح کے ارکان میں ایجاب و قبول اور مجلس عقد میں گواہوں کی موجودگی شرط ہے۔۔ کم از کم دو بالغ مسلمان مرد یا ایک مرد دو عورتوں کا بطور گواہ نکاح کی مجلس میں بوقت نکاح موجود رہنا ضروری ہے۔ جو ایجاب اور قبول دونوں کو سنیں، لیکن جتنے زیادہ لوگ موجود ہوں اتنا ہی بہتر ہے۔۔ یہی وجہ ہے کہ احادیث میں اعلان نکاح کی ترغیب ہے اور یہ بھی ہدایت ہے کہ مسجدوں میں نکاح کیا جائے تاکہ دیندار نمازی حضرات کے مجمع میں نکاح ہو۔۔ بارات وغیرہ کا یہاں کوئی تصور نہیں ملتا۔۔ برصغیر میں شادی بیاہ میں بارات کا رواج برادران وطن کا اثر ہے۔۔ یہ ان کی سماجی یا مذہبی ضرورت رہی ہوگی۔۔
جن قوموں نے اسلام قبول کیا اجداد کی یہ رسم ان میں اب تک کسی نہ کسی درجے میں باقی ہے، جو مسلمان کہیں اور سے آکر یہاں بس گئے انہوں نے بھی یہ اثرات قبول کئے۔ اس طرح مسلمانوں میں بھی بارات کا عام چلن ہوگیا۔ جب کہ اسلامی تعلیمات بارات کے تصور سے خالی ہیں۔ اس کے برخلاف ولیمہ کا البتہ ذکر موجود ہے اور اس کی آنحضرتﷺ نے ترغیب دی ہے۔
ولیمہ رخصتی کے بعد شوہر کی طرف سے دی جانے والی دعوت کا نام ہے۔ نہ کہ لڑکی والوں کی طرف سے کھلانے کا نام ولیمہ ہے۔۔ پھر بارات کے لیے لڑکے والوں کی طرف سے جو شرط ہوتی ہے کہ ہم اتنی بارات لائیں گے اور ان کی ضیافت اس طرح کرنی ہوگی تو یہ سراسر جبر ہے۔۔ لڑکی والوں پر اس ضیافت کو مسلط کرنا جائز نہیں ہوسکتا۔ کچھ خوش حال گھرانے اپنی لڑکیوں کی شادی میں خود بارات بلاتے ہیں لیکن اول تو اسلامی تعلیمات سے اس کا کوئی جوڑ نہیں، دوسرے چند خوش حال لوگوں کی وجہ سے پورا سماج متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے لیے بھی ضروری ہے کہ اسے ختم کریں۔۔ بارات اور جہیز کی وجہ سے غریبوں کی بچیوں کو رشتے نہیں ملتے اور بہت سی بچیاں بڑی عمر تک بن بیاہی بیٹھی رہتی ہیں۔ ان حالات میں اسلام اس کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ اسلام نے جہیز اور بارات کے بجائے لڑکیوں کو وراثت میں حقدار بنایا ہے۔ اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا ، جب کہ ان کا شرعی اور اللہ کی طرف سے دیا ہوا حق ہے۔ اسلامی طریقہ یہ ہے کہ سادگی کے ساتھ اور بارات وغیرہ کے بغیر علی الاعلان نکاح ہوجائے۔ لڑکے والے کو اپنے مہمانوں کو ولیمہ کھلانا چاہیے کیونکہ یہ مسنون ہے۔۔
جہیز کا خاتمہ کیسے ہو؟
بارات سے زیادہ ایک قبیح رسم جہیز کا ہے، یہ رسم ایک ناسور بنتا جارہا ہے۔ اور اس کی وجہ سے خود کشی کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور ہزاروں جانیں روزانہ ضائع ہو رہی ہیں۔۔ یہ رسم بھی برادران وطن یعنی ہندوں سے ہمارے معاشرے میں آیا ہے۔۔
اسلام میں سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں خرچ کم ہو (حدیث) لیکن افسوس کہ ہمارا معاشرہ اسلامی تعلیمات سے دور جاکر ان تمام رسم و رواج کو اپنا رہا ہے ، جو برادران وطن میں پایا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک جہیز بھی ہے جو یقیا ہندوانہ تہذیب سے متاثر ہوکر اس امت میں بھی پھیل اور پنپ رہا ہے۔۔۔۔ ہندوں میں جہیز اور تلک کا رسم اس لیے ہے کہ ان کے یہاں پہلے کے قانون کے اعتبار سے وراثت میں لڑکیوں کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس لیے لڑکا اور لڑکے کا باپ چاہتا ہے کہ جتنا وصولنا ہے اسی وقت وصول لو، اور ہندو معاشرے میں اسی لیے جہیز اور تلک کا رواج ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہندو مذہب کے میتھالوجی کے مطابق، یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ان کے یہاں مرد کا درجہ بہت بڑھا ہوا ہے عورت کو نفسیاتی طور پر اور مالی طور پر بھی کمزور کیا جائے، زیادہ بارات لے جاکر اور زیادہ جہیز اور تلک لے کر۔ یہی وجہ ہے کہ اس مذہب میں لڑکی والوں کو اس کی حیثیت سے زیادہ کا مکلف بنایا جاتا ہے اور مالی اعتبار سے لڑکی والوں کو زیادہ بوجھل کیا جاتا ہے۔۔ کیا مسلمان کے لیے کسی طرح جائز ہوگا کہ وہ غیروں کی مشابہت اختیار کرے۔۔ جبکہ اس کے پاس آخری آسمانی شریعت اور اسوہ رسالت موجود ہے؟
اس قبیح رسم کا خاتمہ کیسے ہو اس سلسلے میں بہت سے آراء اور حل علماء نے پیش کیے ہیں۔ اس سلسلے کی دو تحریریں جو بہت ہی متوازن اور وقیع ہیں، پیش کی جارہی ہیں۔۔ امید کہ جمعہ کے خطاب میں اس کو موضوع بناکر اصلاح معاشرہ کی جانب قدم بڑھانے کی سعی و کوشش کی جائے گی۔۔۔
جہیز کے خاتمہ کیلئے مہم جاری ہے، مگر سچائی یہی ہے کہ اسے عملی طور پر برت کر بتانے کی ضرورت ہے، خصوصاً سماج کے نمایاں طبقے کو پیش قدمی کرنی چاہئے، جنہیں دیکھ کر عوام سبق لے اور بنت حوا کی دشواریاں آسان ہو؛ اس سلسلے میں ایک اہم پہلو قابل ذکر ہے، اگر اسے بروئے کار لایا جائے تو بہت حد تک نکاح کو آسان بنایا جاسکتا ہے اور جہیز کی لعنت پر روک بھی لگائی جاسکتی ہے، دراصل ہمارے سماج میں بچیوں کو ایک بوجھ اس لئے بھی گردانا جاتا ہے کہ ان کی شادی کا مسئلہ والدین کیلئے گلے کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، جو نہ نِگلتے بنے نہ اُگَلتے بنے؛ صرف ایک بیٹی کی شادی میں ہی ایک متوسط گھرانے کی کمر ٹوٹ جاتی ہے، جب انہیں کسی لڑکی کی شادی جہیز و تلک کے ساتھ کرنی پڑ جائے، سسرالی رشتہ لالچی، دین سے پرواہ بلکہ کبھی کبھی دیندار بھی مال و دولت کے حریص مل جائیں؛ نیز داماد ایک خوش کن ازدواجی زندگی کے بجائے اہلیہ کی آبائی دولت و ثروت اور آسائش پر نظر گڑائے ہو تو یہ دشواری زندگی حرام کردینے کے مرادف بن جاتی ہے، اس کا ایک آسان حل یہ ہے کہ بچیوں کو بھی میراث میں حصہ دینے کی پہل کی جائے، لوگوں کو یہ سمجھایا جائے کہ لڑکیوں کا حصہ من عند اللہ ہے، اسے روکا نہیں جاسکتا، ختم نہیں کیا جاسکتا، افسوس کا مقام ہے کہ شادی بیاہ میں فضول خرچی کرنے کی بات ہو تو ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی ہوڑ لگی رہتی ہے، اعلی ترین بندوبست اور نظام بنانے کی کوشش ہوتی ہے، مزید یہ کہ لڑکے والوں کے مطالبات اور خواہشیں انہیں اور بھی مجبور کر دیتی ہیں؛ لیکن اگر انہیں میراث میں حصہ دینے کی بات کہی جائے اور شرعاً اسے نافذ کرنے کا مطالبہ کیا جائے تو سناٹا پسر جاتا ہے، اسی طرح اگر خواتین میراث کا مطالبہ کرلیں تو انہیں حقیر نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، سچ جانئے اگر لڑکے والوں کو اس بات کی یقین دہانی کروا دی جائے؛ کہ بچی حق میراث پاکر رہے گی، تو یقیناً جہیز کا کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوگا، ظاہر سی بات ہے کہ مادیت کے اس دور میں ایک لالچ جو انہیں جہیز پر ابھارتی ہے، غیر شرعی امور پر آمادہ کرتی ہے اور سماجی ناسور میں معاونت پر مجبور کرتی ہے؛ اگر اس کا علاج ایک نیک بدل اور شرعی جواز کے ساتھ کر دیا جائے تو دقت نہیں ہوگی
اکثر و بیشتر لڑکی کے گھر والد، والدہ کا ترکہ اتنا تو ضرور ہوتا ہے کہ انہیں اگر منصفانہ طور پر تقسیم کردیا جائے تو بچی کی شادی شدہ زندگی میں ایک سہارے کا کام بھی ہوسکتا ہے، اور پھر ایک لڑکے کو اس کی امید ہو تو شادی میں کوئی پریشانی بھی نہ ہوگی، ہمیں معلوم ہے کہ اسے کلی طور پر برتنا مشکل ہے؛ تاہم اکثری دائرے میں اسے روبعمل لایا جاسکتا ہے، یہ ایک اچھی پہل ہوسکتی ہے،)(محمد صابر ندوی کی تحریر جس سے مجھے اتفاق ہے)
استاذ گرامی قدر فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی حفظہ اللہ نے اپنے ایک مضمون میں اس طرف اشارہ کیا ہے، جو نہ صرف پڑھنے، سمجھنے بلکہ قابل عمل بنانے کی طرف ابھارتا ہے، آپ رقمطراز ہیں:
"یہ عجیب بات ہے کہ شریعت نے جس بات کو منع کیا ہے، اس کا ارتکاب کیا جاتا ہے، نکاح کو آسان رکھا گیا ہے اور نکاح میں لڑکی اور اس کے اولیاء پر کوئی مالی ذمہ داری نہیں رکھی گئی ہے؛ لیکن ’’گھوڑے جوڑے‘‘ اور ’’جہیز ‘‘ کے مطالبہ نے سماج کی کمر توڑ رکھی ہے اور لڑکی ماں باپ کے لئے ایک بوجھ بن گئی ہے، اور جس چیز کا شریعت نے حکم دیا ہے یعنی حق میراث، اس سے ان کو محروم کیا جاتا ہے، جہیز کی وجہ سے لڑکی کو ترکہ سے محروم کر دینا اور یہ کہنا کہ لڑکی کی شادی پر کافی رقم خرچ کی گئی ہے، ’’عذر گناہ بدتر از گناہ‘‘ کا مصداق ہے، کوئی حق انسان کا اسی وقت ختم ہوتا ہے، جب دوسرے فریق سے معاہدہ ہو جائے کہ اس کے بدلہ میں وہ اپنے فلاں حق سے دستبردار ہورہا ہے، اب اول تو جب تک والدین زندہ ہیں، ان کے ترکہ میں بیٹی کا حق ہی ثابت نہیں ہوتا اور جو حق ابھی ثابت ہی نہیں ہوا ہو، اس سے دستبردار ہونے کا اعتبار نہیں، فقہاء نے لکھا ہے کہ میراث ایک ایسا حق ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی وارث کا حق ختم کر دے، یا مروجہ اصطلاح میں کسی کو عاق کر دے، تب بھی اس کا اعتبار نہیں:الارث جبري لا یسقط بالاسقاط ( العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ:۲ء ۶۲)
ایک نظر ادھربھی
- جمعیت علماء اتردیناجپور کا انتخابی عمل
- تحفظ اوقاف اور امارت شرعیہ
- سکشمتا 2.0 میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات
- سکشمتا 2.0 میں پوچھے گئے سوالات
- سکشمتا پریکشا میں 26 فروری کو پوچھے گئے سوالات جواب کے ساتھ دیکھیں
دوسرے: جیسے لڑکیوں کی شادی پر زائد رقم خرچ ہوتی ہے، عموماََ لڑکوں کی تعلیم پر بھی بڑی رقم خرچ ہوتی ہے، تو صرف لڑکیوں کی شادی کے خرچ کی وجہ سے ان کو ترکہ سے محروم کر دینا کیوں کر درست ہو سکتا ہے، بالخصوص ایسی صورت میں جب کہ شادی کی فضول خرچی شرعاََ ایک ناپسندیدہ اور مذموم عمل ہے. حقیقت یہ ہے کہ اگر لڑکیوں کو اہتمام کے ساتھ ان کا حق میراث دیا جائے اور جہیز کے بجائے اس حق شرعی کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے تو رشتہ ملنا بھی آسان ہوگا، اگر شہر میں لڑکے والوں کو معلوم ہو کہ اس لڑکی کو ترکہ میں مکان کا ایک کمرہ ہی مل جائے گا ، دیہات میں لڑکے والوں کو خبر ہو کہ زرعی زمین کا ایک ٹکڑا اس لڑکی کے حصہ میں آئے گا تو مکان اور کھیت ملنے کی یہ امید بھی لڑکی کے رشتہ کو آسان کر دے گی۔ –
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت کے حصہ سے محروم کر دیں گے: من فر من میراث وارثہ، قطع اللہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۲۷۰۳، اور بعض حضرات بالکل محروم تو نہیں کرتے؛ مگر بیٹوں کو زیادہ دیتے ہیں، کاروبار ، گھر وغیرہ ان کے حوالہ کر دیتے ہیں اور ان چیزوں میں بیٹیوں کو دینا گوارہ نہیں کرتے؛ حالاں کہ اولاد ہونے میں دونوں برابر ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاد میں سے کسی کو دینے اور کسی کو محروم کرنے کو جَور(ظلم) قرار دیا ہے، (صحیح البخاری: ۲۶۵۰)؛ اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر زندگی میں اپنی جائیداد کی تقسیم کرے تو بیٹے اور بیٹیوں کو برابر دینا چاہئے۔(فتاویٰ قاضی خاں:۳؍۱۵۴) پس، عورتوں کو حق میراث سے محروم کرنا ،بیٹیوں کو ترکہ میں سے حصہ نہ دینا اور ھبہ کرتے ہوئے لڑکیوں کو نظر انداز کرنا سخت گناہ اور ظلم شدید ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی عدول حکمی بھی ہے، قرابت داروں کے ساتھ حق تلفی اور نا انصافی بھی اور نہایت قبیح قسم کی حرام خوری بھی ، حرام خوری ایسا گناہ ہے کہ یہ انسان کی عبادت کو ضائع کر دیتی ہے، اس کی وجہ سے دُعائیں قبول نہیں ہوتیں، انسان طرح طرح کی آفتوں اورمصیبتوں میںمبتلا ہوتا رہتا ہے اور آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے؛ اس لئے کسی بھی طرح یہ مناسب نہیں کہ انسان دنیا کی متاعِ حقیر کے لئے دنیا اور آخرت کا اتنا بڑا خسارہ مول لے اور جانتے بوجھتے نقصان کی تجارت کرے !!” (شمع فروزاں – ٢٦/٠٣/٢٠٢١)