حیات کے بینر تلے دنیا کے سب سے طویل آن لائن مشاعرے کا تیسرا سیشن مکمل
مشاعروں نے تہذیبی اور ثقافتی روابط کواستحکام بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔عرفان عارف
مدھوبنی (محمد سالم آزاد/قومی ترجمان) اردو زبان کے فروغ میں مشاعروں کی بڑی اہمیت رہی ہے۔مشاعروں نے اردو زبان کو عوام تک پہنچانے اور مقبول بنانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ بے شک اس زبان کو اس مقام تک پہنچانے میں کئی خانقاہوں ، درباروں ،بازاروں اور سماجی اداروں نے اہم کردار نبھایا ہے۔ ان میں مشاعرے بھی نمایاں خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔مشاعرے کا آغاز کرتے ہوئے ناظم مشاعرہ نے کہا کہ مشاعروں نے تہذیبی اور ثقافتی روابط کواستحکام بخشنے اور لوگوں کو آپس میں ملنے جلنے کا ایک خوبصورت موقع فراہم کیا۔
کووڈ کے اس زمانے میں حیات کے بینر تلے دنیا کے سب سے طویل آن لائن مشاعرے کا تیسرا سیشن رات 2 بجے شروع ہوا جو صبح 6 بجے تک جاری رہا۔ جس کی صدارت محترمہ طلعت پروین صاحبہ نے کی جب کہ نظامت کے فرائض صدر تحریک بقائے اردوپروفیسر عرفان عارف نے انجام دیے۔ حیات کا یہ مشاعرہ 8جون سے شروع ہوا ہے جو 12 جون تک لگاتار چلتا رہے گا۔ 10 جون کورات دو بجے اس مشاعرے کا تیسرا دن تھا اور تیسرے دن کے پہلے سیشن کو آنند موہن زتشی گلزار دہلوی کے نام سے منسوب کیا گیا تھا اس مشاعرے میں جن شعراءاور شاعرات نے شرکت کی ان میں طلعت پروین پٹنہ سے، اسامہ عاقل مدھوبنی سے ،شاداب علی مشہدی دہرادون سے، پراتیما سنہا ممبئی سے ،راجویر سنگھ راز رامپور سے، ڈاکٹر علمدار عدم پونچھ سے، نفیسہ سلطانہ انا بھوپال سے ، نور جمشیدپوری ریاض سعودی عرب سے ،بادل باز پوری اتراکھنڈ سے، تبسم ناڈ کر ممبئی سے، عامر افضل اٹاوہ سے ، عشرت بٹ منڈی سے، فیضان وحیدی بھدولی سے ، جعفر بلرامپوری ممبرا سے، منور حسین احمد نگر سے ، طلعت سروہا سلطان پور سے، عرفا ن عارف جموں کے نام قابل ذکر ہیں ان کے علاوہ کرن یا دو دلی سے ، ثمینہ سید پاکستان سے ، انوپ شاہ احمد آباد سے ،عابد علی بورے والا پاکستان سے ، کشش وارثی، نیٹ ورک پرابلم کی وجہ سے اپنا کلام سنانے سے محروم رہے۔
132 گھنٹے کے آن لاین طویل مشاعرے کے تیسرے سیشن کا آغاز عرفا ن عارف نے گلزار دہلوی کے کلام سے کیا۔گلزار دہلوی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد اس مشاعرے کے روح رواں طارف نیازی اور حیات کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ہی مشاعرے کا آغاز ہوا۔اس کے بعد ایک ایک کر کے ہر شاعر اور شاعرات نے تقریباً بارہ پندرہ منٹ تک اپنا اپنا بہترین کلام سنا کر سامین و ناظرین اور شرکاءمحفل کو نہ صرف محظوظ کیا بلکہ بے شمار مسائل کی ترجمانی کے ساتھ حالات حاضرہ کی طرف توجہ مبذول کرائی۔
گہرائیوں کی اس نے بہت بات کی مگر
دوبا کسی کی آنکھ میں اک بار بھی نہیں
(شاداب علی مشہدی)
ابھی تو گفتگو کی چاند سے تمہید باندھی تھی
یہ کیسے آج سورج وقت سے پہلے نکل آیا
(نور جمشید پوری)
ہمیں پتہ بھی نہیں کس کی وہ کہانی تھی
وہ اس قدر تھی نئی کہ بہت پرانی تھی
(ڈاکٹر علمدار عدم)
وہ جو ایمان کی دولت سے مالا مال رہتے ہیں
غریبی حد سے بڑھ جائے مگر خوشحال رہتے ہیں
(فیضان وحیدی)
عاقل کی یہ عادت ہے ہنستے ہوئے ملتا ہے
گو درد میں ڈوبا ہے تقدیر کا مارا ہے
(اسامہ عاقل)
کلیجہ شیر کا رکھتی ہوں شیرنی ہوں میں
جسے غرورہے آئے کرے شکار مجھے
( طلعت سروہا)
قاتل مرے احساس کے شعلوں میں جلے گا
یہ زخم توکچھ روز میں بھر جائیں گے یاروں
(طلعت پروین)
یہ نماز عشق قبول ہو اس واسطے ہے یہ لازمی
میرے سر سے تو سجدہ کرے تیرے ہاتھ سے میں دعا
کروں(پراتیما سنہا )
یہ تھم ہی جائے گا طوفان حوصلہ رکھنا ہے
بھنور کے بیچ سفینے صدا نہیں رہتے
(نفیسہ سلطان انا)
پیار کی راہ میں برستا ہے ہمیشہ بادل
اس لیے دھوپ میں جنگل بھی ہرا ملتا ہے
(بادل باز پوری)
لگا کر اپنے ہونٹوں پر تبسم قفل خاموشی
جہاں میں بے زبانی کے معانی چھوڑ جاوں گی
(تبسم ناڈکر)
جعفر تیری تلاش میں نکلا تو ہوں مگر
دنیائے دل میں کوئی بھی اپنا نہیں ملا
(جعفر بلرامپوری)
محفل کی رنگت کا عالم پوچھو تو اس سے پوچھو
جس نے ہر شب خالی کمرہ خالی بستر دیکھا ہے
(راجویر سنگھ راز)
وہ چھوڑ آئے ہیں اجداد کی سبھی قبریں
عجیب لوگ ہیں شہروں میں آ کے بسنے لگے
(عشرت بٹ)
ہوا ہے بستی میں قانون جنگلی نافذ
دلوں کی آہ کہاں اعتکاف کرتی ہے
(عامر افضل )
لٹا کے گھر کی عصمت کو چھپا کے اپنے چہروں کو
جھکائے سر کھڑے رہیے کسے کیا فرق پڑتا ہے