سائنس / کلائمیٹ

جی 7 ممالک کے ذریعے موسمیات سے متعلق وعدوں کی خلاف ورزی بدستور جاری

رپورٹ: نشانت سکسینہ
ترجمہ: محمد علی نعیم

ہیگ نیدر لینڈ دنیا کے امیر ممالک کے موسمیات سے متعلق مالی منصوبے ابھی بھی 100 بلین ڈالر کے ہدف سے نہ صرف کم ہے بلکہ اس تعلق سے مستقبل میں فنڈ کی تقسیم اور ٹائم لائن کے بارے میں تفصیلات اور وضاحت معدوم ہے
حالیہ دنوں جاری ایک تجزیاتی رپورٹ میں درج بالا خلاصہ ہوا ہے۔کئیر تنظیم نے پیرس معاہدہ کے تحت ترقی پذیر ممالک کے تازہ مالی منصوبوں کا تجزیہ کرتے ہوئے پایا ہے کہ جی 7 اور دیگر امیر ممالک کی غریب ملکوں کے لئے حمایت کے زبانی وعدوں کے باوجود تمام 24 عطیہ دہندگان کے ذریعے پیش کی گئی حقیقی معلومات طلب کردہ معلومات سے کم ہے نیز اس بات کا احساس کہیں سے بھی نہیں ہوتا ہے کہ مالدار ممالک موسمیات سے متعلق اپنے وعدوں کی تکمیل کرسکیں گے

کئیر ڈنمارک کے اہم مشیر اور تجزیہ کاروں میں سے ایک جان نڈوربو نے ہیلو کمنٹمینٹ نامی اس تجزیاتی رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ دس برس قبل امیر ممالک اپنے ذریعے موسمیات کو نقصان پہنچانے والے اخراج (ایمیشن) کے لئے کسی بھی قسم کی ذمہ داری لینے کے لئے متفق ہوئے تھے نیز ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی اڈاپٹیشن اور میٹیگیشن (موافقت اور تخفیف) کے لئے 2020 سے سالانہ 100 بلین ڈالر جمع کرنے کا مشترکہ عزم کیا تھا لیکن ان امیر ممالک نے دنیا کی سب سے غریب عوام اور ملکوں کے تئیں اپنے عزائم کی قابل قدر پرواہ نہیں کی ، اب آئیندہ جب بھی جی 7 کے لیڈران ملاقات کرتے ہیں تو یقینی طور سے کسی منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ملنا چاہئے نیز انہیں ایک روڈ میپ تیار کرنے کی ذمہ داری لینی چاہئے جو ترقی یافتہ ممالک کے موسمیات سے متعلق مالی عزائم کی تکمیل کو یقینی بنائے
حالیہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ ہم ابھی تک عالمی درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے اور موسمیاتی بحران کے ایسے بدتر اثرات سے محفوظ رہنے کیلئے راست راہ پر نہیں ہے جو کم سے کم ترقی یافتہ ممالک اور چھوٹے ترقی پذیر جزیروں کے لئے تباہ کن ثابت ہونگے
یہ اثرات صحرا بننا ،کھانے کا محفوظ نہ ہونا اور قحط سالی سے لیکر سخت موسم کے واقعات،سیلاب اور کیڑوں کے حملے جیسی شکلیں اختیار کرسکتے ہیں ،انمیں سے کئی ممالک پہلے ہی سے دھیمی اور اچانک ہونے والے موسمیاتی بحران میں اضافہ کا تجربہ کررہے ہیں ، ان واقعات کی تعداد اور انکی سنگینی میں اضافہ اڈاپٹیشن یا طویل مدتی لچک کے لئے تو دور ایک دوسرے سے ابھرنے میں چیلنجگ ثابت ہورہا ہے جیساکہ گزشتہ ہفتے بھارت میں دیکھا گیا
پیرس معاہدہ طے کرتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کو موسمیات سے متعلق فنڈ فراہم کرنا چاہئے اور میٹیگیشن اور اڈاپٹیشن دونوں کے لئے حمایت کے درمیان بیلنس رکھنا چاہئے ، فی الحال عالمی سطح پر کلائمٹ بجٹ کا 25 فیصد اڈاپٹیشن پر خرچ کیا جاتا ہے اور کئیر کی اس رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ 50/50 کا اعتدال ابھی بھی پہنچ سے باہر ہے ،صرف دو ملکوں کے ذریعے اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ اڈاپٹیشن کے مقاصد کو نہایت کم فنڈ ملا ہے نیز وہ آئیندہ برسوں میں اڈاپٹیشن کو میٹیگیشن سے زیادہ توجہ دینگے


رپورٹ مزید درج ذیل نکات پر مشتمل ہے :
اقوام متحدہ کی ترقیاتی مدد کے وعدے کی تکمیل کے علاوہ کسی بھی جی 7 ملک نے موسمیات سے متعلق فنڈ کی پیشکش نہیں کی
صرف ایک جی 7 ملک (یو کے ) نے کمزور ممالک کو ترجیح دینے کے لئے کچھ واضح عزائم کئے ہیں
آگے کئیر ملاوی کے ساتھ جنوبی افریقہ ایڈوکیسی لیڈ چکونڈی چبوتا کہتے ہیں کہ یہ نہایت تکلیف دہ بات ہے کہ پیرس معاہدہ میں تقریباً 6 سال سے شریک مالدار ممالک ابھی بھی موسمیات سے متعلق مالی فنڈ کی فراہمی کے وعدوں پر کھرے نہیں اتر رہے ہیں جبکہ غریب ممالک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نہایت سنگینی سے محسوس کررہے ہیں ، ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلی سے متاثر آفات کی بڑھتی تعداد اور سنگینی کا تجربہ کررہے ہیں اور انسے مقابلہ آرائی کے قابل تک نہیں ہے اگر کوئی واضح مالیاتی روڈ میپ نہیں ہوگا تو غریب ممالک موسمیاتی تبدیلی سے متاثر آفات کے نتیجے میں اموات درج کرتے رہینگے اور دنیا عدم برابری کا شکار رہیگی کیونکہ یہ صرف تعداد کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں کی زندگی کے بارے میں بھی ہے ، ان تبدیلیوں کا سب سے زیادہ برا اثر خواتین اور بچوں پر پڑرہا ہے
موسمیاتی فنڈ حکومتی ترقیاتی امداد کی شکل میں نہیں آنا

چاہیے جس کی غریبی سے لڑنے کے لئے فوری ضرورت ہے بلکہ اڈاپٹیشن اور نقصان کے لئے اضافی اہداف کی ضرورت ہے
او ای سی ڈی کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی کاروائی کے لئے امیر ممالک کی حمایت ایک دہائی قبل ان ہی کے ذریعہ طے کردہ سالانہ 100 بلین ڈالر سے کم از کم 20 بلین ڈالر تک کم ہے، اسکا مطلب ہے کہ مستقبل قریب میں انہیں موسمیات سے متعلق مزید فنڈ کی فراہم کرنے کی سخت ضرورت ہے
کئیر کی ہیلو کمنٹمینٹ رپورٹ 24 ملکوں کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ فراہم کرتی ہے اور انہیں پوائنٹ سسٹم پر درجہ بند کرتی ہے ، لکسمبرگ اور سویڈن اس فہرست میں ٹاپ پر ہے لیکن انکی ایکس انٹری رپورٹ میں ابھی اصلاح کی گنجائش ہے ، دونوں ہی ملکوں نے ممکنہ نمبرات میں سے آدھے نمبرات حاصل کئے ہیں
فہرست میں سب سے نچلے پائیدان پر واقع پانچ ممالک (آسٹریلیا،گریک،جاپان، چیک ریپبلکن اور سلوواکیہ) کو 0 نمبر ملے ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ انکی رپوٹ بیحد خراب ہے
اسکے علاوہ 11 اور ممالک نے ممکنہ نمبرات میں سے صرف ایک چوتھائی یا اس سے کم نمبرات حاصل کئے ہیں اس گروپ میں ڈینمارک،نیدر اور ناروے جیسے ممالک شامل ہیں جو عام طور پر خود کو عالمی ترقی کا رہنما تصور کرتے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button