تحریر :- انوار الحق قاسمی
بر صغیر میں ہر سال مدارس اسلامیہ سے فارغ ہونے والے طلبا کی تعداد ہزاروں میں ہے ،خود ازہر ہند دارالعلوم /دیوبند سے ہر سال فارغ ہونے والے طلبا کی تعداد 1200/سے متجاوز ہے۔
آپ اسی سے اندازہ لگاسکتےہیں ،کہ جب صرف دارالعلوم دیوبند سے ہرسال فاضل ہونے طلبا کی تعداد اتنی ہے،تو پھر پورے برصغیر میں ہرسال مدارس اسلامیہ سے فاضل ہونے والے طلبا کی تعداد کتنی ہوگی؟
یہ تو موجودہ دور کی تعداد ہے؛مگر آپ پچاس سال پہلے کا جائزہ لیں گے ،تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس وقت مدارس اسلامیہ سے فاضل ہونے والے طلبا کی تعداد 300/یا400/سے زیادہ نہیں تھی ؛مگر موجودہ دور اور پچاس سال قبل کے فضلاء کے درمیان اتنا تو ضرور فرق ہے کہ پچاس سال پہلے کاہر فاضل ایک اچھےمحدث،مفسر، فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے پرہیز گار انسان بھی ہوتےتھے،مگر موجودہ دور کے فضلاء میں سے شاید و باید ہی کوئی فاضل اچھےمحدث یامفسر یافقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی درجےکےمتقی ہوتےہوں گے۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر ان دونوں فضلاء کے درمیان اتنا بڑا فرق کیوں؟ تو اس کاجواب یہ ہے کہ پچاس سال پہلے کے فضلاء انتہائی شوق ولگن ،یکسوئی اور بہت ہی محنت کے ساتھ علوم دینیہ حاصل کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اساتذہ کرام کا احترام بھی ملحوظ رکھتےتھے،نیز پڑھنے کےدرمیان یکسوئی میں جو چیز بھی مخل ثابت ہوتی،اسے جڑسے ہی اکھاڑ پھینکتے تھے اور اب کے اکثر فضلاء جبرا علوم دینیہ حاصل کرتے ہیں،ان میں شوق ولگن نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے،اور انہیں محنت سے دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہوتاہے،اسی طرح اساتذہ کرام کا بھی احترام خاطر خواہ ملحوظ نہیں رکھتے ہیں، تو پھر قدیم و جدید فضلاء کے درمیان یہ فرق نہیں ہوگا،تو اور کیاہوگا؟
اگر آپ چاہتے ہیں کہ جدید فضلاء بھی علمی استعداد اور تقوی و طہارت میں قدیم فضلاء کے مساوی ہوں، تو پھر انہیں بھی انتہائی شوق ولگن اور بہت ہی محنت کے ساتھ علوم دینیہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ، اپنے اساتذہ کرام کا ادب واحترام ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہوگا،اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے ،سوائے کف افسوس ملنے کے ۔