مفتی وحدت عالم ندوی
بنارس کی قدیم شاہی جامع مسجد گیان واپی ہندوستان کے طول و عرض میں کچھ سالوں سے موضوع بحث بنی ہوئی ہے جارحیت پسند و فرقہ پرست عناصر نےبابری مسجد شہید کرنے اور غیر قانونی طور قبضہ کرنے کے بعد اب بنارس کی جامع گیان واپی کے سلسلے میں اپنے مذموم اور ناپاک عزائم کا اظہار شروع کر دیا ہے ایک مشہور مقولہ ہے جھوٹ کو اتنا فروغ دو کہ خود بھی اسکے جھوٹ ہونے میں شبہ ہونے لگے ؛ کے مطابق اس جھوٹ کو بھی برابر مشہور کیا گیا بلکہ اب تو یقین کے درجہ تک پہچانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے کہ جامع مسجد گیان واپی مندر توڑ کر بنوائی گئی ہے
عام تاثر ہمارے درمیان یہ ہے کہ گیان واپی مسجد ہی کا نام ہے حالانکہ کے یہ تاثر بالکل غلط ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ مسجد جس مقام پر واقع ہے اس محلے کا نام گیان واپی ہے اسی مناسبت سے یہ گیان واپی مسجد کے نام سے مشہور ہے گیان واپی سنسکرت زبان کا لفظ ہے گیان کے معنی عقل و علم اور واپی کے معنی باولی کے ہیں
تاریخی اعتبار سے یقینی طور پر یہ تو پتا نہیں چل سکا کہ اسکا بانی کون ہے؟ اور اسکا سنگ بنیاد کب رکھا گیا ہاں لیکن اتنا ضرور ہے کہ سلطنت مغلیہ کے ایک بادشاہ جلال الدین محمد اکبر متوفی 1605ء جن کا دور حکومت 1556ءتا 1605ء ہے اس دور میں بھی یہ جامع مسجد موجود تھی اور اس میں باضابطہ نمازیں ادا کی جاتی رہیں
اس مسجد کی تاسیس سے متعلق ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ سلطان ابراھیم شاہ شرقی متوفی 1440ء جونپور صدر الصدور قاضی جہاں اور انکے ایک متمول شاگرد شیخ سلیمان محدث نے نوین صدی ہجری میں عالمگیر بادشاہ متوفی 1556ء کے عالم و وجود میں آنے سے پہلے بنوائی
اس مسجد کا صدر دروازہ پہلے مشرق جانب تھا مگر افسوس ناک طریقہ پر جس کی ذمّہ ایک سابق متولی پر عائد ہوتی ہے یہ صدر پھاٹک بند کر دیا گیا اور اب مسجد میں داخل ہونے کے لئے شمال جانب ایک تنگ دروازہ جس کے ذریعہ آمد و رفت میں کافی دقتیں پیش آتی رہتی ہیں
مسجد کے مغربی حصے میں اب سے ساٹھ سال قبل ایک قناتی مسجد تھی جس کا فی الحال نام و نشان نہیں یہی وہ جگہ ہے جوکہ قناتی مسجد کا فرش ہے جس پر اس وقت کے ہندو زبردستی شرنگار گوری کی ادائیگی کرتے ہیں جس کو لیکر آئے دن تنازعہ بھی کھڑا ہو تا رہتا ہے حالانکہ ان کی اصل شرنگار گوری کی جگہ وہیں قریب میں گیان واپی مسجد کے مغربی موڑ سے تقریباً 50 قدم پر واقع پھول منڈی میں ہے اسی قناتی مسجد کے صحن میں حضرت شاہ باسط علی کا مزار بھی ہے جن کا اب سے تقریباً پچاس سال قبل تک عرس وغیرہ ہوتا تھا لیکن اب یہ سلسلہ بند ہے اس کے علاوہ وہیں کچھ قبریں اور بھی ہیں جو جامع مسجد کے شمال میں موجود ہے جن پر انجمن انتظامیہ مساجد کے زیر اہتمام آج بھی چونا قلعی ہوتی ہے
1936ء میں جامع مسجد کے متولی دین محمد صاحب نے جامع مسجد کی ملکیت وغیرہ کے تعلق سے بنارس کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا جسکا 1937 ء میں جج نے فیصلہ دیا کہ مسجد اوپر سے نیچے تک سنی مسلم وقف کی ہے
ایک غلط فہمی کا ازالہ
بہت سارے لوگوں کو ایک غلط فہمی یہ ہے کہ اس مسجد کا سنگ بنیاد اورنگزیب عالمگیر متوفی 1707ء کے عہد حکومت میں رکھا گیا اور اسکے اصل بانی وہی ہیں جبکہ اس مسجد کا مختلف حوالے سے اکبر کے دور حکومت میں بھی موجود ہونا ثابت کیا جا چکا ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ شہنشاہ عالمگیر نے 1658ء میں اسکی تعمیر نو کرائی لیکن در اصل یہ تعمیر اصل تعمیر نہیں ہے پرانی بنیاد پر ازسرنو تعمیر ہے