اہم خبریںمضامین

تعلیمات نبوی ﷺ میں حکمت و نفسیات کی رعایت… قسط (۵)





یہ حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ارشادات اور آپ کے اقوال و افعال ہمہ پہلو خیر و برکت کی حامل ہیں ،اسوئہ حسنہ میں جو رہنمائی موجود ہے،وہ انسانوں کو ان جملہ امراض اور بیماریوں سے نجات دلانے کا ایک نہایت موثر ذریعہ ہیں ۔ انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں کو خوشگوار اور پر مسرت بنانے میں آپ کی سیرت ،آپ کا اسوہ ،آپ کا اخلاق و کردار اور آپ کی لائف بہترین نمونہ اور آئیڈیل ہے ۔
جسم و روح کی شفا بخشی کے لیے مفید کامیاب اور موثر طریقہ علاج ہے ،جسم کی صحت و توانائی ،روح کی بالیدگی اور پاکیزگی اور ذہن کی طہارت و لطافت ،ارادوں اور نیتوں کی اصلاح اور کردار کی عظمت و بلندی، اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لازمی ثمرات ہیں ،آپ کی تعلیمات اور ارشادات عالیہ پر عمل پیرا ہونے میں جسمانی ،روحانی فوائد کے علاؤہ نفسیاتی شفا بخشی کی تاثیر موجود ہے ۔ ماہرین نفسیات نے جو بھی نفسیاتی علاج کے طریقے اختیار کیے ہیں وہ تمام کے تمام بلکہ اس سے کہیں زیادہ رہنمائی فرمودات نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہیں ۔اگر ماہرین نفسیات سیرت النبی کا مطالعہ کریں تو انکو نفسیاتی علاج کے لیے وافر روشنی حاصل ہوسکتی ہے ، اوپر کی تحریروں میں ہم نے سیرت رسول سے نفسیات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلکیاں اور نمونے پیش کیے تھے ، یہاں چند اور نمونے آپ کے اقوال و افعال اور کردار و عمل کی روشنی میں پیش کرنے کی جسارت کریں گے ۔۔
انسان کی عادت اور فطرت ہے کہ جب وہ سماج میں کسی سے رنگ ،نسل، خاندان عہدہ ،منصب،حیثیت ،رتبہ اور مال و دولت میں پیچھے ہوتا ہے تو احساس کمتری اور کہتری کا شکار ہوجاتاہے، وہ اپنے کو حقیر ،معمولی اور بے حیثیت سمجھنے لگتا ہے ،بہت سے لوگ اس کڑھن میں ڈپریشن کے شکار ہوجاتے ہیں ۔۔ ایسے لوگ اندر ہی اندر محسوس کرتے ہیں اور دل میں کہتے ہیں کہ میں تو محروم ہوں ، بد نصیب ہوں میں سماج میں سب سے پیچھے ہوں وغیرہ وغیرہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نفسیاتی مریضوں کا علاج اپنے حکیمانہ ارشاد سے فرمایا اور یہ باور کرایا کہ کسی گورے کو کسی کالے پر ،اور کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری ،بلندی اور تفوق حاصل نہیں ہے ، بڑائی ،فضیلت اور برتری کی بنیاد صرف اور صرف تقوی ہے ، تقوی ہی کے ذریعہ کوئی کسی پر فضیلت اور برتری حاصل کرسکتا ہے ۔۔۔حدیث ۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں واضح کردیا کہ کوئ شخص احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو کہ وہ کسی سے کمتر ہے ،رنگ و نسل ،خاندان ،حسب و نسب اور قبیلہ و برادری کی وجہ سے کسی دوسرے پر تمیز نہیں رکھتا ،صرف برتری کا معیار کردار و تقویٰ ہے ، ۔۔۔ تقویٰ اور عمل صالح کے ذریعہ جو شخص جتنا چاہے اللہ سے قربت اور تقرب حاصل کرے اور اللہ کا محبوب بندہ بن جائے ۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احساس کمتری اور کہتری میں مبتلا لوگوں کا علاج کیا ان کو حوصلہ دیا اور اس مرض سے نکلنے کا راستہ بتایا ۔۔


لیکن افسوس کہ امت کا ایک بڑا طبقہ اس مرض میں مبتلا اور اس بیماری کا شکار ہے ۔ بہت سے باصلاحیت اور انتہائی قابل اور لائق فائق افراد کو کہتے ہوئے سنا ، ارے ہم کیا کرسکتے ہیں ، ہماری یہ صلاحیت کس کام کی ، ہم کیا دین کی خدمت کرسکتے ہیں ، ہمارا نا تو خاندانی بائی گراؤند ہے اور نہ ہی ہم اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، ہماری قسمت میں تو ماتحتی لکھی ہے ہم کیا کردار نبھا سکتے ہیں ، یہ کام تو اعلی خاندان اور جن کا بائی گراؤند ہو وہ کرسکتے ہیں ۔۔ایسے ذہنی مریضوں کا علاج بھی وقت کی ضرورت ہے کہ ان مریضوں کا یہ مرض متعدی ہوتےجا رہا ہے ۔ جس سے دوسرے بھی بیمار ہورہے ہیں اور ان کے حوصلے پست ہورہے ہیں اور وہ بھی احساس کمتری اور کہتری کا شکار ہورہے ہیں ۔
ایسے مریضوں کو بتایا جائے کہ اسلام نے علو نسبی کی نفی یہ کہہ کر کردی کہ ، یا ایھا الناس انا خلقناکم من ذکر و انثی الخ
اے لوگو ۔ ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تہمارے درمیان خاندان اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو جان سکو ایک دوسرے سے تعارف ہو سکے ۔۔تم میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ بلند اور رتبہ والا وہ ہے جو متقی یعنی اللہ سے ڈرنے والا، خوف خدا رکھنے والا،اور اس کا لحاظ کرنے والا ہے ۔ ۔۔سورہ حجرات ۔۔۔


ماہرین تربیت نے اصلاح کا ایک طریقہ یہ بتایا ہے کہ جب کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو تو سب سے پہلے موعظت اور تذکیر سے کام لینا چاہیے اور انفرادی طور پر تنہائی میں محبت سے سمجھانا چاہیے،انفرادی نصیحت اکثر اوقات انسان پر اثر انداز ہوتی ہے، اسی لئے اسلام کی دعوت و اشاعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انفرادی دعوت کو زیادہ اہمیت دی اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی افرادی سازی کی خاموشی سے محنت کرتے رہے، ۔
نصح و موعظت سے کام نہ چلے تو اس کے بعد ڈانٹ ڈپٹ سے کام لیا جائے، اس لیے انبیاء کرام کو بشیر کیساتھ نذیر بھی بنایا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اول درجہ میں بشارت سے کام لینے کا حکم دیا اور دوسرے درجہ میں ڈرانے کا، ہمیشہ نرم گفتگو بدطنیت لوگوں کو اور شوخ بنا دیتی ہے اور ان کے حوصلے کو بڑھاتی ہے۔۔


تاہم ڈانٹ ڈپٹ میں بھی دو باتوں کا خیال رکھنا چاہیے ایک یہ کہ بددعا وغیرہ کے الفاظ نہ ہوں جس کی وجہ سے مخاطب داعی و مبلغ اور استاد و مدرس کو بدخواہ تصور کرنے لگے۔ حدیث میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ آپ کو بہت ہنسایا کرتے تھے، لوگ مزاحاً ان کو حمار یعنی گدھا کہا کرتے تھے، ان سے ایک بار شراب نوشی کی غلطی سرزد ہوگئی، لوگ ان کو شرم و عار دلانے لگے، اسی دوران ایک صاحب نے کہہ دیا کہ تم پر اللہ کی لعنت ہو اور کسی نے کہہ دیا خدا تم کو رسوا کرے، حضور ﷺ نے اس فقرہ کو پسند نہیں فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ ایسی بات کہہ کر تم شیطان کی مدد نہ کرو، جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ خدا اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہے۔( بخاری شریف کتاب الحدود)
ڈانٹ ڈپٹ میں بھی مخاطب کے لیے درد مندی اور نصح و خیر خواہی کا جذبہ ہو، اسی لیے انبیاء کرام کو قرآن نے مخوف نہیں کہا بلکہ نذیر کہا، نذیر ایسے ڈرانے والے کو کہتے ہیں جو دوسرے کو بے عزت اور خوف زدہ کرنے کے لیے نہیں ڈرائے، بلکہ ترس اور درد کے ساتھ ڈرائے، جس میں شفقت اور ہمدردی کا جذبہ اور پہلو پنہاں ہو۔


اصلاح اور تربیت کا ایک طریقہ تھوڑے وقفہ کے لیے بے توجھی اور بے رخی و بے اعتنائی بھی ہے ، اگر طلبہ ایک ہی غلطی کو بار بار کرتے ہوں تو ایسے موقع پر مربی اور استاد کو چاہیے کہ اس کی طرف کچھ دنوں تک توجہ کرنا چھوڑ دے اور اس کے ہم جماعت طلبہ کو بھی کچھ دنوں کے لیے بے تعلق کردے تو اس طرح وہ اپنے ماحول میں بالکل اجنبی بن کر رہ جائے گا اور یہ قدم اس کی اصلاح کے لیے بڑا موثر ہوگا، سماجی بائیکاٹ کی بعض صورتیں بھی اپنانے کی اجازت اس شکل میں مل سکتی ہے، مجرم کو احساس دلانے کے لیے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ہم کو اس کی اصل اور نظیر ملتی ہے کہ حضرت کعب بن مالک رض و حضرت لبابہ رض اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنھم ہیں کہ جن کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقہ اختیار فرمایا ہے اور خود بھی ان سے بظاہر بے توجھی کرتے اور صحابہ کرام کو بھی چند دنوں ان سے قطع تعلق کا حکم دیا۔ یہ چیز نہ صرف یہ کہ ان کے لیے ایک عبرت خیز واقعہ بن گئی بلکہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی یہ ایک زبردست تازیانہ ثابت ہوا۔۔ در اصل مقاطعہ اور کسی انسان کو اس کے ماحول سے کاٹ دینا اصلاح کے لیے ایک نہایت موثر ذریعہ ہے۔ تاہم اس کے لیے مخاطب کی نفسیات کے مطالعہ کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کام اور اقدام بہت نازک ہے ۔

ناشر / مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی دگھی گڈا جھارکھنڈ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button