محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ، نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپ گڑھ
حضور اکرم ﷺ کی نفسیات شناسی اور اس سے استفادہ کی درجنوں بلکہ سیکڑوں مثالیں احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں، ہم یہاں چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔۔۔
حضور اکرم ﷺ نے طائف سے واپسی میں مقام جعرانہ میں مال غنیمت تقسیم فرمایا اس موقع پر قریش والوں کو تالیف قلب کے طور پر کچھ زیادہ حصہ ملا، قریش کو اسلام لائے ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے وہ اسلام کی پہلی جنگ میں شریک ہوئے تھے، آپ نے اس تقسیم میں جان بوجھ کر کچھ تاخیر کی، مقصد یہ تھا کہ ہوازن کا وفد تائب ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آجائے اور اس نے جو کچھ کھویا ہے، سب لے جائے۔ لیکن تاخیر کے باوجود جب آپ کے پاس کوئی نہیں آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی تقسیم شروع کردی تاکہ قبائل کے سردار اور مکہ کے اشراف جو بڑی حرص سے جھانک رہے تھے، ان کی زبان خاموش ہوجائے۔ مولفت قلوب کی قسمت نے سب سے پہلے یاوری کی اور انہیں بڑے بڑے حصے دئیے گئے۔ ابو سفیان بن حرب کو چالیس اوقیہ کچھ کم چھ کلو چاندی اور ایک سو اونٹ عطا کئے گئے۔ انہوں نے کہا، میرے بیٹے یزید؟ آپ نے اتنا ہی یزید کو بھی دیا۔ انہوں نے کہا اور میرا بیٹا معاویہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا ہی معاویہ رض کو بھی دیا۔ حکیم بن حزام کو ایک سو اونٹ دیے گئے، انہوں نے مزید سو اونٹوں کا سوال کیا، تو انہیں پھر سو اونٹ دئیے گئے۔ اسی طرح صفوان بن امیہ کو سو اونٹ پھر سو اونٹ اور پھرسو اونٹ، اسی طرح کچھ کم و بیش نئے ایمان والوں کو یہ غنیمت دی گئی۔ انصار کے نوجوانوں نے یہ دیکھا تو ان کو تھوڑا ملال ہوا اور آپس میں جو باتیں کیں اس کا ایک ٹکڑا روایتوں میں موجود ہے۔
یغفر اللہ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعطی قریشا و یدعنا و سیوفنا تقطر من دمائھم۔۔بخاری و مسلم۔۔
خدا تعالٰی حضور ﷺ کی مغفرت فرمائے وہ قریش والوں کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز فرما رہے ہیں، حالانکہ ان کا خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے۔
یہ بات حضورﷺ تک پہنچ گئی، فوج کا بدل ہونا، کسی بھی نظام حکومت کے لیے بڑا خطرناک ہوتا ہے اور پھر فوجی دماغ بھی کچھ خاص سانچوں میں ڈھلا ہوتا ہے، اگر فوج سے بددلی کو فورا دور اور رفع نہ کیا جائے تو اس کی وفا داری متاثر ہوسکتی ہے ، یہ انتہائی تشویشناک صورت حال اور تکلیف دہ و مشکل مرحلہ ہوتا ہے، فوجی قوانین بھی کچھ الگ ہوتے ہیں، مگر حضورﷺ نے نہ کورٹ مارشل کیا نہ کریک ڈاؤن کیا اور نہ ہی کسی پر فرد جرم عائد کیا، آپ نے انصار کے معزز افراد سے فرمایا کہ سارے انصار کو ایک خیمہ میں جمع کرو، کوئی دوسرا اس میں شریک نہ ہو کچھ مہاجر آئے تو آپ نے ان کو واپس کردیا، جب سارے لوگ جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جو مختصر اور انتہائی جامع و پر اثر تقریر کی اور جس نے ماحول کو یکسر بدل دیا اور ساری بدگمانی ختم ہوگئی، اس تقریر کے اس اقتباس کو سنیئے تاریخ انسانی میں اس زیادہ موثر تقریر اور پر اثر خطاب کی کوئی مثال اور کوئی نمونہ موجود نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”
اما ترضون ان یذھب الناس بالاموال و ترجعون الی رحالکم برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔
اے انصاریو! بتاو کیا تم کو اس پر خوشی نہیں ہوگی کہ لوگ دنیاوی مال و متاع لے کر گھروں کو جائیں اور تم لوگ اللہ کے رسول ﷺ کو لے کر اپنے گھروں کو لوٹو۔۔ مشکوۃ۔۔
جی چاہ رہا ہے کہ پوری تقریر اور خطاب نقل کردوں، لیکن طوالت کے خوف سے صرف خطاب معجزہ کا ترجمہ پیش کررہا ہوں، لیکن ترجمہ میں اصل کی روح اور روانی نہیں آسکتی۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد و ثنا کے بعد فرمایا،،
انصار کے لوگو! تمہاری یہ کیا چہ میگوئی ہے ،جو میرے علم میں آئی ہے؟ اور یہ کیا ناراضگی ہے جو جی ہی جی میں تم نے مجھ پر محسوس کی ہے؟ کیا ایسا نہیں کہ میں تمہارے پاس اس حالت میں آیا کہ تم لوگ گمراہ تھے، اللہ نے تمہیں ہدایت دی اور محتاج تھے اللہ نے تمہیں غنی بنا دیا۔ اور باہم دشمن تھے، اللہ نے تمہارے دل جوڑ دئے؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا بڑا فضل و کرم ہے۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا،، انصار کے لوگو! مجھے کیوں جواب نہیں دیتے؟ انصار نے عرض کیا یا رسول اللہ! بھلا ہم آپ کو کیا جواب دیں؟ اللہ اور اس کے رسول کا فضل و کرم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،، دیکھو! خدا کی قسم اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو۔ اور سچ ہی کہو گے اور تمہاری بات سچ ہی مانی جائے گی، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس اس حالت میں آئے کہ آپ کو جھٹلایا گیا تھا، ہم نے آپ کی تصدیق کی، آپ کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا تھا، ہم نے آپ کی مدد کی، آپ کو دھتکارا گیا تھا ہم نے آپ کو ٹھکانہ دیا، آپ محتاج تھے، ہم نے آپ کی غمخواری و غمگساری کی۔
اے انصار کے لوگو! تم اپنے جی میں دنیا کی اس عارضی دولت کے لیے ناراض ہوگئے جس کے ذریعہ میں نے لوگوں کا دل جوڑا تھا تا کہ وہ مسلمان ہوجائیں اور تم کو تمہارے اسلام کے حوالے کر دیا تھا؟ اے انصار کے لوگو! کیا تم اس پر راضی نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے کر جائیں اور تم رسول ﷺ کو اپنے گھروں میں لے کر واپس ہو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا۔ اگر سارے لوگ ایک راہ پر چلیں اور انصار دوسری راہ چلیں تو میں بھی انصار کی ہی راہ چلوں گا۔ اے اللہ رحم فرما انصار پر اور ان کے بیٹوں پر اور ان کے بیٹوں کے بیٹوں یعنی پوتوں پر۔۔
اس پر اثر اور معجزاتی نیز حکمت و نفسانیت کی رعایت سے بھرپور تقریر اور خطاب معجز نے انصار کی آنکھوں سے پردے اٹھا دئے لوگ جوش مسرت سے چیخ پڑے اور ہر طرف سے آواز آنے لگی یا رسول قد رضینا یا رسول اللہ قد رضینا۔ ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے اور نصیب میں رسول ﷺ ہوں۔ (مستفاد الرحیق المختوم ۶۰۴)
آنحضرتﷺ انصار کی والہانہ محبت وفاداری اور جانثاری کے جذبات سے واقف تھے اور مخلصانہ عقیدت و محبت میں اپنے محبوب کے لیے انسان اپنی ساری کائنات تج کرسکتا ہے، حضور ﷺ کے ان دو بول اور جملے نے اسی جذبئہ محبت کو بیدار کر دیا، نتیجہ سامنے آگیا، یہاں حکمت و نفسیات،کے ساتھ ادب کی جلوہ گری نے بھی اپنا کام کیا اور یہ ایک ادیب کے کمال فن کا سب سے بڑا ثبوت اور کمال ہوتا ہے کہ وہ الفاظ سے سوئے جذبات کو بیدار کردے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوامع الکلم کی دولت سے خدا تعالٰی نے دنیا میں سب سے زیادہ مالا مال کیا تھا۔
نوٹ باقی کل کے پیغام میں۔۔۔۔