علم روشنی کانام ہے اورجہالت تاریکی کہلاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا پہلا زینہ ہے ،علم سے انسان کو بلندی ملتی ہے ، اس سے اس کی زندگی کا نہ صرف معیار بدلتا ہے بلکہ وہ سماج کی نگاہ میں بھی عظیم شخصیت کے طور پرمانا جاتا ہے ، اسی لئے مذہب ا سلام نے مرد وعورت دونوں کے لئے یکساں تعلیم کے حصول کو فرض قرار دیاہے اور اس کے لئے جد وجہد کو لازم و ضروری بتلایا ہے ۔ دینی تعلیم ہر مسلمان کا مذہبی حق ہے ،اس کا حصول بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہوا پانی اور انسانی وسماجی ضروریات کا حصول،اس کے ساتھ ہی پروفیشنل تعلیم کی بھی اشدضرورت ہے، اکثر مسلم علاقوں میں اچھے اسکول ،کالج ،انجینر نگ کا لج اور میڈیکل کا لج کی بڑی کمی ہے ،صاحب ثروت افراد کو بھی اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے ،ذہین اور محنتی طلبہ کا انتخاب کر کے ان کو تکنیکی وپروفیشنل ایجو کیشن سے جوڑنا ،ان طلبہ کو مقابلہ جاتی امتحانوں میں شریک کرنا،ان کی حوصلہ افزائی کے لئے مددکرنا،کوچنگ ،اور تحقیق وریسرچ کے مواقع فراہم کرناوغیرہ یہ سب کرنے کے لئے اہم کام ہیں اور اسی سے مسلم معاشرے کی پوزیشن مستحکم بھی ہوسکتی ہے اور معاشرہ ترقی بھی کرسکتا ہے ۔ نبی کریمﷺنے خود ارشاد فر مایا:میں معلم بنا کر بھیجا گیاہوں، ظاہر ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو صرف قرآن نہیں پڑھایا،نماز اور طہارت کے مسائل نہیںسکھلائے،بلکہ دینیات کے ساتھ فن سپہ گری بھی سکھایا ،گھڑسواری کی تعلیم بھی دی،دفاعی پوزیشن میںآلاتِ حرب کا استعمال بھی بتلایا،جرمانے کے طور پر گرفتا رشدگان سے اپنی زبان سکھانے کی شرط بھی رکھی اور اس کے علاوہ صحابہ کو غےر عربی زبان سیکھنے کی تعلیم بھی دی۔
ملک میں مسلمانوں کی موجودہ حالت کیا ہے ،بے چارے راجندر سچر اپنی سچر کمیٹی کی رپوٹ میں سچ کو بیان کر کے چلے بھی گئے ، کہ ملک میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے :کبھی مسلمان مختلف شعبوں میں 11سے 14 فیصد تک ہوا کرتے تھے اور دلت ساڑھے تین فیصد تھے،مگر آج وہی مسلمان ڈھائی فیصد سے بھی کم پر آکر کھڑا ہے ،جبکہ دلتوں کا گراف یقیناً بڑھا ہے۔یعنی سوئی ہوئی قومیں جاگ اٹھیں بیدار مسلماں سوتا رہا۔اگر ہم صرف تعلیم میں اپنی پوزیشن بحال کرنے کے لئے متحد اور منظم ہوجائیں ،تو ہم اپنا کھویا ہوا وقار واپس لانے میں یقینا کامیاب ہوسکتے ہیں ، اب بھی اگر ہم اتحاد بنا لیں اور اجتماعیت پیدا کر لیں،بیداری اپنے اندر لے آئیں،تو قوموں کی امامت ایک بارپھر ہمارا نصیبہ ہو سکتی ہے۔
سبق پڑھ پھر شجاعت کا ،صداقت ،امانت کا
لیا جائے گا تجھ سے کا م قوموں کی امامت کا
زندہ قوموں کی تاریخ رہی ہے کہ وہ آپس میں متحد اور منظم ہو تی ہے،وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانندمیدان کارزار میں ٹھہر نے کی صلاحیت رکھتی ہے ، وہ جہاں بھی رہتی ہے اپنی شناخت اور پہچان کے ساتھ رہتی ہے ،وہ اپنے ہر عمل میں اجتماعیت کو فوقیت دیتی ہے ،چاہے تعلیم کا مسئلہ ہو یا تجارت کا،تعمیر کی بات ہو یاتفہیم کی،رہائش کا معاملہ ہو یا زر ،زمین کا،سماجی ،معاشی ،معاشرتی اورصنعتی وغیرہ جیسے بھی مسائل ہوں،ہر قدم وہ پھونک پھونک کر رکھتی ہے،اس کی نظر ہمیشہ میل کے پتھر پر رہتی ہے،اسے اس بات کا حددرجہ احساس رہتا ہے کہ
قوت فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے
تب کسی قوم کی قسمت پہ زوال آتا ہے
زندہ قومیں حکمت ودانائی اور فہم وتدبر سے کام لیتے ہوئے وہ صرف اللہ سے ڈرتی ہیں ،ان کی نگاہ میں قادر مطلق صرف اللہ ہے ،جس کی تدبیریں دیر سویرتمام تدبیروں پر غالب ہوکے رہتی ہے اور وہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے، مومن حالات سے نہیں گھبراتا ،وہ تو حالات کے درمیان ہی جیتا ہے ،خود نبی پاک ﷺ کی پوری تریسٹھ سالہ زندگی ہمارے لئے نمونہ ہے ، چاہے وہ دس سالہ مکی زندگی ہویا تیرہ سالہ مدنی زندگی ہو ،کہاں حالات نہیں تھے اور کب کب نہیں رہے ؟ تاریخ میں کبھی ایسا دور نہیں گذرا ، جس میں مسلمانوں کے ساتھ ناموافق حالات نہ آئے ہوں ،وحی قرآنی سے ہمیں یہ روشنی ملتی ہے [ ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے جان ومال کے اعتبار سے]
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
کسی بھی تحریک کے لئے تو ابتداءمیں تنظیم ،اجتماعیت اور ٹیم ورک کے لئے افرادی قوت کی غیر معمولی اہمیت ہوتی ہے ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ تحریک کی کامیابی یا ناکامی کا مدار قلت وکثرت پر موقوف نہیں رہا ہے،مگر ہاں اس میں اولوالعزمی،ثبات قدمی، خلوص وللہیت ،جد وجہد ،تڑپ،بے چینی،بیداری اور فکر مندی کو بڑا دخل ہے ۔
اتحاد وتنطیم کے حوالے سے امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی ؒنے تاریخی جملہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا : "ہم نے ایک سبق کو یاد نہیں رکھا ،جو کسی بھی جماعت اور تنظیم کے لئے نہایت ضروری اور بے حد اہم ہے ،ہم نے ،اتحاد،تنظیم،ایثار اور قربانی کو اپنے ذہنوں اور زندگی سے کھرچ کر نکال دیا ۔یاد رکھئے ! کوئی بھی قوم مضبوط تنظیم اور قربانی کے جذبے کے بغیرآگے نہیں بڑھ سکتی ، خصوصا موجودہ حالات میں اتحاد اور تنظیم کے بغیر زندگی کا تصور نا ممکن ہے ،یہ دور حق کو لڑ کر حاصل کرنے کا ہے،کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ مطالبہ معقول ہے یا غیر معقول۔ سب یہ دیکھتے ہیں کہ مطالبہ کے پیچھے کتنے انسانوں کی قوت ہے ۔ آج وہی مطالبے مانے جاتے ہیں ،جن کے پیچھے متحد اور ایثار پسند انسانوں کی بڑی تعداد ہوتی ہے ۔
تعلیم ،تنظیم اور تحریک کے بعد فطری طور پر نظر نتیجے کی طرف اٹھے گی اور دل میں کامیابی کا خیال آئےگا ۔اس سلسلے میں اسلامی ہدایات ہمارے پیش نظر ہمیشہ رہنی چاہیے۔ چنانچہ صحابہ کرام میدان کارزار میں ہوتے ،اذیتوں کا سلسلہ بدستور جاری رہتا ،کبھی کبھی احساس کے الفاظ زبان مبارک سے اداہوجاتے ،متی نصراللہ، یعنی اللہ کی مدد کب آئے گی، اللہ کی طرف سے جواب آتا کہ مومنوں کی مدد کرنا میری ذمہ داری ہے ،یعنی مومنوں کو حکم تھا کہ وہ راہ خدا میں مجاہد ہ کریں اور نتیجہ میرے ذمہ چھوڑدیں ،ہم مومنوں کا اجر، اس کی محنت وقربانی برباد نہیں ہونے دیں گے مومنوں کو مدد پہونچانا میری ذمہ داری ہے ۔
معلوم ہوا کہ مسلمانوں کووفا و صلہ سے بے نیاز ہوکر تعلیمی مرا حل ،تنظیمی امور اورسماجی تحریکات کا بھر پور ساتھ دینا چاہئے ،اس درمیان دل میں یہ بات نہیں آنی چاہئے کہ سہرا کس کے سر بندھے گا،نام کس کا روشن ہوگا اور ہم کو کیا ملے گا ،لوگ ہمیں کیا کہیں گے ،گاؤں سماج کیا کہے گا ۔
ہمیں خاندان وقبیلہ،ذات برادری جیسے تا ر عنکبوت سے بھی بچ بچا کر اس عظیم خدمت کو اپنے لئے ،اپنے پورے سماج کی کامیابی کے لئے سعادت و نیک بختی سمجھنا چاہئے اور مفکر اسلام ،امیرشریعت سابع مولانا سید محمد ولی رحمانی کے اِن جملوں کو دلوں میں جگہ دیجئے : "آبلہ پائی کے باوجودآ ہنی کانٹوں پر قدم بڑھانے کا دوسرانام ملی قیادت ہے ،تعریف سے خوش فہمی اور مخالفت سے شکست حوصلگی میں مبتلا نہ ہوں ،یہ دونوں چیزیں منزل سے دور کرنے والی اور وقتی ہیںان سے پہلو بچا کر نکل جانا ہی بہتر ہے ،جب رضائے الہی پیش نظر ہو تو تعریف اپنا مزہ اور مخالفت اپنااثر کھودیتی ہے ۔انسان کی زندگی سانسوں کے آنے جانے کا نام نہیں ہے ،یہ زندگی تو جانور بھی جی لیتے ہیں ،انسان کی زندگی، محنت حکمت اور عبادت کا مجموعہ ہے "